Abu-Daud:
Jihad (Kitab Al-Jihad)
(Chapter: Regarding Calling Idolators To Islam)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2633.
ابن عون ؓ کہتے ہیں کہ میں نے جناب نافع کو لکھ بھیجا اور ان سے یہ مسئلہ دریافت کیا کہ قتال کے موقع پر مشرکین کو دعوت دینا کیا حکم رکھتا ہے؟ تو انہوں نے مجھے لکھ بھیجا: بیشک یہ حکم ابتدائے اسلام میں تھا۔ (بعد ازاں) نبی کریم ﷺ نے قبیلہ بنو مصطلق پر حملہ کیا جبکہ وہ غافل تھے اور ان کے جانور پانی پی رہے تھے تو آپ نے ان کے لڑنے والوں کو قتل کیا اور باقیوں کو قید کر لیا۔ اسی موقع پر جویریہ بنت حارث آپ کے ہاتھ لگی تھیں۔ (بعد میں حرم نبوی میں داخل کی گئیں) نافع کہتے ہیں کہ مجھے یہ حدیث سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ نے بیان کی اور وہ اس لشکر میں شریک تھے۔ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں، یہ حدیث عمدہ ہے۔ اسے ابن عون نے نافع سے بیان کیا ہے۔ ابن عون کا اس میں اور کوئی شریک نہیں۔
تشریح:
1۔ جن لوگوں کو اسلام اور مسلمانوں کی دعوت پہنچ چکی ہو۔ بوقت قتال ان کو دعوت دینا کوئی ضروری نہیں ہے۔ اور جنہیں نہ پہنچی ہو تو انہیں دی جانی چاہیے۔ 2۔ حضرت جویریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو رسول اللہﷺ نے آزاد کرکے اپنے حرم میں شامل کر لیا تھا۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين. وقد أخرجاه وأبو عوانة في صحاحهم ، وابن الجارود في المنتقى ) . إسناده: حدثنا سعيد بن منصور: ثنا إسماعيل بن إبراهيم: أخبرنا ابن عون.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين؛ وقد أخرجاه كما يأتي. وإسماعيل: هو المعروف بـ (ابن علَيَّة) . والحديث أخرجه الإمام أحمد (2/51) : ثنا إسماعيل... به. ثم أخرجه هو (2/31 و 32) ، والبخاري (3/122) ، ومسلم (5/136) ، والنسائي في سير الكبرى - كما في التحفة (6/111) -، وابن الجارود (1047) ، وأبو عوانة (4/76) ، والبيهقي (9/79 و 107) من طرق أخرى عن ابن عون... به. (تنبيه) : من الواضح لكل نبيه أن في الحديث خبراً عنه صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ورأياً لنافع - وهو مولى ابن عمر-. أما الخبر؛ فهو ما رواه نافع عن ابن عمر: أنه صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أغار على بني المصطلق... إلخ. وأما الرأي؛ فهو قول نافع- أن دعاء المشركين قبل القتال كان في أول الإسلام. فهذا لو رفعه نافع إلى النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؛ لم يكن حجة؛ لأنه يكون مرسلاً، فكيف وهو موقوف؟! أقول هذا؛ لأن الأمر اختلط على الأستاذ الفاضل محمد الغزالي في مقدمة الطبعة الرابعة لكتابه فقه السيرة ؛ فادَّعى أن الحديث ضعيف وإن كان في الصحيحين ؛ لتوهمه أن الرسول صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ باغت القوم وهم غارُّونْ ما عُرِضتْ عليهم دعوة لإسلام ! كذا قال (ص 10) ! ومن البين لكل ذي عين: أنه خلط بين المرفوع من الحديث والموقوف، ولم يتنبه أن قوله: ما عرضت عليهم دعوة الإسلام ، إنما هو رأي لنافع، ما يجوز لأجله رد الحديث من أصله، وادعاء أنه مخالف لقواعد الإسلام المتيقنة، وقبول الحديث الضعيف لموافقته لتلك القواعد! وما هو إلا مجرد دعوى، يقول مثلها أهل الأهواء قديماً وحديثاً، ويردُّون من أجلها مئات الأحاديث الصحيحة بسوء فهمهم لها! والله المستعان. ولو أن الأستاذ الغزالي تنبه لهذا؛ لم يبادر- إن شاء الله- إلى رد الحديث الصحيح المجمع على صحته عند العلماء، ولسلك مسلكهم في فهمه على ضوء الأحاديث الصحيحة الأخرى، التي منها حديث ابن عباس: ما قاتل قوماً إلا بعد أن دعاهم. وهو مخرج في الصحيحة (2641) . ولم يكن به حاجة حينئذ أن تسكن نفسه إلى الرواية الضعيفة المخالفة له، كما كنت بينته في تخريج فقه السيرة له (ص 308) ، متبعاً فيه ابن القيم وغيره من العلماء المحققين الجامعين بين علمي الرواية والدراية. ولقد كنت راجعته في ذلك في بعض لقاءاتي معه في المجلس الأعلى للجامعة الإسلامية، وبينت له وهمه المذكور، فوعد بأن يعيد النظر في ذلك، ولكنه لم يفعل شيئاً؛ فإنه أعاد طبع لكتاب دون أي تعديل أو إشارة إلى وعده المذكور! بل وعلق على بعض تخريجاتي بما يدل القارئ اللبيب على أنه كان خيراً له أن لا يفعل؛ لأنه ليس من رجال هذا العلم !! والله المستعان.
(جهاد‘ جهد) سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں ’’ محنت و مشقت ۔‘‘ اس معنی کے اعتبار سے دین کے لیے کی جانے والی تمام مساعی (جانی ‘مالی ‘قولی‘فکری‘فعلی اور تحریری سبھی ) جہاد میں شامل ہیں تا ہم اصطلاحاً و عرفا نفس امّارہ کا مقابلہ ’’مجاہدہ‘‘ اور دشمن اور فسادیوں کے ساتھ مسلح آویزش کو ’’جہاد‘‘ کہتے ہیں مکی دور میں کفار کے ساتھ (فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِيلَ)
اعراض و درگزر سے کام لو۔‘‘کا حکم تھا‘ مگر مدینہ ہجرت کرجانے کے بعد مسلمانوں کو مسلح مقابلے کی اجازت دے دی گئی اور فرمایا گیا(أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ)(الحج:39)’’ان لوگوں کو جن سے کافر لڑتے ہیں(مسلح قتال کی) اجازت دی جاتی ہے اس لیے کہ یہ مظلوم ہیں اور اللہ ان کی مدد پر خوب قدرت رکھتا ہے۔‘‘بعد ازاں اس عمل کو امت پر من حیث المجموع واجب کر دیا گیا اور فرمایا گیا(كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَكُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ)(البقرۃ26)’’(کفار سے) قتال کرنا تم پرفرض کر دیا گیا ہے اور ممکن ہے کہ تمہیں ایک چیزیں بری لگے اور وہ (حقیقت ) تمہارےلیے بہتر ہو اور ممکن ہے کہ کوئی چیز تمہیں بھلی لگے اور وہ (حقیقت میں) تمہارے لیے بری ہو اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔‘‘ اور عام حالات میں جہاد فرض کفایہ ہے۔
جہاد کی فضیلت کی بابت حضرت ابوذر سے مروی ہے ‘ وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبئ کریمﷺ سے پوچھا:اے اللہ کے رسول! کون سا عمل سب سے اچھا اور افضل ہے ؟ تو آپ نے فرمایا :’’اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا اور اس کے بعد جہاد فی سبیل اللہ۔‘‘(صحيح البخارى .العتق . باب . أي الرقاب أفضل؟حديث:2518)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایمان لانے کے بعد افضل ترین عمل ‘جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ ایک دوسری روایت میں رسول اللہ سے پوچھا گیا‘ کون سے اعمال سب سے زیادہ فضیلت والے ہیں ؟یا کون سے اعمال بہتر ہیں؟ آپ نے فرمایا :’’جہاد (نیک) اعمال کی کوہان ہے ۔‘‘ (جامع ترمذی ‘فضائل الجہاد‘حدیث:1658) دین اسلام میں جہاد کی بہت زیادہ اہمیت و فضیلت بیان ہوئی ہے۔آپ ﷺ نے فرمایا ایمان لانے کے بعد جہاد فی سبیل اللہ بلند ترین درجات کے حصول کا اور رنج و غم اور مصائب و مشکلات سے نجات حاصل کرنے کا ذریعہ ہے ‘ اسی طرح حدیث سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کے بعد ہجرت اور جہاد کرنے والے کے لیے اللہ تعالیٰ تین گھر بناتا ہے ‘ایک گھر جنت کے گرد ‘ایک جنت کے وسط میں اور ایک جنت کے بالا خانوں میں۔(سنن النسائی‘ الجہاد ‘ حدیث :3135) جہاد کی اہمیت کے متعلق کے نبی ﷺ نے فرمایا جس شخص نے کبھی جہاد میں حصہ لیا نہ کبھی اس کے دل میں جہاد کی خواہش پیدا ہوئی ‘وہ نفاق کے ایک درجہ میں مرے گا۔‘‘ صحیح مسلم‘الامارۃ‘ حدیث1910) اسی طرح آپ نے فرمایا:’’ جس شخص نے کبھی جہاد میں حصہ نہ لیا اور نہ کبھی مجاہد کی مدد ہی کی ‘ اللہ تعالیٰ اسے دنیا ہی میں سخت مصیبت میں مبتلا فرما دےگا۔‘‘(سنن ابی داود ‘الجہاد ‘ حدیث 1503) قرآن و حدیث میں جہاد کی تعلیم اور تر غیب کو سامنے رکھتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ پر نظر ڈالی جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے یہ الفاظ کہ میں چاہتا ہوں کہ اللہ کی راہ میں قتل کیا جاؤں ‘ پھر زندہ کیا جاؤں ‘ پھر قتل کیا جاؤں ‘پھر زندہ کیا جاؤں ‘ پھر قتل کیا جاؤں ‘ پھر زندہ کیا جاؤں ۔صرف امت کو جہاد کی ترغیب اور فضیلت ظاہر کرنے کے لیے نہ تھے بلکہ آپ دل کی گہرائیوں سے یہ خواہش رکھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی جان کا نذرانہ پیش کریں اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں میں بھی جہاد فی سبیل اللہ کی تڑپ پیدا کرے‘ تا کہ اس گئے گزرے دور میں بھی دین اسلام پوری دنیا میں پھیل جائے ‘ ہر طرف دین اسلام ہی کا بو ل بالا ہو اور دین با قی ادیان پر غالب آ جائے۔
ابن عون ؓ کہتے ہیں کہ میں نے جناب نافع کو لکھ بھیجا اور ان سے یہ مسئلہ دریافت کیا کہ قتال کے موقع پر مشرکین کو دعوت دینا کیا حکم رکھتا ہے؟ تو انہوں نے مجھے لکھ بھیجا: بیشک یہ حکم ابتدائے اسلام میں تھا۔ (بعد ازاں) نبی کریم ﷺ نے قبیلہ بنو مصطلق پر حملہ کیا جبکہ وہ غافل تھے اور ان کے جانور پانی پی رہے تھے تو آپ نے ان کے لڑنے والوں کو قتل کیا اور باقیوں کو قید کر لیا۔ اسی موقع پر جویریہ بنت حارث آپ کے ہاتھ لگی تھیں۔ (بعد میں حرم نبوی میں داخل کی گئیں) نافع کہتے ہیں کہ مجھے یہ حدیث سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ نے بیان کی اور وہ اس لشکر میں شریک تھے۔ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں، یہ حدیث عمدہ ہے۔ اسے ابن عون نے نافع سے بیان کیا ہے۔ ابن عون کا اس میں اور کوئی شریک نہیں۔
حدیث حاشیہ:
1۔ جن لوگوں کو اسلام اور مسلمانوں کی دعوت پہنچ چکی ہو۔ بوقت قتال ان کو دعوت دینا کوئی ضروری نہیں ہے۔ اور جنہیں نہ پہنچی ہو تو انہیں دی جانی چاہیے۔ 2۔ حضرت جویریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو رسول اللہﷺ نے آزاد کرکے اپنے حرم میں شامل کر لیا تھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابن عون کہتے ہیں کہ میں نے نافع کے پاس لڑائی کے وقت کفار و مشرکین کو اسلام کی دعوت دینے کے بارے میں پوچھنے کے لیے خط لکھا، تو انہوں نے مجھے لکھا: یہ شروع اسلام میں تھا (اس کے بعد) اللہ کے نبی کریم ﷺ نے قبیلہ بنو مصطلق پر حملہ کیا، وہ غفلت میں تھے، اور ان کے چوپائے پانی پی رہے تھے، آپ ﷺ نے ان میں سے جو لڑنے والے تھے انہیں قتل کیا، اور باقی کو گرفتار کر لیا۱؎، اور جویریہ بنت الحارث۲؎ کو آپ ﷺ نے اسی دن پایا، یہ بات مجھ سے عبداللہ بن عمر ؓ نے بیان کی جو خود اس لشکر میں تھے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ ایک عمدہ حدیث ہے، اسے ابن عون نے نافع سے روایت کیا ہے اور اس میں ان کا کوئی شریک نہیں۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : معلوم ہوا کہ جن کافروں اور مشرکوں تک اسلام کی دعوت ان پر حملہ سے پہلے پہنچ چکی ہو تو انہیں اسلام کی دعوت پیش کرنے سے پہلے ان سے قتال جائز ہے ۔ ¤ ۲؎ : یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات میں سے ہیں، ان کا انتقال ۵۰ ہجری میں ہوا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Ibn ‘Awn said “I wrote to Nafi’ asking him about summoning the polytheists (to Islam) at the time of fighting. So, he wrote to me “This was in the early days of Islam. The Prophet of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) attacked Banu Al Mustaliq while they were inattentive and their cattle were drinking water. So their fighters were killed and the survivors (i.e., women and children) were taken prisoners. On that day Juwairiyyah daughter of Al Harith was obtained. ‘Abd Allaah narrated this to me, he was in that army”. Abu Dawud رحمۃ اللہ علیہ said “This is a good tradition narrtted by Ibn ‘Awn from Nafi’ and no one shared him in narrating it”.