مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2462.
ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ رمضان مبارک کے آخری دہے میں اعتکاف کیا کرتے ہیں، آخر حیات تک آپ کا یہ معمول رہا، آپ کے بعد پھر آپ کی ازواج مطہرات بھی اعتکاف بیٹھا کرتی تھیں۔
تشریح:
(1) اعتکاف کے لغوی معنی ہیں: کسی چیز کے ساتھ پابند ہو جانا یا کہیں بند رہنا۔ اور شرعی اصطلاح میں: رب ذوالجلال کی عبادت کے لیے انسان کا اپنے آپ کو کسی مسجد میں پابند کر لینا، اعتکاف کہلاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے اس کا مشروع، مسنون اور مستحب ہونا ثابت ہے۔ قرآن مجید میں بھی اس کا ذکر آیا ہے: (وَعَهِدْنَآ إِلَىٰٓ إِبْرَٰهِـۧمَ وَإِسْمَـٰعِيلَ أَن طَهِّرَا بَيْتِىَ لِلطَّآئِفِينَ وَٱلْعَـٰكِفِينَ وَٱلرُّكَّعِ ٱلسُّجُودِ)(البقرة: 125) ہم نے ابراہیم اور اسماعیل علیھم السلام کو حکم دیا کہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں، اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک رکھو۔ دوسری آیت میں فرمایا: (وَلَا تُبَـٰشِرُوهُنَّ وَأَنتُمْ عَـٰكِفُونَ فِى ٱلْمَسَـٰجِدِ)(البقرہ:187) اور جب تک تم مساجد میں اعتکاف کیے ہوئے ہو، عورتوں سے ملاپ نہ کرو۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ بستی والوں میں سے کوئی نہ کوئی ضرور اعتکاف بیٹھے، یہ محض وہم ہے۔ اس کی کوئی شرعی اصلیت نہیں ہے۔ جب تک کوئی اپنے اوپر لازم نہ کرلے، یہ واجب نہیں ہوتا۔ (2) خواتین بھی اعتکاف کر سکتی ہین بشرطیکہ شوہر اجازت دے۔ اور عورت کے لیے بھی اعتکاف کی جگہ مسجد ہی ہے، نہ کہ گھر۔ تاہم یہ ضروری ہے کہ عورتوں کے لیے مسجد میں پردے اور حفاظت کا خاطر خواہ انتطام ہو۔ جس مسجد میں ایسا انتظام نہ ہو، وہاں عورتوں کا اعتکاف بیٹھنا بھی صحیح نہیں ہے۔ اسی طرح گھروں میں اعتکاف بیٹھنا بھی غیر صحیح ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين. وقد أخرجاه، وإسناد مسلم إسناد المؤلف) . إسناده: حدثنا قتيبة بن سعيد: ثنا الليث عن عُقَيْل عن الزهري عن عروة عن عائشة.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين؛ وقد أخرجاه كما يأتي. والحديث أخرجه مسلم (3/175) ، والنسائي في الكبرى (ق 68/2) ، وأحمد (6/92) : حدثنا قتيبة بن سعيد... به. وأخرجه البخاري والبيهقي من طريق أخرى عن الليث... به. وهو مخرج في الإرواء (966) . وتابعه معمر وابن جريج عن الزهري... به؛ دون اعتكاف الأزواج: أخرجه ابن الجارود (407) ، وابن حبان في صحيحه (916) . وأخرجاه عن الزهري عن سعيد بن المسيب عن أبي هريرة... به. وكذلك أخرجه ابن خزيمة (2223) ؛ لكنه لم يذكر معمراً. وحديث أبي هريرة: عند البخاري من طريق أخرى عنه. وأخرجه أحمد (2/281) ... مثل رواية ابن الجارود وابن حبان.
صوم یا صیام (مصدر )کے مغوی معنی امساک ،یعنی کسی چیز سے رکنے کی کے ہیں اورشرعی اصطلاح میں یہ اللہ تعالی کی ایک عبادت ہے جس میں ایک مسلمان اللہ تعالی کے حکم سے تمام مفطرات (روزہ توڑنے والی چیزوں ،مثلا کھانا پینا اور بیوی سے مباشرت کرنا )سے طلوع فجر سے غروب آفتاب تک رکا رہتا ہے یہ ساری چیزیں اگرچہ حلال ہیں لیکن روزے کی حالت میں یہ چیزیں ممنوع ہیں اس لئے اللہ تعالی کی رضا کے لئے اللہ تعالی کے حکم پر فجر سے لے کر سورج غروب ہونے تک ،ان تمام چیزوں سے بچ کر رہنے کا نام روزہ ہے ۔
مقصد: روزہ رکھنے کا مقصد حصول تقویٰ ہے جیسا کہ (لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ)’’ تا کہ تم متقی بن جاؤ۔‘‘سے ثابت ہوتا ہے ۔گویا اللہ تعالیٰ کے احکام کے لیے ہمیشہ تیار رہنے اور منہیات سے باز رہنے کی یہ ایک عملی تربیت ہے-
اھمیت و فرضیت:روزہ اسلام کے ارکان خمسہ میں سے ایک اہم رکن ہے قرآن مجید میں ہے: ’’اے ایمان والو! تم پر روزہ رکھنا فرض قرار دیا گیاہے جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض تھا۔‘‘ حدیث میں ہے’’اسلام کی بنیادیں پانچ ہیں :اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں اور محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں نماز قائم کرنا‘رکوٰۃادا کرنا ‘رمضان کے روزے رکھنا اور بیت اللہ کا حج کرنا۔‘‘(صحيح البخارى .حديث&8 و صحيح مسلم حديث 16)سورۂ بقرہ میں آیت :183 سے :187 تک روزوں کی فرضیت اور دیگر مسائل بیان کیے گئے ہیں ۔ رمضان المبارک کے روزوں کی بابت نبئ اکرمﷺ نے فرمایا: جس ن رمضان کے روزے رکھے ‘ایمان کی حالت میں اور ثواب کی نیت سے تو اس کے گزشتہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔‘‘(صحیح البخاری ‘الصوم ‘ حدیث:1901) ایک اور حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: پانچوں نمازیں‘جمعہ دوسرے جمعے تک اور رمضان دوسرے رمضان تک ‘ان گناہوں کا کفارہ ہیں جو ان کے درمیان ہوں ‘بشرطیکہ کبیرہ گناہوں سے اجتناب کیا جائے۔‘‘(صحیح مسلم‘الطہارۃ‘حدیث:233)حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور ایک روایت میں آتا ہے کہ آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں‘جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیاطین قید کر دیے جاتے ہیں۔(صحیح البخاری‘ الصوم‘حدیث:1899‘وبد ءالخلق‘ حدیث:3277)روزے کے اجر کی بابت نبئ اکرم ﷺ نے فرمایا :آدمی کے ہر عمل کا ثواب دس گناہ سے لے کر سات سو گنا تک بڑھا کر دیا جاتا ہے لیکن روزے کے اجر و ثواب کی بابت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزادوں گا کیونکہ روزہ دار نے اپنی ساری خواہشات اور کھانا پینا صرف میری خاطر چھوڑا ہے۔مزید آپ نے فرمایا روزہ دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کو مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ پسند ہے۔‘‘(صحیح البخاری ‘الصوم ‘ حدیث:1904)فرض روزوں کے لیے رات طلوع فجر سے قبل روزے کی نیت کرنا ضروری ہے جیسا کہ نبئ کریم ﷺ کا فرمان ہے:’’جس نے فجر سے پہلے رات کو روزے کی نیت نہ کی اس کا روزہ نہیں۔‘‘(سنن ابی داود‘الصیام‘حدیث:2454)رمضان المبارک میں رات کو ہر مسلمان کی نیت ہوتی ہے کہ اس نے صبح روزہ رکھنا ہے ‘ رات کو تراویح(قیام اللیل) کا اہتمام کرتا ہے اور سحری وغیرہ کا انتظام بھی کرتا ہے اس اعتبار سے نیت تو بہر حال ہوتی ہی ہے کیونکہ نیت کا محل دل ہے نہ کہ زبان۔یہی وجہ ہے کہ روزہ رکھنے کی نیت کے کوئی الفاظ نبئ کریم ﷺ سے ثابت نہیں ہیں اور یہ جو عام کیلنڈروں میں الفاظ لکھے ہوتے ہیں(وَبِصَومِ غَدٍ نَوَيْتُ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ)اس کی کوئی سند نہیں ہے‘ بالکل بے اصل ہے یہ دعا معنی اور مفہوم کے اعتبار سے بھی درست نہیں ہے۔روزے کا وقت طلوع فجر سے غروب شمس تک ہے صبح صادق سے پہلے سحری کھالی جائے اور پھر سورج غروب ہونے تک تمام مفطرات سے اجتناب کیا جائے۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ سحری کھانا ضروری نہیں اور وہ رات ہی کو کھا پی کر سو جاتے ہیں یا آدھی رات کو کھا لیتے ہیں یہ دونوں باتیں ہی سنت رسول سے ثابت نہیں ہیں۔رسول اللہ کا فرمان ہے:’’ہمارے اور اہل کتاب کے روزے کے درمیان فرق کرنے والی چیز سحری کا کھانا ہے۔‘‘(صحیح مسلم‘ الصیام‘ حدیث:1096)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اہل کتاب سحری نہیں کھاتے اور مسلمان سحری کھا کر روزہ رکھتے ہیں۔ اس لیے سحری ضرور کھانی چائیے چاہے ایک دو لقمے ہی کیوں نہ ہوں اس میں برکت بھی ہے اور جسمانی قوت کا ذریعہ بھی اور یہ دونوں چیزیں روزہ نبھانے کے لیے ضروری ہیں اسی طرح رسول اللہ ﷺ کا معمول یہ تھا کہ سحری فجر سے تھوڑی دیر پہلے یعنی بالکل آخر ی وقت میں کھایا کرتے تھے لہذا ہمیں بھی اس طریق نبوی کی اپنانا چاہیے یقینا ہمارے لیے اس میں بڑے فائدے فائدے ہیں اللہ تعالیٰ ہماری صراط مستقیم کی طرف رہنمائی فرمائے۔ آمین۔
ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ اپنے روزے کو ان اقوال و اعمال سے بچائے جنہیں اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے ‘ کیونکہ روزے سے مقصود یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا اطاعت اور بندگی کی جائے ‘ اس کی محرمات کی تعظیم بجا لائی جائے ‘نفس کے خلاف جہاد کیا جائے اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے مقابلے میں اس نفس کی خواہش کی مخالفت کی جائے اللہ تعالیٰ نے جن باتوں کو حرام قرار دیا ہے ان پر صبر کا نفس کو عادی بنایا جائے کیونکہ روزے سے محض یہ مقصود نہیں ہے کہ کھانا پینا اور دیگر مفطرات کو ترک کر دیا جائے یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا:’’روزہ ڈھال ہے جب تم میں سے کسی نے روزہ رکھا ہو تو وہ نہ فحش باتیں کرے اور نہ شور وغوغا کرے‘ اگر اسے کوئی گالی دے یا لڑائی جھگڑا کرے تو اس سے کہہ دے کہ میں روزہ دار ہوں‘‘(صحیح البخاری ‘الصوم ‘ حدیث:1904) اسی طرح آپ ﷺ سے یہ بھی مروی ہے کہ جو شخص جھوٹی بات‘ اس کے مطابق عمل اور جہالت کو ترک نہ کرے تو اللہ تعالیٰ کو اس بات کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا تر ک کرے۔(صحیح البخاری ‘الصوم ‘ حدیث:1903) مذکورہ بالا اور دیگر نصوص سے یہ معلوم ہوا کہ روزے دار پر واجب ہے کہ وہ ہر اس چیز سے اجتناب کرے جسے اللہ تعالیٰ نے اس پر واجب قرار دیا ہے کیونکہ اسی عمل ہی سے مغفرت ‘جہنم سے آزادی اور صیام و قیام کی قبولیت کی اُمید کی جا سکے گی۔(روزہ سے متعلق احکام و مسائل کے لیے دیکھیے کتاب ’’ رمضان المبارک ‘فضائل‘ فوائد و ثمرات ‘‘ از حافظ صلاح الدین یوسف ‘ مطبوعہ دارالسلام)
ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ رمضان مبارک کے آخری دہے میں اعتکاف کیا کرتے ہیں، آخر حیات تک آپ کا یہ معمول رہا، آپ کے بعد پھر آپ کی ازواج مطہرات بھی اعتکاف بیٹھا کرتی تھیں۔
حدیث حاشیہ:
(1) اعتکاف کے لغوی معنی ہیں: کسی چیز کے ساتھ پابند ہو جانا یا کہیں بند رہنا۔ اور شرعی اصطلاح میں: رب ذوالجلال کی عبادت کے لیے انسان کا اپنے آپ کو کسی مسجد میں پابند کر لینا، اعتکاف کہلاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے اس کا مشروع، مسنون اور مستحب ہونا ثابت ہے۔ قرآن مجید میں بھی اس کا ذکر آیا ہے: (وَعَهِدْنَآ إِلَىٰٓ إِبْرَٰهِـۧمَ وَإِسْمَـٰعِيلَ أَن طَهِّرَا بَيْتِىَ لِلطَّآئِفِينَ وَٱلْعَـٰكِفِينَ وَٱلرُّكَّعِ ٱلسُّجُودِ)(البقرة: 125) ہم نے ابراہیم اور اسماعیل علیھم السلام کو حکم دیا کہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں، اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک رکھو۔ دوسری آیت میں فرمایا: (وَلَا تُبَـٰشِرُوهُنَّ وَأَنتُمْ عَـٰكِفُونَ فِى ٱلْمَسَـٰجِدِ)(البقرہ:187) اور جب تک تم مساجد میں اعتکاف کیے ہوئے ہو، عورتوں سے ملاپ نہ کرو۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ بستی والوں میں سے کوئی نہ کوئی ضرور اعتکاف بیٹھے، یہ محض وہم ہے۔ اس کی کوئی شرعی اصلیت نہیں ہے۔ جب تک کوئی اپنے اوپر لازم نہ کرلے، یہ واجب نہیں ہوتا۔ (2) خواتین بھی اعتکاف کر سکتی ہین بشرطیکہ شوہر اجازت دے۔ اور عورت کے لیے بھی اعتکاف کی جگہ مسجد ہی ہے، نہ کہ گھر۔ تاہم یہ ضروری ہے کہ عورتوں کے لیے مسجد میں پردے اور حفاظت کا خاطر خواہ انتطام ہو۔ جس مسجد میں ایسا انتظام نہ ہو، وہاں عورتوں کا اعتکاف بیٹھنا بھی صحیح نہیں ہے۔ اسی طرح گھروں میں اعتکاف بیٹھنا بھی غیر صحیح ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام المؤمنین عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرماتے تھے، اور آپ ﷺ کا یہ معمول وفات تک رہا، پھر آپ کے بعد آپ کی بیویوں نے اعتکاف کیا۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'Aishah (RA) said: The Prophet (ﷺ) used to observe retirement (I'tikaf) to the mosque during the last ten days of Ramadan till Allah took him, and then his wives observed retirement to the mosque after his death.