Abu-Daud:
Jihad (Kitab Al-Jihad)
(Chapter: A Person Who Sells His Self (For The Sake Of Allah))
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2536.
سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ہمارے رب تعالیٰ کو اس بندے پر بڑا تعجب آتا ہے جو اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے نکلے، اور اس کے ساتھی بھاگ نکلیں (مگر) اس بندے کو گناہ کا احساس ہو تو وہ (قتال کے لیے) واپس لوٹ آئے حتیٰ کے اس کا خون بہا دیا جائے، تو اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے کہتا ہے۔ دیکھو میرے بندے کی طرف کہ میرے ہاں ثواب کی رغبت میں اور میری پکڑ کے ڈر سے واپس لوٹ آیا حتیٰ کے اس کا خون بہا دیا گیا۔‘‘
تشریح:
فوائد ومسائل:۔ سورہ توبہ میں یہ مضمون تفصیل سے بیان ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: (إِنَّ اللَّـهَ اشْتَرَىٰ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُم بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ ۚ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ ۖ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنجِيلِ وَالْقُرْآنِ)(التوبہ۔111) اللہ تعالیٰ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے مال جنت کے عوض خرید لئے ہیں۔ یہ لوگ اللہ کی راہ میں قتال کرتے ہیں تو مارتے ہیں۔ اور مارے بھی جاتے ہیں۔ یہ تورات انجیل اور قرآن میں بیان شدہ سچاوعدہ ہے۔ الغرض مسلمان کو اپنے تمام تر اعمال اور احوال میں اللہ تعالیٰ کے ہاں اجر وثواب کا امید وار اور اس کے عقاب سے ڈرتے رہنا چاہیے۔ یہی اصل ایمان اور اس کی چوٹی ہے۔ 2۔ اللہ عزوجل کا تعجب کرنا اس طرح اس کی دیگر صفات کی کیفیت ہم جان سکتے ہیں۔ نہ بیان کر سکتے ہیں اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔ (ۚ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ۖ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ)(الشوریٰ۔11) اس کی مثل کوئی چیز نہیں اور وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔ بنا بریں یہ صفات الہیٰ ایسی ہیں۔ جیسے اس کی شان کے لائق ہیں۔ ہمیں ان پرایمان رکھنا ہے جیس وہ بیان ہوئیں ہیں۔ ان کی کنہ اور حقیقت جاننے کے چکر میں پڑنے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ وہ کوئی جان ہی نہیں سکتا۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: حديث حسن، وصححه ابن حبان والحاكم والذهبي) . إسناده: حدثنا موسى بن إسماعيل: حدثنا حماد: أخبرنا عطاء بن السائب عن مُرةَ الهَمْدَانِي عن عبد الله بن مسعود.
قلت: وهذا إسناد رجاله كلهم ثقات رجال الصحيح ؛ إلا أن ابن السائب كان اختلط، وحماد- وهو ابن سلمة- وإن كان سمع منه قبل الاختلاط؛ فقد سمع منه بعد الاختلاط أيضاً، كما حققه الحافظ في التهذيب . فمن صححه من القُدَامى والمعاصرين؛ فما أصاب! نعم، الحديث حسن أو صحيح؛ فإن له شاهداً بنحوه من حديث أبي الدرداء، حَسنَ إسناده المنذري، وهو في كتابي صحيح الترغيب والترهيب (1384) ، وقد طبع المجلد الأول منه، يسر الله تمام طبعه (وقد طبع بحمد الله بقسميه الصحيح و الضعيف في خمسة مجلدات. (الناشر) . (7/291)) . الحديث أخرجه الحاكم (2/112) من طريق آخر عن موسى بن إسماعيل... به ، وقال: صحيح الإسناد ! ووافقه الذهبي! وأخرجه ابن حبان (643) ، وأحمد (1/416) ، والطبراني في الكبير (3/75/2 و 80/1) من طرق أخرى عن حماد... به أتم منه. ورواه البيهقي (9/164) ؛ وأشار إلى حديث أبي الدرداء.
(جهاد‘ جهد) سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں ’’ محنت و مشقت ۔‘‘ اس معنی کے اعتبار سے دین کے لیے کی جانے والی تمام مساعی (جانی ‘مالی ‘قولی‘فکری‘فعلی اور تحریری سبھی ) جہاد میں شامل ہیں تا ہم اصطلاحاً و عرفا نفس امّارہ کا مقابلہ ’’مجاہدہ‘‘ اور دشمن اور فسادیوں کے ساتھ مسلح آویزش کو ’’جہاد‘‘ کہتے ہیں مکی دور میں کفار کے ساتھ (فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِيلَ)
اعراض و درگزر سے کام لو۔‘‘کا حکم تھا‘ مگر مدینہ ہجرت کرجانے کے بعد مسلمانوں کو مسلح مقابلے کی اجازت دے دی گئی اور فرمایا گیا(أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ)(الحج:39)’’ان لوگوں کو جن سے کافر لڑتے ہیں(مسلح قتال کی) اجازت دی جاتی ہے اس لیے کہ یہ مظلوم ہیں اور اللہ ان کی مدد پر خوب قدرت رکھتا ہے۔‘‘بعد ازاں اس عمل کو امت پر من حیث المجموع واجب کر دیا گیا اور فرمایا گیا(كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَكُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ)(البقرۃ26)’’(کفار سے) قتال کرنا تم پرفرض کر دیا گیا ہے اور ممکن ہے کہ تمہیں ایک چیزیں بری لگے اور وہ (حقیقت ) تمہارےلیے بہتر ہو اور ممکن ہے کہ کوئی چیز تمہیں بھلی لگے اور وہ (حقیقت میں) تمہارے لیے بری ہو اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔‘‘ اور عام حالات میں جہاد فرض کفایہ ہے۔
جہاد کی فضیلت کی بابت حضرت ابوذر سے مروی ہے ‘ وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبئ کریمﷺ سے پوچھا:اے اللہ کے رسول! کون سا عمل سب سے اچھا اور افضل ہے ؟ تو آپ نے فرمایا :’’اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا اور اس کے بعد جہاد فی سبیل اللہ۔‘‘(صحيح البخارى .العتق . باب . أي الرقاب أفضل؟حديث:2518)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایمان لانے کے بعد افضل ترین عمل ‘جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ ایک دوسری روایت میں رسول اللہ سے پوچھا گیا‘ کون سے اعمال سب سے زیادہ فضیلت والے ہیں ؟یا کون سے اعمال بہتر ہیں؟ آپ نے فرمایا :’’جہاد (نیک) اعمال کی کوہان ہے ۔‘‘ (جامع ترمذی ‘فضائل الجہاد‘حدیث:1658) دین اسلام میں جہاد کی بہت زیادہ اہمیت و فضیلت بیان ہوئی ہے۔آپ ﷺ نے فرمایا ایمان لانے کے بعد جہاد فی سبیل اللہ بلند ترین درجات کے حصول کا اور رنج و غم اور مصائب و مشکلات سے نجات حاصل کرنے کا ذریعہ ہے ‘ اسی طرح حدیث سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کے بعد ہجرت اور جہاد کرنے والے کے لیے اللہ تعالیٰ تین گھر بناتا ہے ‘ایک گھر جنت کے گرد ‘ایک جنت کے وسط میں اور ایک جنت کے بالا خانوں میں۔(سنن النسائی‘ الجہاد ‘ حدیث :3135) جہاد کی اہمیت کے متعلق کے نبی ﷺ نے فرمایا جس شخص نے کبھی جہاد میں حصہ لیا نہ کبھی اس کے دل میں جہاد کی خواہش پیدا ہوئی ‘وہ نفاق کے ایک درجہ میں مرے گا۔‘‘ صحیح مسلم‘الامارۃ‘ حدیث1910) اسی طرح آپ نے فرمایا:’’ جس شخص نے کبھی جہاد میں حصہ نہ لیا اور نہ کبھی مجاہد کی مدد ہی کی ‘ اللہ تعالیٰ اسے دنیا ہی میں سخت مصیبت میں مبتلا فرما دےگا۔‘‘(سنن ابی داود ‘الجہاد ‘ حدیث 1503) قرآن و حدیث میں جہاد کی تعلیم اور تر غیب کو سامنے رکھتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ پر نظر ڈالی جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے یہ الفاظ کہ میں چاہتا ہوں کہ اللہ کی راہ میں قتل کیا جاؤں ‘ پھر زندہ کیا جاؤں ‘ پھر قتل کیا جاؤں ‘پھر زندہ کیا جاؤں ‘ پھر قتل کیا جاؤں ‘ پھر زندہ کیا جاؤں ۔صرف امت کو جہاد کی ترغیب اور فضیلت ظاہر کرنے کے لیے نہ تھے بلکہ آپ دل کی گہرائیوں سے یہ خواہش رکھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی جان کا نذرانہ پیش کریں اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں میں بھی جہاد فی سبیل اللہ کی تڑپ پیدا کرے‘ تا کہ اس گئے گزرے دور میں بھی دین اسلام پوری دنیا میں پھیل جائے ‘ ہر طرف دین اسلام ہی کا بو ل بالا ہو اور دین با قی ادیان پر غالب آ جائے۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ہمارے رب تعالیٰ کو اس بندے پر بڑا تعجب آتا ہے جو اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے نکلے، اور اس کے ساتھی بھاگ نکلیں (مگر) اس بندے کو گناہ کا احساس ہو تو وہ (قتال کے لیے) واپس لوٹ آئے حتیٰ کے اس کا خون بہا دیا جائے، تو اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے کہتا ہے۔ دیکھو میرے بندے کی طرف کہ میرے ہاں ثواب کی رغبت میں اور میری پکڑ کے ڈر سے واپس لوٹ آیا حتیٰ کے اس کا خون بہا دیا گیا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:۔ سورہ توبہ میں یہ مضمون تفصیل سے بیان ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: (إِنَّ اللَّـهَ اشْتَرَىٰ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُم بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ ۚ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ ۖ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنجِيلِ وَالْقُرْآنِ)(التوبہ۔111) اللہ تعالیٰ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے مال جنت کے عوض خرید لئے ہیں۔ یہ لوگ اللہ کی راہ میں قتال کرتے ہیں تو مارتے ہیں۔ اور مارے بھی جاتے ہیں۔ یہ تورات انجیل اور قرآن میں بیان شدہ سچاوعدہ ہے۔ الغرض مسلمان کو اپنے تمام تر اعمال اور احوال میں اللہ تعالیٰ کے ہاں اجر وثواب کا امید وار اور اس کے عقاب سے ڈرتے رہنا چاہیے۔ یہی اصل ایمان اور اس کی چوٹی ہے۔ 2۔ اللہ عزوجل کا تعجب کرنا اس طرح اس کی دیگر صفات کی کیفیت ہم جان سکتے ہیں۔ نہ بیان کر سکتے ہیں اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔ (ۚ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ۖ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ)(الشوریٰ۔11) اس کی مثل کوئی چیز نہیں اور وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔ بنا بریں یہ صفات الہیٰ ایسی ہیں۔ جیسے اس کی شان کے لائق ہیں۔ ہمیں ان پرایمان رکھنا ہے جیس وہ بیان ہوئیں ہیں۔ ان کی کنہ اور حقیقت جاننے کے چکر میں پڑنے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ وہ کوئی جان ہی نہیں سکتا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ہمارا رب اس شخص سے خوش ہوتا ہے۱؎ جس نے اللہ کی راہ میں جہاد کیا، پھر اس کے ساتھی شکست کھا کر (میدان سے) بھاگ گئے اور وہ گناہ کے ڈر سے واپس آ گیا (اور لڑا) یہاں تک کہ وہ قتل کر دیا گیا، اس وقت اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے فرماتا ہے: میرے بندے کو دیکھو میرے ثواب کی رغبت اور میرے عذاب کے ڈر سے لوٹ آیا یہاں تک کہ اس کا خون بہا گیا۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎: اس حدیث میں اللہ تعالی کے لئے صفت تعجب کی صراحت ہے، دوسری حدیث میں ضحک (ہنسنے) کی صفت کا تذکرہ ہے، یہ صفات اللہ تعالیٰ کے لئے ثابت ہیں، ذات باری تعالی اور اس کی صفات کی کنہ و کیفیت کی جستجو میں پڑے بغیر تمام ثابت صفات باری تعالی پر ایمان لانا چاہئے، اور کسی مخلوق کی ذات وصفات سے اس کی تشبیہ وتمثیل وتکییف جائز نہیں ہے۔(ۚ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ۖ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ) ’’اللہ کے ہم مثل کوئی چیز نہیں اور وہ ذات باری سمیع (سننے والا) اور بصیر (دیکھنے والا ہے)۔‘‘
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah ibn Mas'ud (RA): The Prophet (ﷺ) said: Our Lord Most High is pleased with a man who fights in the path of Allah, the Exalted; then his companions fled away (i.e. retreated). But he knew that it was a sin (to flee away from the battlefield), so he returned, and his blood was shed. Thereupon Allah, the Exalted, says to His angels: Look at My servant; he returned seeking what I have for him (i.e. the reward), and fearing (the punishment) I have, until his blood was shed.