Abu-Daud:
Jihad (Kitab Al-Jihad)
(Chapter: The Virtues Of Jihad At Sea)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2490.
سیدنا انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ (میری خالہ) ام حرام بنت ملحان ؓ نے بیان کیا اور یہ (انس ؓ کی والدہ) ام سلیم ؓ کی ہمشیرہ ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے (ایک بار) ان کے ہاں قیلولہ کیا۔ آپ ﷺ جب بیدار ہوئے تو ہنس رہے تھے۔ کہتی ہیں، میں نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! آپ کس بات پر ہنس رہے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”میں نے دیکھا کہ (میری امت میں سے) ایک قوم کے لوگ (بڑی شان سے) سمندر میں سفر کر رہے ہیں جیسے کہ بادشاہ تختوں پر ہوں۔“ کہتی ہیں، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! دعا فرمائیں کہ اللہ مجھے بھی ان میں کر دے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تم بھی ان میں سے ہو۔“ آپ ﷺ پھر سو گئے اور جب بیدار ہوئے تو پھر ہنس رہے تھے۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ کس بات پر ہنس رہے ہیں؟ تو آپ ﷺ نے پہلے والی بات بتائی۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اللہ سے دعا کیجئیے کہ وہ مجھے ان لوگوں میں سے بنا دے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تم پہلے لوگوں میں ہو گی۔“ انس بیان کرتے ہیں کہ بعد میں سیدنا عبادہ بن صامت ؓ نے ان سے نکاح کر لیا اور جہاد کے لیے سمندر کے سفر پر گئے اور ان (ام حرام) کو بھی ساتھ لے گئے اور جب واپس لوٹے تو ایک خچر ان کے لیے لایا گیا کہ اس پر سوار ہوں تو اس نے ان کو گرا دیا، اس سے ان کی گردن ٹوٹ گئی اور وہ وفات پا گئیں۔
تشریح:
1۔ یہ حدیث صریح اور واضح طور پر دلائل نبوت میں سے ہے۔ کیونکہ اس میں رسول اللہ ﷺ نے ایک ایسی بات کی خبر دی ہے جو آپﷺ کی وفات کے بعد وقوع پزیر ہوئی۔ جس کو سوائے اللہ عزوجل کے کوئی اور نہیں جان سکتا۔ لہذا رسول اللہ ﷺ کو بذریعہ وحی اس کا علم ہوا۔ 2۔ یہ سن 28 ہجری حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت کی بات ہے۔ جبکہ حضرت معاویہ بن ابو سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس جہادی سفر کے امیرتھے۔ لہذا اس سے حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فضیلت ومنقبت بھی ثابت ہوئی۔ نیز ان صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین کی بھی جنہوں نے ان کی معیت میں یہ سمندری سفرکیاتھا۔ یہ ایک جہادی سفر تھا۔ 3۔ کسی خوش کن اور پسندیدہ بات پر ہنسنا جائز ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين) . إسناده: حدثنا سليمان بن داود العَتَكِيّ: ثنا حَمَّاد بن زيد عن يحيى بن سعيد عن محمد بن يحيى بن حَبّان عن أنس بن مالك.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين؛ وقد أخرجاه كما يأتي. والحديث أخرجه البخاري (6/67) ، ومسلم (6/50) ، والنسائي (2/64) ، والدارمي (2/210) ، وابن ماجه (2/177) ، والبيهقي (9/166) من طرق أخرى عن حماد بن زيد... به. وكذا رواه أحمد (6/423) . ثم أخرجه هو (6/361 و 423) ، والبخاري (6/14) ، والبيهقي من طرق أخرى عن يحيى بن سعيد... به. وله طريق أخرى عن أنس، وهي الآتية بعده:
(جهاد‘ جهد) سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں ’’ محنت و مشقت ۔‘‘ اس معنی کے اعتبار سے دین کے لیے کی جانے والی تمام مساعی (جانی ‘مالی ‘قولی‘فکری‘فعلی اور تحریری سبھی ) جہاد میں شامل ہیں تا ہم اصطلاحاً و عرفا نفس امّارہ کا مقابلہ ’’مجاہدہ‘‘ اور دشمن اور فسادیوں کے ساتھ مسلح آویزش کو ’’جہاد‘‘ کہتے ہیں مکی دور میں کفار کے ساتھ (فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِيلَ)
اعراض و درگزر سے کام لو۔‘‘کا حکم تھا‘ مگر مدینہ ہجرت کرجانے کے بعد مسلمانوں کو مسلح مقابلے کی اجازت دے دی گئی اور فرمایا گیا(أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ)(الحج:39)’’ان لوگوں کو جن سے کافر لڑتے ہیں(مسلح قتال کی) اجازت دی جاتی ہے اس لیے کہ یہ مظلوم ہیں اور اللہ ان کی مدد پر خوب قدرت رکھتا ہے۔‘‘بعد ازاں اس عمل کو امت پر من حیث المجموع واجب کر دیا گیا اور فرمایا گیا(كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَكُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ)(البقرۃ26)’’(کفار سے) قتال کرنا تم پرفرض کر دیا گیا ہے اور ممکن ہے کہ تمہیں ایک چیزیں بری لگے اور وہ (حقیقت ) تمہارےلیے بہتر ہو اور ممکن ہے کہ کوئی چیز تمہیں بھلی لگے اور وہ (حقیقت میں) تمہارے لیے بری ہو اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔‘‘ اور عام حالات میں جہاد فرض کفایہ ہے۔
جہاد کی فضیلت کی بابت حضرت ابوذر سے مروی ہے ‘ وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبئ کریمﷺ سے پوچھا:اے اللہ کے رسول! کون سا عمل سب سے اچھا اور افضل ہے ؟ تو آپ نے فرمایا :’’اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا اور اس کے بعد جہاد فی سبیل اللہ۔‘‘(صحيح البخارى .العتق . باب . أي الرقاب أفضل؟حديث:2518)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایمان لانے کے بعد افضل ترین عمل ‘جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ ایک دوسری روایت میں رسول اللہ سے پوچھا گیا‘ کون سے اعمال سب سے زیادہ فضیلت والے ہیں ؟یا کون سے اعمال بہتر ہیں؟ آپ نے فرمایا :’’جہاد (نیک) اعمال کی کوہان ہے ۔‘‘ (جامع ترمذی ‘فضائل الجہاد‘حدیث:1658) دین اسلام میں جہاد کی بہت زیادہ اہمیت و فضیلت بیان ہوئی ہے۔آپ ﷺ نے فرمایا ایمان لانے کے بعد جہاد فی سبیل اللہ بلند ترین درجات کے حصول کا اور رنج و غم اور مصائب و مشکلات سے نجات حاصل کرنے کا ذریعہ ہے ‘ اسی طرح حدیث سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کے بعد ہجرت اور جہاد کرنے والے کے لیے اللہ تعالیٰ تین گھر بناتا ہے ‘ایک گھر جنت کے گرد ‘ایک جنت کے وسط میں اور ایک جنت کے بالا خانوں میں۔(سنن النسائی‘ الجہاد ‘ حدیث :3135) جہاد کی اہمیت کے متعلق کے نبی ﷺ نے فرمایا جس شخص نے کبھی جہاد میں حصہ لیا نہ کبھی اس کے دل میں جہاد کی خواہش پیدا ہوئی ‘وہ نفاق کے ایک درجہ میں مرے گا۔‘‘ صحیح مسلم‘الامارۃ‘ حدیث1910) اسی طرح آپ نے فرمایا:’’ جس شخص نے کبھی جہاد میں حصہ نہ لیا اور نہ کبھی مجاہد کی مدد ہی کی ‘ اللہ تعالیٰ اسے دنیا ہی میں سخت مصیبت میں مبتلا فرما دےگا۔‘‘(سنن ابی داود ‘الجہاد ‘ حدیث 1503) قرآن و حدیث میں جہاد کی تعلیم اور تر غیب کو سامنے رکھتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ پر نظر ڈالی جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے یہ الفاظ کہ میں چاہتا ہوں کہ اللہ کی راہ میں قتل کیا جاؤں ‘ پھر زندہ کیا جاؤں ‘ پھر قتل کیا جاؤں ‘پھر زندہ کیا جاؤں ‘ پھر قتل کیا جاؤں ‘ پھر زندہ کیا جاؤں ۔صرف امت کو جہاد کی ترغیب اور فضیلت ظاہر کرنے کے لیے نہ تھے بلکہ آپ دل کی گہرائیوں سے یہ خواہش رکھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی جان کا نذرانہ پیش کریں اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں میں بھی جہاد فی سبیل اللہ کی تڑپ پیدا کرے‘ تا کہ اس گئے گزرے دور میں بھی دین اسلام پوری دنیا میں پھیل جائے ‘ ہر طرف دین اسلام ہی کا بو ل بالا ہو اور دین با قی ادیان پر غالب آ جائے۔
سیدنا انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ (میری خالہ) ام حرام بنت ملحان ؓ نے بیان کیا اور یہ (انس ؓ کی والدہ) ام سلیم ؓ کی ہمشیرہ ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے (ایک بار) ان کے ہاں قیلولہ کیا۔ آپ ﷺ جب بیدار ہوئے تو ہنس رہے تھے۔ کہتی ہیں، میں نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! آپ کس بات پر ہنس رہے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”میں نے دیکھا کہ (میری امت میں سے) ایک قوم کے لوگ (بڑی شان سے) سمندر میں سفر کر رہے ہیں جیسے کہ بادشاہ تختوں پر ہوں۔“ کہتی ہیں، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! دعا فرمائیں کہ اللہ مجھے بھی ان میں کر دے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تم بھی ان میں سے ہو۔“ آپ ﷺ پھر سو گئے اور جب بیدار ہوئے تو پھر ہنس رہے تھے۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ کس بات پر ہنس رہے ہیں؟ تو آپ ﷺ نے پہلے والی بات بتائی۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اللہ سے دعا کیجئیے کہ وہ مجھے ان لوگوں میں سے بنا دے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تم پہلے لوگوں میں ہو گی۔“ انس بیان کرتے ہیں کہ بعد میں سیدنا عبادہ بن صامت ؓ نے ان سے نکاح کر لیا اور جہاد کے لیے سمندر کے سفر پر گئے اور ان (ام حرام) کو بھی ساتھ لے گئے اور جب واپس لوٹے تو ایک خچر ان کے لیے لایا گیا کہ اس پر سوار ہوں تو اس نے ان کو گرا دیا، اس سے ان کی گردن ٹوٹ گئی اور وہ وفات پا گئیں۔
حدیث حاشیہ:
1۔ یہ حدیث صریح اور واضح طور پر دلائل نبوت میں سے ہے۔ کیونکہ اس میں رسول اللہ ﷺ نے ایک ایسی بات کی خبر دی ہے جو آپﷺ کی وفات کے بعد وقوع پزیر ہوئی۔ جس کو سوائے اللہ عزوجل کے کوئی اور نہیں جان سکتا۔ لہذا رسول اللہ ﷺ کو بذریعہ وحی اس کا علم ہوا۔ 2۔ یہ سن 28 ہجری حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت کی بات ہے۔ جبکہ حضرت معاویہ بن ابو سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس جہادی سفر کے امیرتھے۔ لہذا اس سے حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فضیلت ومنقبت بھی ثابت ہوئی۔ نیز ان صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین کی بھی جنہوں نے ان کی معیت میں یہ سمندری سفرکیاتھا۔ یہ ایک جہادی سفر تھا۔ 3۔ کسی خوش کن اور پسندیدہ بات پر ہنسنا جائز ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
انس بن مالک ؓ کہتے ہیں کہ ام سلیم ؓ کی بہن ام حرام بنت ملحان ؓ نے مجھ سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کے یہاں قیلولہ کیا، پھر بیدار ہوئے، آپ ﷺ ہنس رہے تھے، میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! آپ کیوں ہنس رہے ہیں؟ فرمایا: ”میں نے اپنی امت میں سے چند لوگوں کو دیکھا جو اس سمندر کی پشت پر سوار ہیں جیسے بادشاہ تخت پر“ میں نے کہا: اللہ کے رسول! دعا کیجئے، اللہ مجھ کو ان لوگوں میں سے کر دے، فرمایا: ”تو انہیں میں سے ہے۔“ پھر آپ ﷺ سو گئے اور ہنستے ہوئے بیدار ہوئے، میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! آپ کے ہنسنے کا سبب کیا ہے؟ آپ ﷺ نے وہی فرمایا جو پہلے فرمایا تھا، میں نے کہا: اللہ کے رسول! دعا کیجئے، اللہ مجھ کو ان لوگوں میں سے کر دے، آپ ﷺ نے فرمایا: ”تو پہلے لوگوں میں سے ہے۔“ انس ؓ کہتے ہیں: تو ان سے عبادہ بن صامت ؓ نے شادی کی، پھر انہوں نے سمندر میں جہاد کیا توا نہیں بھی اپنے ساتھ لے گئے، جب لوٹے تو ایک خچر ان کی سواری کے لیے ان کے قریب لایا گیا، تو اس نے انہیں گرا دیا جس سے ان کی گردن ٹوٹ گئی اور وہ انتقال کر گئیں۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Anas bin Malik (RA) said “Umm Haram, daughter of Milhan, sister of Umm Sulaim, narrated to me that the Apostle of Allah (ﷺ) took a mid day nap with them. He then awoke laughing. She said “I asked the Apostle of Allah (ﷺ), what made you laugh”? He replied “I saw some people who ere sailing in the midst of the sea like kings on thrones. She said “I said the Apostle of Allah (ﷺ) beseech Allah that He may put me among them. He replied “You will be among them.” She said “He then slept and awoke laughing. She said “I asked the Apostle of Allah (ﷺ), what made you laugh? He replied as he said in the first reply. She said “I said the Apostle of Allah (ﷺ) beseech Allah that HE may put me amongst them. He replied “You will be among the first. Then ‘Ubadah bin Al Samit married her and sailed on the sea on an expedition and took her with him. When he returned, a riding beast was brought near her to ride, but it threw her down. Her neck was broken and she died.