Abu-Daud:
Fasting (Kitab Al-Siyam)
(Chapter: The Person Observing I'tikaf Entering His House For A Need)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2468.
ابن شہاب زہری بواسطہ عروہ اور عمرہ ، سیدہ عائشہ ؓ سے اور وہ نبی کریم ﷺ سے مذکورہ بالا حدیث کی مانند روایت کرتی ہیں۔ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں اور ایسے ہی یونس نے بھی زہری سے روایت کیا ہے۔ اور کسی نے بھی «عروة ، عن عمرة» کی سند میں مالک کی متابعت نہیں کی ہے۔ معمر اور زیاد بن سعد وغیرہ «الزهري ، عن عروة ، عن عائشة» کی سند سے روایت کرتے ہیں۔
تشریح:
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين. وقد أخرجاه، وأحد أسانيدهما كأحد إسنادي المصنف، والترمذي. وصححه هو وابن الجارود وابن خزيمة) . إسناده: حدثنا عبد الله بن مَسْلَمَةَ عن مالك عن ابن شهاب عن عروة بن الزبير عن عمرة بنت عبد الرحمن عن عائشة. حدثنا قتيبة بن سعيد وعبد الله بن مسلمة: قالا: ثنا الليث عن ابن شهاب عن عروه وعمرة عن عائشة عن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ... نحوه. قال أبو داود: وكذلك رواه يونس عن الزهري. ولم يتابع أحد مالكاً على: عروة عن عمرة. ورواه معمر وزياد بن سعد وغيرهما عن الزهري عن عروة عن عائشة .
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين؛ على خلاف ببن مالك والليث كما يأتي بيانه في إسناده، لا يضر في صحته؛ وقد أخرجاه كما سأبينه. والحديث في موطأ مالك (1/290- 291) ... بإسناده ومتنه. وقد أخرجه مسلم (1/167) - والبيهقي (4/315) - من طريق يحيى بن يحيى-، وأحمد (6/262) - من طريق إسحاق بن عيسى- كلاهما عن مالك... به. وأخرجه ابن خزيمة (2231) ، والبيهقي من طريق عبد الله بن وهب: أخبرني يونس ومالك والليث عن ابن شهاب عن عروة وعمرة عن عائشة. فقال ابن وهب: عن مالك... عن عروة وعمرة؛ فجمع بينهما! وإنما هذا من رواية الليث ويونس. قال البيهقي- عقبه-: وكأنه حمل رواية مالك على رواية الليث ويونس. وأما مالك؛ فإنه يقول فيه: عن عروة عن عمرة . وأقول: الأقرب: أنه رواية عن مالك؛ فقد رواه بعضهم: عن مالك... فوافق الليث: أخرجه النسائي- كما قال الحافظ في الفتح (4/220) -، وهو في الصيام من كبرى النسائي (ق 70/2) . بل قال الترمذي في سننه (رقم 804) : حدثنا أبو مصعب المدني- قراءة- عن مالك بن أنس عن ابن شهاب عن عروه وعمرة... به، وقال: حديث حسن صحيح. هكذا رواه غير واحد عن مالك عن ابن شهاب عن عروة وعمرة عن عائشة. ورواه بعضهم عن مالك عن ابن شهاب عن عروة عن عمرة عن عائشة. والصحيح: عن عروة وعمرة عن عائشة. حدثنا بذلك قتيبة: حدثنا الليث بن سعد... فذكره مثل رواية المؤلف. وكذلك أخرجه البخاري (4/220) ، ومسلم والنسائي في الكبرى عن قتيبة... به. ومسلم وابن ماجه (1/540) عن محمد بن رُمْح: أخبرنا الليث... به. وأما مُعَلقُ يونس؛ فوصله النسائي وابن الجارود (409) ، وابن خزيمة (2230) . وأما معَلق معمر؛ فوصله عبد الرزاق في المصنف (1/324/1247) ، والنسائي أيضاً.. ليس فيه: عمرة. وكذلك وصله النسائي عن زياد بن سعد. وخلاصة القول: أن الصواب رواية الليث، وأن الباقين اختصروا منه ذكر عمرة. وأن مالكاً اختلف عليه فيه؛ والصحيح عنه كرواية الليث.
صوم یا صیام (مصدر )کے مغوی معنی امساک ،یعنی کسی چیز سے رکنے کی کے ہیں اورشرعی اصطلاح میں یہ اللہ تعالی کی ایک عبادت ہے جس میں ایک مسلمان اللہ تعالی کے حکم سے تمام مفطرات (روزہ توڑنے والی چیزوں ،مثلا کھانا پینا اور بیوی سے مباشرت کرنا )سے طلوع فجر سے غروب آفتاب تک رکا رہتا ہے یہ ساری چیزیں اگرچہ حلال ہیں لیکن روزے کی حالت میں یہ چیزیں ممنوع ہیں اس لئے اللہ تعالی کی رضا کے لئے اللہ تعالی کے حکم پر فجر سے لے کر سورج غروب ہونے تک ،ان تمام چیزوں سے بچ کر رہنے کا نام روزہ ہے ۔
مقصد: روزہ رکھنے کا مقصد حصول تقویٰ ہے جیسا کہ (لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ)’’ تا کہ تم متقی بن جاؤ۔‘‘سے ثابت ہوتا ہے ۔گویا اللہ تعالیٰ کے احکام کے لیے ہمیشہ تیار رہنے اور منہیات سے باز رہنے کی یہ ایک عملی تربیت ہے-
اھمیت و فرضیت:روزہ اسلام کے ارکان خمسہ میں سے ایک اہم رکن ہے قرآن مجید میں ہے: ’’اے ایمان والو! تم پر روزہ رکھنا فرض قرار دیا گیاہے جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض تھا۔‘‘ حدیث میں ہے’’اسلام کی بنیادیں پانچ ہیں :اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں اور محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں نماز قائم کرنا‘رکوٰۃادا کرنا ‘رمضان کے روزے رکھنا اور بیت اللہ کا حج کرنا۔‘‘(صحيح البخارى .حديث&8 و صحيح مسلم حديث 16)سورۂ بقرہ میں آیت :183 سے :187 تک روزوں کی فرضیت اور دیگر مسائل بیان کیے گئے ہیں ۔ رمضان المبارک کے روزوں کی بابت نبئ اکرمﷺ نے فرمایا: جس ن رمضان کے روزے رکھے ‘ایمان کی حالت میں اور ثواب کی نیت سے تو اس کے گزشتہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔‘‘(صحیح البخاری ‘الصوم ‘ حدیث:1901) ایک اور حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: پانچوں نمازیں‘جمعہ دوسرے جمعے تک اور رمضان دوسرے رمضان تک ‘ان گناہوں کا کفارہ ہیں جو ان کے درمیان ہوں ‘بشرطیکہ کبیرہ گناہوں سے اجتناب کیا جائے۔‘‘(صحیح مسلم‘الطہارۃ‘حدیث:233)حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور ایک روایت میں آتا ہے کہ آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں‘جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیاطین قید کر دیے جاتے ہیں۔(صحیح البخاری‘ الصوم‘حدیث:1899‘وبد ءالخلق‘ حدیث:3277)روزے کے اجر کی بابت نبئ اکرم ﷺ نے فرمایا :آدمی کے ہر عمل کا ثواب دس گناہ سے لے کر سات سو گنا تک بڑھا کر دیا جاتا ہے لیکن روزے کے اجر و ثواب کی بابت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزادوں گا کیونکہ روزہ دار نے اپنی ساری خواہشات اور کھانا پینا صرف میری خاطر چھوڑا ہے۔مزید آپ نے فرمایا روزہ دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کو مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ پسند ہے۔‘‘(صحیح البخاری ‘الصوم ‘ حدیث:1904)فرض روزوں کے لیے رات طلوع فجر سے قبل روزے کی نیت کرنا ضروری ہے جیسا کہ نبئ کریم ﷺ کا فرمان ہے:’’جس نے فجر سے پہلے رات کو روزے کی نیت نہ کی اس کا روزہ نہیں۔‘‘(سنن ابی داود‘الصیام‘حدیث:2454)رمضان المبارک میں رات کو ہر مسلمان کی نیت ہوتی ہے کہ اس نے صبح روزہ رکھنا ہے ‘ رات کو تراویح(قیام اللیل) کا اہتمام کرتا ہے اور سحری وغیرہ کا انتظام بھی کرتا ہے اس اعتبار سے نیت تو بہر حال ہوتی ہی ہے کیونکہ نیت کا محل دل ہے نہ کہ زبان۔یہی وجہ ہے کہ روزہ رکھنے کی نیت کے کوئی الفاظ نبئ کریم ﷺ سے ثابت نہیں ہیں اور یہ جو عام کیلنڈروں میں الفاظ لکھے ہوتے ہیں(وَبِصَومِ غَدٍ نَوَيْتُ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ)اس کی کوئی سند نہیں ہے‘ بالکل بے اصل ہے یہ دعا معنی اور مفہوم کے اعتبار سے بھی درست نہیں ہے۔روزے کا وقت طلوع فجر سے غروب شمس تک ہے صبح صادق سے پہلے سحری کھالی جائے اور پھر سورج غروب ہونے تک تمام مفطرات سے اجتناب کیا جائے۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ سحری کھانا ضروری نہیں اور وہ رات ہی کو کھا پی کر سو جاتے ہیں یا آدھی رات کو کھا لیتے ہیں یہ دونوں باتیں ہی سنت رسول سے ثابت نہیں ہیں۔رسول اللہ کا فرمان ہے:’’ہمارے اور اہل کتاب کے روزے کے درمیان فرق کرنے والی چیز سحری کا کھانا ہے۔‘‘(صحیح مسلم‘ الصیام‘ حدیث:1096)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اہل کتاب سحری نہیں کھاتے اور مسلمان سحری کھا کر روزہ رکھتے ہیں۔ اس لیے سحری ضرور کھانی چائیے چاہے ایک دو لقمے ہی کیوں نہ ہوں اس میں برکت بھی ہے اور جسمانی قوت کا ذریعہ بھی اور یہ دونوں چیزیں روزہ نبھانے کے لیے ضروری ہیں اسی طرح رسول اللہ ﷺ کا معمول یہ تھا کہ سحری فجر سے تھوڑی دیر پہلے یعنی بالکل آخر ی وقت میں کھایا کرتے تھے لہذا ہمیں بھی اس طریق نبوی کی اپنانا چاہیے یقینا ہمارے لیے اس میں بڑے فائدے فائدے ہیں اللہ تعالیٰ ہماری صراط مستقیم کی طرف رہنمائی فرمائے۔ آمین۔
ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ اپنے روزے کو ان اقوال و اعمال سے بچائے جنہیں اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے ‘ کیونکہ روزے سے مقصود یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا اطاعت اور بندگی کی جائے ‘ اس کی محرمات کی تعظیم بجا لائی جائے ‘نفس کے خلاف جہاد کیا جائے اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے مقابلے میں اس نفس کی خواہش کی مخالفت کی جائے اللہ تعالیٰ نے جن باتوں کو حرام قرار دیا ہے ان پر صبر کا نفس کو عادی بنایا جائے کیونکہ روزے سے محض یہ مقصود نہیں ہے کہ کھانا پینا اور دیگر مفطرات کو ترک کر دیا جائے یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا:’’روزہ ڈھال ہے جب تم میں سے کسی نے روزہ رکھا ہو تو وہ نہ فحش باتیں کرے اور نہ شور وغوغا کرے‘ اگر اسے کوئی گالی دے یا لڑائی جھگڑا کرے تو اس سے کہہ دے کہ میں روزہ دار ہوں‘‘(صحیح البخاری ‘الصوم ‘ حدیث:1904) اسی طرح آپ ﷺ سے یہ بھی مروی ہے کہ جو شخص جھوٹی بات‘ اس کے مطابق عمل اور جہالت کو ترک نہ کرے تو اللہ تعالیٰ کو اس بات کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا تر ک کرے۔(صحیح البخاری ‘الصوم ‘ حدیث:1903) مذکورہ بالا اور دیگر نصوص سے یہ معلوم ہوا کہ روزے دار پر واجب ہے کہ وہ ہر اس چیز سے اجتناب کرے جسے اللہ تعالیٰ نے اس پر واجب قرار دیا ہے کیونکہ اسی عمل ہی سے مغفرت ‘جہنم سے آزادی اور صیام و قیام کی قبولیت کی اُمید کی جا سکے گی۔(روزہ سے متعلق احکام و مسائل کے لیے دیکھیے کتاب ’’ رمضان المبارک ‘فضائل‘ فوائد و ثمرات ‘‘ از حافظ صلاح الدین یوسف ‘ مطبوعہ دارالسلام)
ابن شہاب زہری بواسطہ عروہ اور عمرہ ، سیدہ عائشہ ؓ سے اور وہ نبی کریم ﷺ سے مذکورہ بالا حدیث کی مانند روایت کرتی ہیں۔ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں اور ایسے ہی یونس نے بھی زہری سے روایت کیا ہے۔ اور کسی نے بھی «عروة ، عن عمرة» کی سند میں مالک کی متابعت نہیں کی ہے۔ معمر اور زیاد بن سعد وغیرہ «الزهري ، عن عروة ، عن عائشة» کی سند سے روایت کرتے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اس سند سے بھی ام المؤمنین عائشہ ؓ سے اسی طرح مرفوعاً مروی ہے۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
A similar tradition has been transmitted by 'Aishah (RA) from the Prophet (ﷺ) through a different chain of narrators. Abu Dawud رحمۃ اللہ علیہ said: And Yunus also narrated in a similar way from al-Zuhri, and no one supported Malik in his narration from 'Urwah from 'Umrah ; and Ma'mar, Ziyad b. Sad and others have also narrated it from al-Zuhri from 'Urwah on the authority of 'Aishah (RA).