Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: Intercourse With Menstruating Women)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
264.
سیدنا ابن عباس ؓ نے نبی کریم ﷺ سے اس شخص کے بارے میں جو اپنی بیوی سے حالت حیض میں مجامعت کرتا ہے روایت کیا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا ”ایک دینار صدقہ کرے یا آدھا دینار۔“ امام ابوداؤد ؓ کہتے ہیں کہ صحیح روایت ایسے ہی ہے کہ ”ایک دینار یا آدھا دینار۔“ لیکن شعبہ اس روایت کو بعض اوقات مرفوع بیان نہ کرتے تھے۔ (بلکہ سیدنا ابن عباس ؓ پر موقوف کر دیتے تھے)۔
تشریح:
(1) امام ابوداؤد رحمہ اللہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ حرف أو ہی صحیح روایت ہے اور اس میں اختیار دیا گیا ہے کہ ایک دینار دے یا آدھا اور اس کے بالمقابل دیگر روایات جس میں کچھ تفصیل ہے یا صرف آدھے دینار کا ذکر ہے وہ اس حدیث کے پائے کی نہیں ہیں۔ معلوم رہے کہ دینار ہمارے موجودہ معیار کے مطابق سوا چار گرام سے کچھ زیادہ سونے کا ہوتا تھا۔ (2) ان مخصوص ایام میں جنسی عمل حرام ہے۔ اگر ہو جائے تو صدقہ دینا چاہیے قاعدہ ہے کہ (إِنَّ الحَسَنـٰتِ يُذهِبنَ السَّيِّـٔاتِ)(هود: 214) ’’ نیکیاں گناہوں کا ازالہ کردیتی ہیں۔‘‘
الحکم التفصیلی:
(قلت: وإسناده صحيح على شرط البخاري. وصححه أيضا الحاكم، ووافقه الذهبي وابن القطان وابن دقيق العيد وابن التركماني وابن حجر العسقلاني. وذكر الحلال عن أحمد قال: ما أحسن حديث عبد الحميد- يعني: هذ ا الحديث-. قيل له: تذهب إليه؟ قال: نعم؛ إنما هو كفارة. وقوّاه ابن القيم) . إسناده: حدثنا مسدد: نا يحيى عن شعبة قال: حدثني الحكم عن عبد الحميد بن عبد الرحمن عن مِقْسم عن ابن عباس... وربما لم يرفعه شعبة. قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط البخاري؛ والحكم: هو ابن عتيبة. والحديث أخرجه أحمد (1/229- 231) : ثنا يحيى عن شعبة. ومحمد بن جعفر: ثنا شعبة... به. ثم أخرجه (1/286) من طريق محمد بن جعفر أيضا. وأخرجه ابن ماجه (1/220) : حدثنا محمد بن يشار: ثنا يحيى بن سعيد ومحمد بن جعفر وابن أبي عدي عن شعبة... به. وأخرجه النسائي (1/55 و 66- 67) : أخبرنا عمرو بن علي قال: حدثنا يحيى عن شعبة... به. وأخرجه الدارمي (1/254) ، والبيهقي (1/314) من طريق أخرى عن شعبة... به. وقال الدارمي- في بيان نسب عبد الحميد هذا-: عبد الحميد بن زيد بن عبد الرحمن بن زيد بن الخطاب؛ وكان واليَ عمر ابن عبد العزيز على الكوفة . قلت: كذا في نسختنا: عبد الحميد بن زيد... ! أرى أن (ابن زيد) زيادة من بعض النساخ أو الطابع ا فإنه إعبد الحميد بن عبد الرحمن بن زيد بن الخطاب (، كما في كتب القوم؛ وكنيته أبو عمر المدني. ثم أخرجه الحاكم (1/171- 172) من طريق مسدد... به، وقال: حديث صحيح؛ فقد احتجا جميعا ًبـ (مقسم بن نجدة) . فأما عبد الحميد بن عبد الرحمن؛ فإنه أبو الحسن عبد الحميد بن عبد الرحمن الجزري، ثقة مأمون ! وقد أخطأً الحاكم في موضعين: الأول: قوله: إن مقسم بن تجدة احتج به الشيخان! وليس كذلك فإن مسلماً لم يروله البتة. والآخر: فوله أن عبد الحميد بن عبد الرحمن هذا هو أبو الحسن الجزري! بل هو أبو عمر المدني؛ كما سبق عن الدارمي. وأما أبو الحسن الجزري؛ فهو شامي مجهول. وقد أشار الحافط في التهذيب إلى خطأًا لحاكم في قوله: إنه عبد الحميد بن عبد الرحمن! وصرح بذلك في التقريب . والسبب في وقوع الحاكم في هذا الخطأ: أن أبا الحسن الجزري هذا ممن روى هذا الحديث عن مقسم، كما يأتي بعد هذا؛ فظن الحاكم أنه عبد الحميد بن عبد الرحمن. ثم إن البيهقي أخرج الحديث من طرق عن شعبة... به موقوفاً على ابن عباس؛ وقد أشار إليه المؤلف كما سبق. ولا يخدج هذا في روايته المرفوعة؛ لأن الرفع زيادة منه قد حفظها. وأيضا؛ فقد بين السبب في وقفه له، فيما أخرجه الدارمي: أخبرنا سعيد بن عامر عن شعبة... بإسناده عن ابن عباس: في الذي يغشى امرأته وهي حائض: يتصدق بدينار أو نصف دينار. قال شعبة: أما حفظي فهو مرفوع، وأما فلان وفلان فقالا: غير مرفوع. فقال بعض القوم: حدِّثنا بحفظك ودَعْ ما قال فلان وفلان! فقال: والله ما أحب أني غمِّرْت في الدنيا عمرَ نوح؛ د ني حدثمت بهذا أو سكتّ عن هذا. وسعيد بن عامر: هو الضّبَعِيُّ، وهو ثقة حجة؛ وقد أبان في روايته عن شعبة سبب إيقافه للحديث أحياناً، وأن ذلك ليس منه مباشرة؛ بل بسبب الذين أوقفوه! وذلك مما لا يضره إن شاء الله تعالى. على أن شعبة لم يتفرد برفعه؛ فقد أخرجه البيهقي من طريق قتادة: حدثني الحكم بن عُتَيْبَة. .. به ولفظه: أن رجلاً أتى النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فزعم أنه أتى- يعني- امرأته وهي حائصْ؟ فأمره نبي الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أن يتصدق بدينار؛ فإن لم يجد فنصف دينار. وقد رواه قتادة أيضا عن مقسم... به. أخرجه أحمد (1/237 و 312) ، والبيهقي، وقال: لم يسمعه قتادة من مقسم ! ثم أخرجه البيهقي من طريق مَطَرِ الورَّاق عن الحكم بن عتيبة عن مقسم... به. وقال: هكذا رواه جماعة عن الحكم بن عتيبة عن مقسم. وفي رواية شعبة عن الحكم دلالة على أن الحكم لم يسمعه من مقسم؛ إنما سمعه من عبد الحميد بن عبد الرحمن بن زيد بن الخطاب عن مقسم ! قلت: ولا دلالة على ما ذكره البيهقي؛ لأن الحَكَمَ كان معاصراً لمقسم؛ فجائز أن يكون قد سمعه منه مباشرة. وقد جزم أحمد ويحبي القطان بأنه لم يسمع منه إلا خمسة أحاديث؛ ذكرها الحافظ في التهذيب كا، وفيها هذا الحديث في إتيان الحائض. وهذا أولى بالقبول لأمرين: الأول: أنه مثبت، والبيهقي نَافٍ؛ والمثبت مقدم على النافي. والآخر: أنهما أجلُّ من البيهقي وأعلم بالحديث ورجاله. وقد تابع عبدَ الحميد بن عبد الرحمن على أصل الحديث غيرُ واحد عن مقسم؛ لكن خالفوه في لفظه؛ وفي حفظهم ضعف، ولذلك أوردنا حديثهم في الكتاب الآخر (رقم 41) ؛ ولكنها على كل حال تشهد على أن أصل الحديث مرفوع ليس بموقوف. ورواه يعقوب بن عطاء عن مقسم... به مثل رواية عبد الحميد. أخرجه الدارقطني (ص 410) ، والبيهقي (1/318) من طريق أبي بكر بن عياش عن يعقوب. وقال البيهقي: ويعقوب بن عطاء لا يحتج بحديثه . وتعقبه ابن التركماني بقوله: قلت: أخرج له ابن حبان في صحيحه ، والحاكم في المستدرك ، وذكر ابن عدي أنه ممن يكتب حدي ه؛ فأقل أحواله أن يتابع بروايته ما تقدم . وبعد؛ فإن الكلام على طرق هذا الحديث وأسانيده وألفاظه طويل جدّاً، وفي القدر الذي ذكرنا كفاية في إثبات صحة إسناده. وأما من حيثُ متنه؛ فالصواب فيه رواية عبد الحميد هذه؛ وهي التي رجَّحها المصنف على غيرها وصححها كما رأيت، والألفاظ الأخرى المخالفة لها؛ في أسانيدها مقال؛ فلا تصلح للمعارضة، ولا يجوز التمسك بها في دعوى الاضطراب في متنه، كما سنبيِّن ذلك إن شاء الله تعالى في الكتاب الآخر. وقد قال الحافظ في التلخيص (2/426) : والاضطراب في إسناد هذا الحديث ومتنه كثير جدّاً . قال: وقد أمعن ابن القطان القول في تصحيح هذا الحديث والجواب عن طرق الطعن فيه بما يراجع منه. وأقر ابنُ دقيق العيد تصحيحَ ابن القطان، وقوّاه في الإمام ، وهو الصواب؛ فكم من حديث قد احتجوا به؛ فيه من الاختلاف أكثر مما في هذا، كحديث بئر بضاعة[رقم 59 و 60]، وحديث القلتين[رقم 56- 58] ونحوهما. وفي ذلك ما يرد على النووي في دعواه في شرح المهذب و التنقيح و الخلاصة : أن الأئمة كلهم خالفوا الحاكم في تصحيحه، وأن الحق أنه ضعيف باتفاقهم. وتبع النوويُ في بعض ذلك ابنَ الصلاح . قلت: وقوّاه ابن التركماني؛ ومنه نقلنا ما ذكرنا في الأعلى عن أحمد. وكذا قوّاه ابن القيم في التهذيب . وتجد تفصيل الكلام على هذا الحديث وطرقه وألفاظه في تعليق الشيخ أحمد محمد شاكر على الترمذي (1/246- 254) . وفيه تحقيق دقيق، لا تجده في كتاب؛ إلا أنه وهم في بعض الشيء، لكنه لا يخدج في تحقيقه لصحة الحديث، فانظر كلامنا على الحديث الآتي.
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
سیدنا ابن عباس ؓ نے نبی کریم ﷺ سے اس شخص کے بارے میں جو اپنی بیوی سے حالت حیض میں مجامعت کرتا ہے روایت کیا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا ”ایک دینار صدقہ کرے یا آدھا دینار۔“ امام ابوداؤد ؓ کہتے ہیں کہ صحیح روایت ایسے ہی ہے کہ ”ایک دینار یا آدھا دینار۔“ لیکن شعبہ اس روایت کو بعض اوقات مرفوع بیان نہ کرتے تھے۔ (بلکہ سیدنا ابن عباس ؓ پر موقوف کر دیتے تھے)۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام ابوداؤد رحمہ اللہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ حرف أو ہی صحیح روایت ہے اور اس میں اختیار دیا گیا ہے کہ ایک دینار دے یا آدھا اور اس کے بالمقابل دیگر روایات جس میں کچھ تفصیل ہے یا صرف آدھے دینار کا ذکر ہے وہ اس حدیث کے پائے کی نہیں ہیں۔ معلوم رہے کہ دینار ہمارے موجودہ معیار کے مطابق سوا چار گرام سے کچھ زیادہ سونے کا ہوتا تھا۔ (2) ان مخصوص ایام میں جنسی عمل حرام ہے۔ اگر ہو جائے تو صدقہ دینا چاہیے قاعدہ ہے کہ (إِنَّ الحَسَنـٰتِ يُذهِبنَ السَّيِّـٔاتِ)(هود: 214) ’’ نیکیاں گناہوں کا ازالہ کردیتی ہیں۔‘‘
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے اس شخص کے بارے میں جو اپنی عورت سے حالت حیض میں جماع کر لے، فرمایا: ”(بطور کفارہ) وہ ایک دینار یا آدھا دینار صدقہ کرے۔“ ابوداؤد کہتے ہیں: صحیح روایت اسی طرح ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ایک دینار یا نصف دینار صدقہ کرے۔“ اور کبھی کبھی شعبہ نے اسے مرفوعاً نہیں بیان کیا ہے، (یعنی ابن عباس ؓ کے قول کی حیثیت سے روایت کی ہے)۔
حدیث حاشیہ:
معلوم رہے کہ دینار ہمارے موجودہ معیار کے مطابق سوا چار گرام سے کچھ زیادہ سونے کا ہوتا ہے۔ ان مخصوص ایام میں جنسی عمل حرام ہے۔ اگر ہو جائے تو صدقہ دینا چاہیے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah ibn 'Abbas (RA): The Prophet (ﷺ) said about a person who had intercourse with his wife while she was menstruating: He must give one dinar or half a dinar in alms.