Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: Regarding The Ghusl For Janabah)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
246.
جناب شعبہ (ابوعبداللہ بن دینار مولیٰ ابن عباس) بیان کرتے ہیں کہ سیدنا ابن عباس ؓ جب غسل جنابت کرتے تو اپنے دائیں ہاتھ سے بائیں پر سات بار پانی ڈالتے۔ پھر اپنی شرمگاہ دھوتے۔ ایک دفعہ وہ بھول گئے کہ کتنی بار پانی ڈالا ہے تو مجھ سے پوچھنے لگے کہ میں نے کتنی بار پانی ڈالا ہے؟ میں نے کہا مجھے معلوم نہیں، کہا نہ رہے تیری ماں! جاننے سے تجھے کیا مانع ہوا؟ پھر وضو کیا جیسے کہ نماز کے لیے ہوتا ہے۔ پھر اپنے جسم پر پانی ڈالتے اور کہتے کہ رسول اللہ ﷺ اسی طرح سے طہارت حاصل کیا کرتے تھے۔
تشریح:
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده ضعيف؛ لأن شعبة- وهو ابن دينار مولى ابن عباس- سيئ الحفظ، حتى قال ابن حبان: روى عن ابن عباس ما لا أصل له، حتى كأنه ابن عباس آخر . ولذلك قال المنذري في مختصره : لا يحتج بحديثه ) . إسناده: حدثنا الحسين بن عيسى الخُراسانِيُ: ثنا ابن أبي فُديْكٍ عن ابن أبي ذئب عن شعبة. وهذا إسناد ضعيف، رجاله كلهم ثقات؛ غير شعبة هذا- وهو ابن دينار مولى ابن عباس-، وقد ضعفه الجمهور، فقال ابن معين: لا يكتب حديثه . وقال الجوزجاني والنسائي: ليس بقوي . وقال ابن سعد: لا يحتج به . وقال أبو حاتم: ليس بالقوي وقال بشر بن عمر الزهراني: سالمت عنه مالكاً؟ فقال: ليس بثقة . وقال البخاري: يتكلم فيه مالك، ويحتمل منه . قال أبو الحسن بن القطان الفاسي: قوله: ويحتمل منه؛ يعني: من شعبة، وليس هو ممن يترك حديثه. قال: ومالك لم يضعفه؛ وإنما شح عليه بلفظة: ثقة . قال الحافظ: هذا التأويل غير سائغ؛ بل لفظة: ليس بثقة في الاصطلاح توجب الضعف الشديد. وقد قال ابن حبان: روى عن ابن عباس ما لا أصل له، حتى كأنه ابن عباس آخر . وقال في التقريب : صدوق سيئ الحفظ . والحديث أخرجه للطيالسي (رقم 2728) : قال: حدث ا ابن أبي ذئب... به.
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
جناب شعبہ (ابوعبداللہ بن دینار مولیٰ ابن عباس) بیان کرتے ہیں کہ سیدنا ابن عباس ؓ جب غسل جنابت کرتے تو اپنے دائیں ہاتھ سے بائیں پر سات بار پانی ڈالتے۔ پھر اپنی شرمگاہ دھوتے۔ ایک دفعہ وہ بھول گئے کہ کتنی بار پانی ڈالا ہے تو مجھ سے پوچھنے لگے کہ میں نے کتنی بار پانی ڈالا ہے؟ میں نے کہا مجھے معلوم نہیں، کہا نہ رہے تیری ماں! جاننے سے تجھے کیا مانع ہوا؟ پھر وضو کیا جیسے کہ نماز کے لیے ہوتا ہے۔ پھر اپنے جسم پر پانی ڈالتے اور کہتے کہ رسول اللہ ﷺ اسی طرح سے طہارت حاصل کیا کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
شعبہ کہتے ہیں کہ ابن عباس ؓ جب غسل جنابت کرتے تو اپنے داہنے ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر سات مرتبہ پانی ڈالتے، پھر اپنی شرمگاہ دھوتے، ایک بار وہ بھول گئے کہ کتنی بار پانی ڈالا، تو آپ نے مجھ سے پوچھا کہ میں نے کتنی بار پانی ڈالا؟ میں نے جواب دیا: مجھے یاد نہیں ہے، آپ نے کہا: تیری ماں نہ ہو ۱؎ تمہیں یہ یاد رکھنے میں کون سی چیز مانع ہوئی؟ پھر آپ وضو کرتے جیسے نماز کے لیے وضو کرتے ہیں، پھر اپنے پورے جسم پر پانی بہاتے، پھر کہتے: اسی طرح رسول اللہ ﷺ طہارت حاصل کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: یہ جملہ اہل عرب تعجب کے وقت بولتے ہیں، اس سے بددعا مقصود نہیں ہوتی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Shu’bah (RA) reported: When Ibn ‘Abbas (RA) took a bath because of sexual defilement, he poured (water) over his left hand with his right hand seven times. Once he forgot how many times he had poured (water). Therefore he asked me: how many times did I pour (water)? I do not know. He said: may you miss your mother! What prevented you from remembering it? He then performed ablution as he did for prayer and poured water over his skin (body). He then said: this is how the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) purified (himself).