Abu-Daud:
Jihad (Kitab Al-Jihad)
(Chapter: Regarding A Person Naming His Riding Beast)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2559.
سیدنا معاذ بن جبل ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک گدھے پر آپ ﷺ کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا جسے ”عفیر“ کہا جاتا تھا۔
تشریح:
جانور کا نام رکھنا مباح ہے۔ 2۔ بوقت ضرورت جانور پردو آدمی بھی سوار ہوسکتے ہیں۔ 3۔ اگر کسی جانورپر دو آدمی سوار ہوجایئں تو یہ ظلم شمار نہیں ہوگا۔ بشرط یہ کہ جانور صحت مند اور اس قدربوجھ اٹھا سکتا ہو۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده على شرط الشيخين. وقد أخرجاه، لكن ذِكْرَ الحمار فيه شاذ عندي، وقد أخرجاه من طريق أخرى عنه بلفظ: ليس بينه وبينه إلا مُؤْخِرَةُ الرحل .. وهو المحفوظ عندي) . إسناده: حدثنا هنّاد بن السرِي عن أبي الأحوص عن أبي إسحاق عن عمرو ابن ميمون عن معاذ.
قلت: وهذا إسناد على شرط الشيخين؛ غير هناد بن السري، فهو على شرط مسلم وحده، لكنه قد توبع كما يأتي. إلا أن في النفس شيئاً من أبي إسحاق- وهو السبيعي عمرو بن عبد الله-؛ فإنه كان اختلط، والقاعدة في مثله أن ما حدَّث به قبل الاختلاط فهو حجة، وإلا؛ فلا. وأبو الأحوص الراوي له عنه- واسمه سلام ابن سليم- لم يذكروه في جملة من سمع منه قبل الاختلاط. وكذلك من تابعه ممن سأذكره. أضف إلى ذلك أنه موصوف بالتدليس أيضاً، وقد عنعنه كما ترى، وأنه اضطرب في متنه، فكان تارة يذكر الحمَار فيه- كما في هذه الرواية- وتارة لا يذكره - كما في رواية حفيده إسرائيل-. وكذا سفيان ومعمر بن راشد عنه: أخرجه أحمد (5/228) . وتابعه شعبة وسلام عنه: رواه الطيالسي (565) ، وعنه أبو عوانة (1/16) . وسفيان- وهو الثوري- وشعبة كلاهما سمع من السبيعي قبل الاختلاط. وتؤيده رواية عبد الرحمن بن أبي ليلى عن معاذ: عنده أيضاً (5/230) . نعم؛ قد جاء ذكر الحمار دون اسمه: (عفير) في بعض الطرق عن معاذ، يرويه الأعمش عن أبي سفيان عن أنس بن مالك قال: أتينا معاذ بن جبل، فقلنا: حدثنا من غرائب حديث رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟! قال: نعم، كنت رِدْفَهُ على حمار، قال: فقل: (يا معاذ! هل تدري ما حق الله على العباد؟ ... أخرجه أحمد (5/228 و 236) . وسنده حسن على شرط مسلم؛ وأبو سفيان- واسمه: طلحة بن نافع- فيه كلام، والراجح أنه حسن الحديث إذا لم يخالف. ثم روى (5/238) من طريق شهر بن حوشب عن عبد الرحمن بن غَنْم أن معاذ بن جبل حدثه عن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ... به نحوه؛ وفيه تسمية الحمار بـ (يعفور) . لكن شهر ضعيف. بَيْدَ أنه قد صح من طريق أخرى عن معاذ خلاف كل ما سبق، فقال همام: حدثنا قتادة: حدثنا أنس بن مالك عن معاذ بن جبل قال: كنت رِدفَ النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- ليس بيني وبينه إلا مُؤْخِرَةُ الرحل- فقال: يا معاذ!... الحديث. أخرجه البخاري في العلم ، وفي اللباس ، ومسلم (30) ، وأحمد (5/242) . وقال هو، والبخاري، وكذا أبو عوانة (1/17) : آخرة الرحل. والمعنى واحد، وهي- بالمد- الخشبة التي يستند إليها الراكب من كور البعير، كما في النهاية لابن الأثير. ويشهد له: ما روى علي بن زيد عن أبي المَلِيحِ الهذَلِي عن رَوْحِ بن عابد عن أبي العَوَّام عن معاذ بن جبل قال: كنت رِدْفَ النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ على جمل أحمرَ، فقال: يا معاذ!.. الحديث. أخرجه أحمد (5/234) . وعلي بن زيد- وهو ابن جدعان- لا بأس به فيما نحن فيه من الاستشهاد. وأما ما أخرجه أحمد- عَقِبَه- من طريق حماد عن عطاء بن السائب عن أبي رَزِين عن معاذ بن جبل... مثله؛ غير أنه قال: أُتِيَ رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بحمار قد شد عليه بَرْدَعَةٌ ... فإنه منكر أيضا لا يصح ؛ لأن عطاء بن السائب كان اختلط؛ وحماد- وهو ابن سلمة- سمع منه بعد الاختلاط أيضا، هذا مع مخالفته لحديث الرحْل وشاهده. ولا يقويه ما روى يزيد بن عطاء البزاز: أخبرنا أبو اسحاق عن أبى عُبَيْدَةَ بن عبد الله بن مسعود عن أبيه قال: كان لرسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حمار يقال له: عفير. أخرجه الطيالسي (2500- ترتيبه) ، وابن سعد في الطبقات (1/492) . وذلك لأمور: 1- أنه منقطع بين أبي عبيدة وأبيه ابن مسعود؛ فإنه لم يسمع منه باعترافه. 2- أن يزيد بن عطاء هذا في الحديث؛ كما في التقريب . 3- أنه لو سَلِمَ من العلتين المذكورتين؛ فلا يصح الاستشهاد به وتقوية حديث الباب به؛ لأنه من باب تقوية الضعيف بنفسه؛ لأن أبا إسحاق الذي بينهما: هو السبيعي نفسه، وقد عرفت حاله من حيث الاختلاط والتدليس من جهة، ومخالفة حديثه لحديث أس عن معاذ في الصحيحين المذكور آنفاً، وكذلك لحديث شهر، حيث سمَى الحِمار بـ: (يعفور) لا (عفير) . وكذلك جاءت تسميته بـ (يعفور) في حديثين آخرين مرسلين مختصرين: عند ابن سعد: أحدهما: عن علقمة بن أبي علقمة... بلاغاً. والأخر: عن جعفر بن محمد عن أبيه... مرسلاً. وجملة القول: أن ذكر الحمار في هذا الحديث خطأ من السبيعي، ومن الظاهر أن ذلك كان في اختلاطه. وقد وجدت ما يؤيد ذلك، وهو ما أخرجه الترمذي (2645) من طريق سفيان عن أبي إسحاق عن عمرو بن ميمون عن معاذ بن جبل قال: قال رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أتدرون ما حق الله على العباد؟... الحديث. فهذا سفيان- وهو الثوري- وقد روى عن أبي إسحاق قبل الاختلاط، فلم يذكر فيه ركوبه على الحمار؛ فهذا أصح، وحينئذ فلا تعارض؛ فتأمل. وإذا عرفت ما سبق من التحقيق؛ فلا حاجة بنا إلى تكلُف تأويل الرحْل بأنه قد يستعمل لغير البعير، كما قال الحافظ في الفتح ، معتمداً على حديث الباب! دون أن يشير أقل إشارة إلى حال السبيعي؛ خلافاً لصنيعه في التقريب و مقدمة الفتح ؛ وأفاد في هذا أنه أحد الأعلام قبل اختلاطه! ولكنه وهم في قوله: ولم أر في البخاري من الرواية عنه إلا عن القدماء من أصحابه، كالثوري وشعبة، لا عن المتأخرين كابن عيينة وغيره !
قلت: وهذا من أوهامه رحمه الله تعالى؛ فإن له في البخاري من رواية زهير ابن معاوية وغيره- ممن سمع منه بعد الاختلاط-، وقد خرجت بعض أحاديثهم في الأحاديث الضعيفة () . والحديث أخرجه مسلم (رقم/30) : حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة: حدثنا أبو الأحوص سَلام بن سُليم... به؛ وتمامه: قال: فقال: يا معاذ! تدري ما حقّ الله على العباد، وما حق العباد على الله؟ . قال: قلت: الله ورسوله أعلم! قال: فإن حق الله على العباد: أن يعبدوا الله ولا يشركوا به شيئاً. وحق العباد على الله عز وجل: أن لا يعذب من لا يشرك به شيئاً . قال:
قلت: يا رسول الله! أفلا أُبَشِّرُ الناس؟ قال: لا تبشرْهم؛ فيتكلوا . وأخرجه البخاري في الجهاد من طريق يحيى بن آدم: حدثنا أبو الأحوص... به. لكن ذكر الحافظ أن أبا الأحوص هذا- الذي روى عنه يحيى- ليس هو سلام ابن سليم، وإنما هو عمار بن رُزيق! فالله تعالى أعلم. وعلى التسليم بأنه هو؛ فلا يدرى أسمع من السبيعي قبل اختلاطه أم بعده، وإن كان قديم الوفاة (159) ؟ وعلى افتراض الأول؛ فهو قد عنعنه أيضاً في روايته عنه.
(جهاد‘ جهد) سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں ’’ محنت و مشقت ۔‘‘ اس معنی کے اعتبار سے دین کے لیے کی جانے والی تمام مساعی (جانی ‘مالی ‘قولی‘فکری‘فعلی اور تحریری سبھی ) جہاد میں شامل ہیں تا ہم اصطلاحاً و عرفا نفس امّارہ کا مقابلہ ’’مجاہدہ‘‘ اور دشمن اور فسادیوں کے ساتھ مسلح آویزش کو ’’جہاد‘‘ کہتے ہیں مکی دور میں کفار کے ساتھ (فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِيلَ)
اعراض و درگزر سے کام لو۔‘‘کا حکم تھا‘ مگر مدینہ ہجرت کرجانے کے بعد مسلمانوں کو مسلح مقابلے کی اجازت دے دی گئی اور فرمایا گیا(أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ)(الحج:39)’’ان لوگوں کو جن سے کافر لڑتے ہیں(مسلح قتال کی) اجازت دی جاتی ہے اس لیے کہ یہ مظلوم ہیں اور اللہ ان کی مدد پر خوب قدرت رکھتا ہے۔‘‘بعد ازاں اس عمل کو امت پر من حیث المجموع واجب کر دیا گیا اور فرمایا گیا(كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَكُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ)(البقرۃ26)’’(کفار سے) قتال کرنا تم پرفرض کر دیا گیا ہے اور ممکن ہے کہ تمہیں ایک چیزیں بری لگے اور وہ (حقیقت ) تمہارےلیے بہتر ہو اور ممکن ہے کہ کوئی چیز تمہیں بھلی لگے اور وہ (حقیقت میں) تمہارے لیے بری ہو اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔‘‘ اور عام حالات میں جہاد فرض کفایہ ہے۔
جہاد کی فضیلت کی بابت حضرت ابوذر سے مروی ہے ‘ وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبئ کریمﷺ سے پوچھا:اے اللہ کے رسول! کون سا عمل سب سے اچھا اور افضل ہے ؟ تو آپ نے فرمایا :’’اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا اور اس کے بعد جہاد فی سبیل اللہ۔‘‘(صحيح البخارى .العتق . باب . أي الرقاب أفضل؟حديث:2518)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایمان لانے کے بعد افضل ترین عمل ‘جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ ایک دوسری روایت میں رسول اللہ سے پوچھا گیا‘ کون سے اعمال سب سے زیادہ فضیلت والے ہیں ؟یا کون سے اعمال بہتر ہیں؟ آپ نے فرمایا :’’جہاد (نیک) اعمال کی کوہان ہے ۔‘‘ (جامع ترمذی ‘فضائل الجہاد‘حدیث:1658) دین اسلام میں جہاد کی بہت زیادہ اہمیت و فضیلت بیان ہوئی ہے۔آپ ﷺ نے فرمایا ایمان لانے کے بعد جہاد فی سبیل اللہ بلند ترین درجات کے حصول کا اور رنج و غم اور مصائب و مشکلات سے نجات حاصل کرنے کا ذریعہ ہے ‘ اسی طرح حدیث سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کے بعد ہجرت اور جہاد کرنے والے کے لیے اللہ تعالیٰ تین گھر بناتا ہے ‘ایک گھر جنت کے گرد ‘ایک جنت کے وسط میں اور ایک جنت کے بالا خانوں میں۔(سنن النسائی‘ الجہاد ‘ حدیث :3135) جہاد کی اہمیت کے متعلق کے نبی ﷺ نے فرمایا جس شخص نے کبھی جہاد میں حصہ لیا نہ کبھی اس کے دل میں جہاد کی خواہش پیدا ہوئی ‘وہ نفاق کے ایک درجہ میں مرے گا۔‘‘ صحیح مسلم‘الامارۃ‘ حدیث1910) اسی طرح آپ نے فرمایا:’’ جس شخص نے کبھی جہاد میں حصہ نہ لیا اور نہ کبھی مجاہد کی مدد ہی کی ‘ اللہ تعالیٰ اسے دنیا ہی میں سخت مصیبت میں مبتلا فرما دےگا۔‘‘(سنن ابی داود ‘الجہاد ‘ حدیث 1503) قرآن و حدیث میں جہاد کی تعلیم اور تر غیب کو سامنے رکھتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ پر نظر ڈالی جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے یہ الفاظ کہ میں چاہتا ہوں کہ اللہ کی راہ میں قتل کیا جاؤں ‘ پھر زندہ کیا جاؤں ‘ پھر قتل کیا جاؤں ‘پھر زندہ کیا جاؤں ‘ پھر قتل کیا جاؤں ‘ پھر زندہ کیا جاؤں ۔صرف امت کو جہاد کی ترغیب اور فضیلت ظاہر کرنے کے لیے نہ تھے بلکہ آپ دل کی گہرائیوں سے یہ خواہش رکھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی جان کا نذرانہ پیش کریں اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں میں بھی جہاد فی سبیل اللہ کی تڑپ پیدا کرے‘ تا کہ اس گئے گزرے دور میں بھی دین اسلام پوری دنیا میں پھیل جائے ‘ ہر طرف دین اسلام ہی کا بو ل بالا ہو اور دین با قی ادیان پر غالب آ جائے۔
سیدنا معاذ بن جبل ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک گدھے پر آپ ﷺ کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا جسے ”عفیر“ کہا جاتا تھا۔
حدیث حاشیہ:
جانور کا نام رکھنا مباح ہے۔ 2۔ بوقت ضرورت جانور پردو آدمی بھی سوار ہوسکتے ہیں۔ 3۔ اگر کسی جانورپر دو آدمی سوار ہوجایئں تو یہ ظلم شمار نہیں ہوگا۔ بشرط یہ کہ جانور صحت مند اور اس قدربوجھ اٹھا سکتا ہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
معاذ ؓ کہتے ہیں کہ میں ایک گدھے پر رسول اللہ ﷺ کے پیچھے سوار تھا جس کو «عفیر» کہا جاتا تھا۱؎۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: پیچھے سواری پر کسی کو بٹھایا جا سکتا ہے بشرطیکہ جانور اس دوسرے سوار کا بوجھ برداشت کرنے کے قابل ہو، اسی طرح جانوروں کا نام بھی رکھا جا سکتا ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خچر کا نام «دلدل» اور گھوڑوں میں سے ایک کا نام «سکب» اور ایک کا «بحر» تھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Mu’adh said “I was seated behind the Prophet (ﷺ) on a donkey that was called ‘Ufair”.