باب: جو کوئی جہاد میں ثواب اور غنیمت کی نیت رکھتا ہو
)
Abu-Daud:
Jihad (Kitab Al-Jihad)
(Chapter: Regarding A Person Going To Battle, Seeking Reward And Spoils Of War)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2535.
ابن زغب ایادی نے بیان کیا کہ سیدنا عبداللہ بن حوالہ ازدی ؓ میرے مہمان بنے تو انہوں نے مجھ سے بیان کیا: رسول اللہ ﷺ نے ہم کو پیدل (جہاد کے لیے) روانہ فرمایا تاکہ کوئی غنیمت حاصل کر لائیں۔ پس ہم واپس آئے اور ہمیں کوئی غنیمت نہ ملی۔ آپ ﷺ نے مشقت اور غمی کے آثار ہمارے چہروں پر دیکھے تو کھڑے ہوئے اور (دعا کرتے ہوئے) فرمایا: ’’اے اللہ! انہیں میرے سپرد نہ کر دے کہ ان کی کفالت سے عاجز رہوں اور نہ انہیں ان کی اپنی جانوں کے سپرد کر دے کہ اپنی کفالت سے عاجز رہیں اور نہ انہیں لوگوں کے سپرد کر دینا کہ وہ اپنے آپ ہی کو ترجیح دینے لگیں۔ پھر آپ ﷺ نے اپنا ہاتھ مبارک میرے سر پر رکھا اور فرمایا: ’’اے ابن حوالہ! جب تم دیکھو کہ خلافت ارض مقدس (شام) تک پہنچ گئی ہے تو زلزلے آنے لگیں گے، مصیبتیں ٹوٹیں گی۔ (علاوہ ازیں) اور بھی بڑی بڑی علامتیں ظاہر ہوں گی اور قیامت اس وقت لوگوں کے اس سے زیادہ قریب ہو گی جتنا کہ میرا ہاتھ تمہارے سر پر ہے۔‘‘ امام ابوداؤد ؓ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن حوالہ ؓ کا تعلق حمص سے ہے۔
تشریح:
1۔ جہاد میں اجر وثواب کے ساتھ ساتھ غنیمت کی توقع رکھنا کوئی معیوب نہیں۔ بشرط یہ کہ یہ نیت ہی اصل مقصود نہ ہو اتنا ضرور ہے کہ یہ غنیمت حاصل ہونے سے آخرت کے اجر میں کمی آجاتی ہے۔ جیسے کہ (باب في السریة تخفق) حدیث 2497) میں گزرا ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے مال کو انسان کےلئے گزران کا ایک اہم سبب بنایا ہے جب کہ حقیقی کفیل خود اللہ عزوجل ہے۔ اگر وہ اسباب مہیا نہ فرمائے۔ اور ان میں برکت نہ دے تو کائنات کے تمام افراد اور اس کے کل اسباب پرکاہ کی حیثیت بھی نہیں رکھتے۔ 3۔ مستقبل کے امور غیبہ کی خبریں نبی کریم ﷺکی نبوت کی صداقت کی دلیل ہیں۔ کہ فتح بیت المقدس کے بعد سے دنیا میں اور امت اسلامیہ میں مذکورہ بالاعلامات تواتر سے ظاہر ہورہی ہیں۔ 2۔ قیامت ازحد قریب ہے۔ لہذا ہر انسان کو اس کی فکر کرنی چاہیے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح، وكذا قال الحاكم والذهبي) . إسناده: حدثنا أحمد بن صالح: حدثنا أسَدُ بن موسى: حدثنا معاوية بن صالح: حدثني ضَمْرَةُ أن ابن زُغْبٍ الإيادي حدثه قال... قال أبو داود: عبد الله بن حوالة حمصي .
قلت: إسناده صحيح، رجاله ثقات معروفون؛ غير ابن زغب الإيادي - واسمه: عبد الله-، مختلف في صحبته، وقد كنت ملت في تعليقي على المشكاة (5449) إلى نفيها! والآن أجد نفسي تميل إلى إثباتها؛ لأنه صرح بسماعه من النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لحديث: من كذب عليّ... : عند الطبراني، وإسناده لا بأس به، كما قال الحافظ في التهذيب . وأسد بن موسى صدوق، وفيه كلام لا يضر، لا سيما وقد تابعه عبد الرحمن ابن مهدي: ثنا معاوية... به. أخرجه أحمد (5/288) ، والحاكم (4/425) ، وقال: صحيح الإسناد، وعبد الرحمن (!) بن زُغْبٍ الإيادي معروف في تابعي أهل مصر ! كذا قال! ووافقه الذهبي! المذكور في التهذيب أنه شامي؛ وأن اسمه عبد الله، كما تقدم. وتابعه أيضاً أبو صالح- يعني: عبد الله بن صالح-: عند البيهقي (9/169) ، وابن عساكر في تاريخ دمشق (1/376) عنه وعن غيره.
(جهاد‘ جهد) سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں ’’ محنت و مشقت ۔‘‘ اس معنی کے اعتبار سے دین کے لیے کی جانے والی تمام مساعی (جانی ‘مالی ‘قولی‘فکری‘فعلی اور تحریری سبھی ) جہاد میں شامل ہیں تا ہم اصطلاحاً و عرفا نفس امّارہ کا مقابلہ ’’مجاہدہ‘‘ اور دشمن اور فسادیوں کے ساتھ مسلح آویزش کو ’’جہاد‘‘ کہتے ہیں مکی دور میں کفار کے ساتھ (فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِيلَ)
اعراض و درگزر سے کام لو۔‘‘کا حکم تھا‘ مگر مدینہ ہجرت کرجانے کے بعد مسلمانوں کو مسلح مقابلے کی اجازت دے دی گئی اور فرمایا گیا(أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ)(الحج:39)’’ان لوگوں کو جن سے کافر لڑتے ہیں(مسلح قتال کی) اجازت دی جاتی ہے اس لیے کہ یہ مظلوم ہیں اور اللہ ان کی مدد پر خوب قدرت رکھتا ہے۔‘‘بعد ازاں اس عمل کو امت پر من حیث المجموع واجب کر دیا گیا اور فرمایا گیا(كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَكُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ)(البقرۃ26)’’(کفار سے) قتال کرنا تم پرفرض کر دیا گیا ہے اور ممکن ہے کہ تمہیں ایک چیزیں بری لگے اور وہ (حقیقت ) تمہارےلیے بہتر ہو اور ممکن ہے کہ کوئی چیز تمہیں بھلی لگے اور وہ (حقیقت میں) تمہارے لیے بری ہو اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔‘‘ اور عام حالات میں جہاد فرض کفایہ ہے۔
جہاد کی فضیلت کی بابت حضرت ابوذر سے مروی ہے ‘ وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبئ کریمﷺ سے پوچھا:اے اللہ کے رسول! کون سا عمل سب سے اچھا اور افضل ہے ؟ تو آپ نے فرمایا :’’اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا اور اس کے بعد جہاد فی سبیل اللہ۔‘‘(صحيح البخارى .العتق . باب . أي الرقاب أفضل؟حديث:2518)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایمان لانے کے بعد افضل ترین عمل ‘جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ ایک دوسری روایت میں رسول اللہ سے پوچھا گیا‘ کون سے اعمال سب سے زیادہ فضیلت والے ہیں ؟یا کون سے اعمال بہتر ہیں؟ آپ نے فرمایا :’’جہاد (نیک) اعمال کی کوہان ہے ۔‘‘ (جامع ترمذی ‘فضائل الجہاد‘حدیث:1658) دین اسلام میں جہاد کی بہت زیادہ اہمیت و فضیلت بیان ہوئی ہے۔آپ ﷺ نے فرمایا ایمان لانے کے بعد جہاد فی سبیل اللہ بلند ترین درجات کے حصول کا اور رنج و غم اور مصائب و مشکلات سے نجات حاصل کرنے کا ذریعہ ہے ‘ اسی طرح حدیث سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کے بعد ہجرت اور جہاد کرنے والے کے لیے اللہ تعالیٰ تین گھر بناتا ہے ‘ایک گھر جنت کے گرد ‘ایک جنت کے وسط میں اور ایک جنت کے بالا خانوں میں۔(سنن النسائی‘ الجہاد ‘ حدیث :3135) جہاد کی اہمیت کے متعلق کے نبی ﷺ نے فرمایا جس شخص نے کبھی جہاد میں حصہ لیا نہ کبھی اس کے دل میں جہاد کی خواہش پیدا ہوئی ‘وہ نفاق کے ایک درجہ میں مرے گا۔‘‘ صحیح مسلم‘الامارۃ‘ حدیث1910) اسی طرح آپ نے فرمایا:’’ جس شخص نے کبھی جہاد میں حصہ نہ لیا اور نہ کبھی مجاہد کی مدد ہی کی ‘ اللہ تعالیٰ اسے دنیا ہی میں سخت مصیبت میں مبتلا فرما دےگا۔‘‘(سنن ابی داود ‘الجہاد ‘ حدیث 1503) قرآن و حدیث میں جہاد کی تعلیم اور تر غیب کو سامنے رکھتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ پر نظر ڈالی جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے یہ الفاظ کہ میں چاہتا ہوں کہ اللہ کی راہ میں قتل کیا جاؤں ‘ پھر زندہ کیا جاؤں ‘ پھر قتل کیا جاؤں ‘پھر زندہ کیا جاؤں ‘ پھر قتل کیا جاؤں ‘ پھر زندہ کیا جاؤں ۔صرف امت کو جہاد کی ترغیب اور فضیلت ظاہر کرنے کے لیے نہ تھے بلکہ آپ دل کی گہرائیوں سے یہ خواہش رکھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی جان کا نذرانہ پیش کریں اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں میں بھی جہاد فی سبیل اللہ کی تڑپ پیدا کرے‘ تا کہ اس گئے گزرے دور میں بھی دین اسلام پوری دنیا میں پھیل جائے ‘ ہر طرف دین اسلام ہی کا بو ل بالا ہو اور دین با قی ادیان پر غالب آ جائے۔
ابن زغب ایادی نے بیان کیا کہ سیدنا عبداللہ بن حوالہ ازدی ؓ میرے مہمان بنے تو انہوں نے مجھ سے بیان کیا: رسول اللہ ﷺ نے ہم کو پیدل (جہاد کے لیے) روانہ فرمایا تاکہ کوئی غنیمت حاصل کر لائیں۔ پس ہم واپس آئے اور ہمیں کوئی غنیمت نہ ملی۔ آپ ﷺ نے مشقت اور غمی کے آثار ہمارے چہروں پر دیکھے تو کھڑے ہوئے اور (دعا کرتے ہوئے) فرمایا: ’’اے اللہ! انہیں میرے سپرد نہ کر دے کہ ان کی کفالت سے عاجز رہوں اور نہ انہیں ان کی اپنی جانوں کے سپرد کر دے کہ اپنی کفالت سے عاجز رہیں اور نہ انہیں لوگوں کے سپرد کر دینا کہ وہ اپنے آپ ہی کو ترجیح دینے لگیں۔ پھر آپ ﷺ نے اپنا ہاتھ مبارک میرے سر پر رکھا اور فرمایا: ’’اے ابن حوالہ! جب تم دیکھو کہ خلافت ارض مقدس (شام) تک پہنچ گئی ہے تو زلزلے آنے لگیں گے، مصیبتیں ٹوٹیں گی۔ (علاوہ ازیں) اور بھی بڑی بڑی علامتیں ظاہر ہوں گی اور قیامت اس وقت لوگوں کے اس سے زیادہ قریب ہو گی جتنا کہ میرا ہاتھ تمہارے سر پر ہے۔‘‘ امام ابوداؤد ؓ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن حوالہ ؓ کا تعلق حمص سے ہے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ جہاد میں اجر وثواب کے ساتھ ساتھ غنیمت کی توقع رکھنا کوئی معیوب نہیں۔ بشرط یہ کہ یہ نیت ہی اصل مقصود نہ ہو اتنا ضرور ہے کہ یہ غنیمت حاصل ہونے سے آخرت کے اجر میں کمی آجاتی ہے۔ جیسے کہ (باب في السریة تخفق) حدیث 2497) میں گزرا ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے مال کو انسان کےلئے گزران کا ایک اہم سبب بنایا ہے جب کہ حقیقی کفیل خود اللہ عزوجل ہے۔ اگر وہ اسباب مہیا نہ فرمائے۔ اور ان میں برکت نہ دے تو کائنات کے تمام افراد اور اس کے کل اسباب پرکاہ کی حیثیت بھی نہیں رکھتے۔ 3۔ مستقبل کے امور غیبہ کی خبریں نبی کریم ﷺکی نبوت کی صداقت کی دلیل ہیں۔ کہ فتح بیت المقدس کے بعد سے دنیا میں اور امت اسلامیہ میں مذکورہ بالاعلامات تواتر سے ظاہر ہورہی ہیں۔ 2۔ قیامت ازحد قریب ہے۔ لہذا ہر انسان کو اس کی فکر کرنی چاہیے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ضمرہ کا بیان ہے کہ ابن زغب ایادی نے ان سے بیان کیا کہ عبداللہ بن حوالہ ازدی ؓ میرے پاس اترے، اور مجھ سے بیان کیا: رسول اللہ ﷺ نے ہمیں بھیجا ہے کہ ہم پیدل چل کر مال غنیمت حاصل کریں، تو ہم واپس لوٹے اور ہمیں کچھ بھی مال غنیمت نہ ملا، اور آپ ﷺ نے ہمارے چہروں پر پریشانی کے آثار دیکھے تو ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور فرمایا: ”اللہ! انہیں میرے سپرد نہ فرما کہ میں ان کی خبرگیری سے عاجز رہ جاؤں، اور انہیں ان کی ذات کے حوالہ (بھی) نہ کر کہ وہ اپنی خبرگیری خود کرنے سے عاجز آ جائیں، اور ان کو دوسروں کے حوالہ نہ کر کہ وہ خود کو ان پر ترجیح دیں۔“ پھر آپ ﷺ نے اپنا ہاتھ میرے سر پر یا میری گدی پر رکھا اور فرمایا: ”اے ابن حوالہ! جب تم دیکھو کہ خلافت شام میں اتر چکی ہے، تو سمجھ لو کہ زلزلے، مصیبتیں اور بڑے بڑے واقعات (کے ظہور کا وقت) قریب آ گیا ہے، اور قیامت اس وقت لوگوں سے اتنی قریب ہو گی جتنا کہ میرا یہ ہاتھ تمہارے سر سے قریب ہے۔“
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah ibn Hawalah al-Azdi: The Apostle of Allah (ﷺ) sent us on foot to get spoil, but we returned without getting any. When he saw the signs of distress on our faces, he stood up on our faces and said: O Allah, do not put them under my care, for I would be too weak to care for them; do not put them in care of themselves, for they would be incapable of that, and do not put them in the care of men, for they would choose the best things for themselves. He then placed his hand on my head and said: Ibn Hawalah, when you see the caliphate has settled in the holy land, earthquakes, sorrows and serious matters will have drawn near and on that day the Last Hour will be nearer to mankind than this hand of mine is to your head.