Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: A Woman Undoing (The Braids Of) Her Hair While Performing Ghusl)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
251.
ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ مسلمانوں کی ایک خاتون نے پوچھا، زہیر کی روایت ہے کہ خود سیدہ ام سلمہ ؓ نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں اپنے سر کے بال سخت کر کے باندھتی ہوں، تو کیا غسل جنابت کے موقع پر انہیں کھولوں؟ آپ نے فرمایا ”تیرے لیے یہی کافی ہے کہ تو اپنے سر پر دونوں ہاتھ بھر کر تین بار پانی ڈال لے۔ زہیر کے الفاظ ہیں «تحثي عليه ثلاث حثياث» (اور معنی ایک ہی ہے) اور اس کے بعد باقی جسم پر پانی بہا لیا کر۔ اس طرح تو پاک ہو جائے گی۔
تشریح:
مرد اور عورت کے غسل میں کوئی فرق نہیں ہے۔ یعنی پہلے زیریں جسم دھولیا جائے اور اگر کوئی آلائش لگی ہو تو دور کرلی جائے۔ بعد ازاں نماز والا وضو کیا جائے اور پھر باقی جسم پر پانی بہایا جائے۔ خواتین کو اجازت ہے کہ غسل جنابت میں ان کے سر کے بال بندھے ہوئے ہوں تو نہ کھولیں۔ ویسے ہی تین لپ پانی ڈال لیں اور ہر بار بالوں کو خوب اچھی طرح ہلائیں اور ملیں تاکہ پانی جڑوں تک چلا جائے۔ اس طرح اپنے طور پر تسلی کر لینی چاہیے۔ مگر غسل حیض میں بالوں کو پوری طرح کھولنا ضروری ہے کیونکہ روایات میں حائضہ کے لیے بال کھولنے کا حکم ملتا ہے۔ (سنن ابن ماجة، حدیث: 641)
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط مسلم. وقد أخرجه هو وأبو عوانة في صحيحيهما . وقال الترمذي: حديث حسن صحيح ) . إسناده: حدثنا زهير بن حرب وابن السرح قالا: نا سفيان بن عيينة عن أيوب ابن موسى عن سعيد بن أبي سعيد عن عبد الله بن رافع مولى أم سلمة عن أم سلمة. قلت: والرواية الأخرى في الموضعين لزهير. وهذا إسناد صحيح على شرط مسلم. والحديث أخرجه مسلم (1/178) ، وأبو عوانة (1/301) ، والنسائي (1/47) ، والترمذي (1/175) - وقال: حسن صحيح -، وابن ماجه (1/209) ، والدارقطني (42) ، والبيهقي (1/178) ، وأحمد (6/289) من طرق عن ابن عيينة... به. وقد تابعه الثوري عن أيوب بن موسى... به. أخرجه أحمد (6/314- 315) ، ومسلم- عن يزيد بن هارون-، وهو والبيهقي (1/181) - من طريق عبد الرزاق- قالا: أخبرنا الثوري... به. وفي حديث عبد الرزاق: أفأنقضه للحيضة والجنابة؟ وأخرجه أبو عوانة من الطريقين عن الثوري؛ ليس فيه: للحيضة. وتابعه رَوْحُ بن للقاسم قال: ثنا أيوب بن موسى... به؛ ولم يذكر الحيضة. فذِكْرُ: الحيضة في الحديث شاذ؛ لأنها لم ترد في رواية ابن عيينة وللثوري ورَوْح عن أيوب؛ إلا في رواية عن عبد الرزاق عن الثوري. وقال ابن للقيم في تهذئب السنن (1/16 - 168) : أما حديث أم سلمة؛ فالصحيح فيه: الاقتصار على ذكر الجنابة دون الحيض؛ وليست لفظة الحيض بمحفوطة... ، ثم ساق الروايات المتقدمة؛ ثم قال: فقد اتفق ابن عيينة وروح بن القاسم عن أيوب؛ فاقتصرا على الجنابة. واختُلف فيه عن الثوري؛ فقال يزيد بن هارون عنه كما قال ابن عيينة وروح. وقال عبد الرزاق عنه: أفأنقضه للحيضة والجنابة؟ ورواية الجماعة أولى بالصواب؛ فلو أن الثوري لم يختلف عليه؛ لترخحت رواية ابن عيينة وروح، فكيف وقد روى عنه يزيد بن هارون مثل رواية الجماعة؟! ومن أعطى النظر حقه؛ علم أن هذه اللفظة ليست محفوظة في الحديث .
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ مسلمانوں کی ایک خاتون نے پوچھا، زہیر کی روایت ہے کہ خود سیدہ ام سلمہ ؓ نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں اپنے سر کے بال سخت کر کے باندھتی ہوں، تو کیا غسل جنابت کے موقع پر انہیں کھولوں؟ آپ نے فرمایا ”تیرے لیے یہی کافی ہے کہ تو اپنے سر پر دونوں ہاتھ بھر کر تین بار پانی ڈال لے۔ زہیر کے الفاظ ہیں «تحثي عليه ثلاث حثياث» (اور معنی ایک ہی ہے) اور اس کے بعد باقی جسم پر پانی بہا لیا کر۔ اس طرح تو پاک ہو جائے گی۔
حدیث حاشیہ:
مرد اور عورت کے غسل میں کوئی فرق نہیں ہے۔ یعنی پہلے زیریں جسم دھولیا جائے اور اگر کوئی آلائش لگی ہو تو دور کرلی جائے۔ بعد ازاں نماز والا وضو کیا جائے اور پھر باقی جسم پر پانی بہایا جائے۔ خواتین کو اجازت ہے کہ غسل جنابت میں ان کے سر کے بال بندھے ہوئے ہوں تو نہ کھولیں۔ ویسے ہی تین لپ پانی ڈال لیں اور ہر بار بالوں کو خوب اچھی طرح ہلائیں اور ملیں تاکہ پانی جڑوں تک چلا جائے۔ اس طرح اپنے طور پر تسلی کر لینی چاہیے۔ مگر غسل حیض میں بالوں کو پوری طرح کھولنا ضروری ہے کیونکہ روایات میں حائضہ کے لیے بال کھولنے کا حکم ملتا ہے۔ (سنن ابن ماجة، حدیث: 641)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام سلمہ ؓ کہتی ہیں کہ ایک مسلمان عورت نے کہا (اور زہیر کی روایت میں ہے خود ام سلمہ نے ہی کہا): اللہ کے رسول! میں اپنے سر کی چوٹی مضبوطی سے باندھتی ہوں، کیا غسل جنابت کے وقت اسے کھولوں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”تمہارے لیے تین لپ پانی اپنے سر پر ڈال لینا کافی ہے.“ اور زہیر کی روایت میں ہے: ” تم اس پر تین لپ پانی ڈال لو، پھر سارے بدن پر پانی بہا لو اس طرح تم نے پاکی حاصل کر لی.“
حدیث حاشیہ:
مرد اور عورت کے غسل میں کوئی فرق نہیں ہے۔ خواتین کو اجازت ہے کہ غسل جنابت میں ان کے سر کے بال بندھے ہوئے ہوں تو نہ کھولیں۔ ویسے ہی تین لپ پانی ڈال لیں اور ہر بار بالوں کو خوب اچھی طرح ہلائیں اور ملیں تاکہ پانی جڑوں تک چلا جائے۔ اس طرح اپنے طور پر تسلی کر لینی چاہیے۔ مگر غسل حیض میں بالوں کو پوری طرح کھولنا ضروری ہے، کیونکہ روایات میں حائضہ کے لیے بال کھولنے کا حکم ملتا ہے۔ (سنن ابن ماجة، حدیث: 641)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Thawban (RA): Shurayh ibn Ubayd said: Jubayr ibn Nufayr gave me a verdict about the bath because of sexual defilement that Thawban reported to them that they asked the Prophet (ﷺ) about it. He (the Prophet) replied: As regards man, he should undo the hair of his head and wash it until the water should reach the roots of the hair. But there is no harm if the woman does not undo it (her hair) and pour three handfuls of water over her head.