باب: جو کوئی مسلمان ہوتے ہوئے مسلمانوں کی جاسوسی کرے
)
Abu-Daud:
Jihad (Kitab Al-Jihad)
(Chapter: Ragarding The Judgement For The Spy When He Is A Muslim)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2650.
عبیداللہ بن ابی رافع ؓ سیدنا علی بن ابی طالب ؓ کے کاتب تھے، انہوں نے کہا: میں نے سیدنا علی ؓ سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے، زبیر اور مقداد کو روانہ کیا اور فرمایا: ”جاؤ حتیٰ کہ جب تم روضہ خاخ کے مقام پر پہنچو گے تو تمہیں ایک اونٹنی سوار عورت ملے گی اس کے پاس ایک خط ہے، وہ اس سے لے آؤ۔“ چنانچہ ہم روانہ ہوئے ہمارے گھوڑے ہمیں بڑی تیزی سے لیے جا رہے تھے حتیٰ کہ ہم مقام روضہ پر پہنچ گئے، تو ہم نے وہاں ایک عورت پائی جو اپنی اونٹنی پر سوار تھی۔ ہم نے اس سے کہا: لاؤ خط دے دو۔ اس نے کہا: میرے پاس کوئی خط نہیں ہے۔ میں نے کہا: یا تو، تو خط نکالے گی یا ہم تیرے کپڑے اتار دیں گے۔ چنانچہ اس نے اپنی چٹیا میں سے خط نکال دیا، تو اسے لے کر ہم نبی کریم ﷺ کے پاس آ گئے۔ وہ حاطب بن ابی بلتعہ کی طرف سے مشرکین کو لکھا گیا تھا، اس میں ان کو رسول اللہ ﷺ کے بعض معاملات کے متعلق خبر دی گئی تھی۔ آپ ﷺ نے پوچھا: ”حاطب! یہ کیا ہے؟“ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! مجھ پر جلدی (میں فیصلہ) نہ کیجئیے، دراصل میں اہل قریش میں نو آباد تھا، خاص قبیلہ قریش سے میرا تعلق نہیں تھا جبکہ (مہاجرین) قریش کے وہاں مکہ میں دیگر تعلق دار موجود ہیں جو ان کے اہل و عیال کی حفاظت کرتے ہیں لہٰذا میں نے چاہا کہ مجھے ان کے ساتھ تعلق داری کا کوئی واسطہ حاصل نہیں ہے، تو میں ان پر ایک احسان کر دوں جس کی بنا پر وہ میرے قرابت داروں کا خیال رکھیں۔ اللہ کی قسم! اے اللہ کے رسول! مجھ میں کوئی کفر نہیں ہے اور نہ کوئی ارتداد ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”سچ کہا ہے۔“ سیدنا عمر ؓ نے کہا: مجھے چھوڑیے میں اس منافق کی گردن اڑا دوں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”یہ بدر میں شریک ہو چکا ہے اور تمہیں کیا خبر، شاید اللہ تعالیٰ نے اہل بدر پر نظر فرمائی ہو اور کہا ہے کہ جو چاہے کرو، تحقیق میں نے تمہیں بخش دیا ہے۔“
تشریح:
1۔ رسول اللہ ﷺ کا غیب کی خبریں دینا وحی کی بنا پر ہوتا تھا۔ 2۔ مجاہد کو تلوار کا دھنی ہونے کے ساتھ ساتھ دیگر تدابیر سے بھی کام لینا چاہیے۔ جیسے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دھمکی سے کام نکالا۔ 3۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کی امانت قابل قدر ہے کہ انہوں نے اپنے طور پر خط پڑھنے کی کوشش نہیں کی۔
4۔ کافر کا کوئی اکرام و احترام نہیں ہوتا، بالخصوص جب وہ مسلمانوں کے خلاف کام کرتا ہو۔ 5۔ بعض صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین تمام تر رفعت شان کے باوجود بشری خطائوں سے مبرا نہ تھے اور ان سے ان کے عادل ہونے پر بھی کوئی اثر نہیں پڑا۔ جیسے کہ حضرت حاطب رضی اللہ تعالیٰ عنہ 6۔ جب کوئی شخص کسی ناجائز کام کا مرتکب ہوا ہو وہ اس کے جواز میں اپنے فہم (تاویل) کا سہارا لے تو اس کا عذر ایک حد تک قبول کیا جائے گا۔ بشرط یہ کہ اس کے فہم (تاویل) کی گنجائش نکلتی ہو۔ 7۔ کوئی مسلمان ہوتے ہوئے اپنے مسلمانوں کے راز افشاں کرے۔ اور ان کی جاسوسی کرے۔ تو یہ حرام کام ہے۔ اور انتہائی کبیرہ گناہ مگر اس کو قتل نہیں کیا جائے گا۔ لیکن تعزیر ضرور ہوگی۔ امام شافعی فرماتے ہیں۔ کہ اگر کوئی مسلمان باوقار ہو اور مسلمانوں کو ضرر پہنچانے کی تہمت سے مہتم نہ ہو تو اس کو معاف بھی کیا جاسکتا ہے۔ 8۔ کسی واضح عمل کی بنا پر اگر کوئی شخص کسی کو کفر یانفاق کی طرف منسوب کردے تو اس پرکوئی سزا نہیں۔ جیسے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا تھا۔ 9۔ اہل بدر کو دیگر صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کے مقابلے میں ایک ممتاز مرتبہ حاصل تھا۔ حضرت حاطبرضی اللہ تعالیٰ عنہ انہی میں سے تھے۔ اور نفاق کی تہمت سے بری تھے۔ 10۔ جو جی چاہے کرو۔ کہ یہ معنی ہرگز نہیں کہ وہ شرعی پابندیوں سے آذاد قرار دیئے گئے۔ بلکہ یہ ان کی مدح ثناء تھی۔ اور اللہ تعالیٰ کی طرفسے ضمانت تھی۔ کہ یہ لوگ اللہ کی خاص حفاظت میں ہیں۔ ان میں سے کوئی ایسا کام مصادر نہ ہوگا۔ جوشریعت کے صریح منافی ہو۔ واللہ اعلم۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناد الأولى صحيح على شرط البخاري، والأخرى على شرط مسلم. وقد أخرجاهما. وقال الترمذي في الأولى: حسن صحيح ) . إسناده: حدثنا مسدد: ثنا سفيان عن عمرو حدثه حسن بن محمد بن علي أخبره عبيد الله بن أبي رافع- وكان كاتباً لعلي بن أبي طالب- قال: سمعت علياً عليه السلام يقول... حدثنا وهب بن بَقِيةَ عن خالد عن حُصَيْنِ عن سعد بن عُبَيْدَةَ عن أبي عبد الرحمن السُلَمِي عن علي ... بهذه القصة.
قلت: والإسناد الأول صحيح على شرط الشيخين؛ غير مسدد، فهو على شرط البخاري. والإسناد الآخر كذلك؛ غير وهب بن بقية، فهو على شرط مسلم؛ وقد أخرجاهما كما يأتي. والحديث أخرجه أحمد (1/79) ، والحميدي (49) ، وعنه البخاري (6/60) قالا: ثنا سفيان... به، وهو ابن عيينة. وأخرجه البخاري (5/89) ، ومسلم (7/168) ، والترمذي (3302) ، وأبو يعلى (1/111) ، والبيهقي (9/146) من طرق أخرى عن سفيان... به. وقال الترمذي: حديث حسن صحيح . ثم أخرجه مسلم من طريق أخرى عن خالد- يعني: ابن عبد الله- عن حُصَيْنٍ ... بالرواية الأخرى. ثم أخرجه هو، والبخاري (5/8010/54) ، والبيهقي وأبو يعلى (1/318- 319) من طرق أخرى عن حصين... به. وجملة الاطلاع؛ لها شواهد من حديث أبي هريرة وغيره، وهو مخرج في الصحيحة (2732) .
(جهاد‘ جهد) سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں ’’ محنت و مشقت ۔‘‘ اس معنی کے اعتبار سے دین کے لیے کی جانے والی تمام مساعی (جانی ‘مالی ‘قولی‘فکری‘فعلی اور تحریری سبھی ) جہاد میں شامل ہیں تا ہم اصطلاحاً و عرفا نفس امّارہ کا مقابلہ ’’مجاہدہ‘‘ اور دشمن اور فسادیوں کے ساتھ مسلح آویزش کو ’’جہاد‘‘ کہتے ہیں مکی دور میں کفار کے ساتھ (فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِيلَ)
اعراض و درگزر سے کام لو۔‘‘کا حکم تھا‘ مگر مدینہ ہجرت کرجانے کے بعد مسلمانوں کو مسلح مقابلے کی اجازت دے دی گئی اور فرمایا گیا(أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ)(الحج:39)’’ان لوگوں کو جن سے کافر لڑتے ہیں(مسلح قتال کی) اجازت دی جاتی ہے اس لیے کہ یہ مظلوم ہیں اور اللہ ان کی مدد پر خوب قدرت رکھتا ہے۔‘‘بعد ازاں اس عمل کو امت پر من حیث المجموع واجب کر دیا گیا اور فرمایا گیا(كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَكُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ)(البقرۃ26)’’(کفار سے) قتال کرنا تم پرفرض کر دیا گیا ہے اور ممکن ہے کہ تمہیں ایک چیزیں بری لگے اور وہ (حقیقت ) تمہارےلیے بہتر ہو اور ممکن ہے کہ کوئی چیز تمہیں بھلی لگے اور وہ (حقیقت میں) تمہارے لیے بری ہو اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔‘‘ اور عام حالات میں جہاد فرض کفایہ ہے۔
جہاد کی فضیلت کی بابت حضرت ابوذر سے مروی ہے ‘ وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبئ کریمﷺ سے پوچھا:اے اللہ کے رسول! کون سا عمل سب سے اچھا اور افضل ہے ؟ تو آپ نے فرمایا :’’اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا اور اس کے بعد جہاد فی سبیل اللہ۔‘‘(صحيح البخارى .العتق . باب . أي الرقاب أفضل؟حديث:2518)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایمان لانے کے بعد افضل ترین عمل ‘جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ ایک دوسری روایت میں رسول اللہ سے پوچھا گیا‘ کون سے اعمال سب سے زیادہ فضیلت والے ہیں ؟یا کون سے اعمال بہتر ہیں؟ آپ نے فرمایا :’’جہاد (نیک) اعمال کی کوہان ہے ۔‘‘ (جامع ترمذی ‘فضائل الجہاد‘حدیث:1658) دین اسلام میں جہاد کی بہت زیادہ اہمیت و فضیلت بیان ہوئی ہے۔آپ ﷺ نے فرمایا ایمان لانے کے بعد جہاد فی سبیل اللہ بلند ترین درجات کے حصول کا اور رنج و غم اور مصائب و مشکلات سے نجات حاصل کرنے کا ذریعہ ہے ‘ اسی طرح حدیث سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کے بعد ہجرت اور جہاد کرنے والے کے لیے اللہ تعالیٰ تین گھر بناتا ہے ‘ایک گھر جنت کے گرد ‘ایک جنت کے وسط میں اور ایک جنت کے بالا خانوں میں۔(سنن النسائی‘ الجہاد ‘ حدیث :3135) جہاد کی اہمیت کے متعلق کے نبی ﷺ نے فرمایا جس شخص نے کبھی جہاد میں حصہ لیا نہ کبھی اس کے دل میں جہاد کی خواہش پیدا ہوئی ‘وہ نفاق کے ایک درجہ میں مرے گا۔‘‘ صحیح مسلم‘الامارۃ‘ حدیث1910) اسی طرح آپ نے فرمایا:’’ جس شخص نے کبھی جہاد میں حصہ نہ لیا اور نہ کبھی مجاہد کی مدد ہی کی ‘ اللہ تعالیٰ اسے دنیا ہی میں سخت مصیبت میں مبتلا فرما دےگا۔‘‘(سنن ابی داود ‘الجہاد ‘ حدیث 1503) قرآن و حدیث میں جہاد کی تعلیم اور تر غیب کو سامنے رکھتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ پر نظر ڈالی جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے یہ الفاظ کہ میں چاہتا ہوں کہ اللہ کی راہ میں قتل کیا جاؤں ‘ پھر زندہ کیا جاؤں ‘ پھر قتل کیا جاؤں ‘پھر زندہ کیا جاؤں ‘ پھر قتل کیا جاؤں ‘ پھر زندہ کیا جاؤں ۔صرف امت کو جہاد کی ترغیب اور فضیلت ظاہر کرنے کے لیے نہ تھے بلکہ آپ دل کی گہرائیوں سے یہ خواہش رکھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی جان کا نذرانہ پیش کریں اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں میں بھی جہاد فی سبیل اللہ کی تڑپ پیدا کرے‘ تا کہ اس گئے گزرے دور میں بھی دین اسلام پوری دنیا میں پھیل جائے ‘ ہر طرف دین اسلام ہی کا بو ل بالا ہو اور دین با قی ادیان پر غالب آ جائے۔
عبیداللہ بن ابی رافع ؓ سیدنا علی بن ابی طالب ؓ کے کاتب تھے، انہوں نے کہا: میں نے سیدنا علی ؓ سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے، زبیر اور مقداد کو روانہ کیا اور فرمایا: ”جاؤ حتیٰ کہ جب تم روضہ خاخ کے مقام پر پہنچو گے تو تمہیں ایک اونٹنی سوار عورت ملے گی اس کے پاس ایک خط ہے، وہ اس سے لے آؤ۔“ چنانچہ ہم روانہ ہوئے ہمارے گھوڑے ہمیں بڑی تیزی سے لیے جا رہے تھے حتیٰ کہ ہم مقام روضہ پر پہنچ گئے، تو ہم نے وہاں ایک عورت پائی جو اپنی اونٹنی پر سوار تھی۔ ہم نے اس سے کہا: لاؤ خط دے دو۔ اس نے کہا: میرے پاس کوئی خط نہیں ہے۔ میں نے کہا: یا تو، تو خط نکالے گی یا ہم تیرے کپڑے اتار دیں گے۔ چنانچہ اس نے اپنی چٹیا میں سے خط نکال دیا، تو اسے لے کر ہم نبی کریم ﷺ کے پاس آ گئے۔ وہ حاطب بن ابی بلتعہ کی طرف سے مشرکین کو لکھا گیا تھا، اس میں ان کو رسول اللہ ﷺ کے بعض معاملات کے متعلق خبر دی گئی تھی۔ آپ ﷺ نے پوچھا: ”حاطب! یہ کیا ہے؟“ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! مجھ پر جلدی (میں فیصلہ) نہ کیجئیے، دراصل میں اہل قریش میں نو آباد تھا، خاص قبیلہ قریش سے میرا تعلق نہیں تھا جبکہ (مہاجرین) قریش کے وہاں مکہ میں دیگر تعلق دار موجود ہیں جو ان کے اہل و عیال کی حفاظت کرتے ہیں لہٰذا میں نے چاہا کہ مجھے ان کے ساتھ تعلق داری کا کوئی واسطہ حاصل نہیں ہے، تو میں ان پر ایک احسان کر دوں جس کی بنا پر وہ میرے قرابت داروں کا خیال رکھیں۔ اللہ کی قسم! اے اللہ کے رسول! مجھ میں کوئی کفر نہیں ہے اور نہ کوئی ارتداد ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”سچ کہا ہے۔“ سیدنا عمر ؓ نے کہا: مجھے چھوڑیے میں اس منافق کی گردن اڑا دوں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”یہ بدر میں شریک ہو چکا ہے اور تمہیں کیا خبر، شاید اللہ تعالیٰ نے اہل بدر پر نظر فرمائی ہو اور کہا ہے کہ جو چاہے کرو، تحقیق میں نے تمہیں بخش دیا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
1۔ رسول اللہ ﷺ کا غیب کی خبریں دینا وحی کی بنا پر ہوتا تھا۔ 2۔ مجاہد کو تلوار کا دھنی ہونے کے ساتھ ساتھ دیگر تدابیر سے بھی کام لینا چاہیے۔ جیسے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دھمکی سے کام نکالا۔ 3۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کی امانت قابل قدر ہے کہ انہوں نے اپنے طور پر خط پڑھنے کی کوشش نہیں کی۔
4۔ کافر کا کوئی اکرام و احترام نہیں ہوتا، بالخصوص جب وہ مسلمانوں کے خلاف کام کرتا ہو۔ 5۔ بعض صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین تمام تر رفعت شان کے باوجود بشری خطائوں سے مبرا نہ تھے اور ان سے ان کے عادل ہونے پر بھی کوئی اثر نہیں پڑا۔ جیسے کہ حضرت حاطب رضی اللہ تعالیٰ عنہ 6۔ جب کوئی شخص کسی ناجائز کام کا مرتکب ہوا ہو وہ اس کے جواز میں اپنے فہم (تاویل) کا سہارا لے تو اس کا عذر ایک حد تک قبول کیا جائے گا۔ بشرط یہ کہ اس کے فہم (تاویل) کی گنجائش نکلتی ہو۔ 7۔ کوئی مسلمان ہوتے ہوئے اپنے مسلمانوں کے راز افشاں کرے۔ اور ان کی جاسوسی کرے۔ تو یہ حرام کام ہے۔ اور انتہائی کبیرہ گناہ مگر اس کو قتل نہیں کیا جائے گا۔ لیکن تعزیر ضرور ہوگی۔ امام شافعی فرماتے ہیں۔ کہ اگر کوئی مسلمان باوقار ہو اور مسلمانوں کو ضرر پہنچانے کی تہمت سے مہتم نہ ہو تو اس کو معاف بھی کیا جاسکتا ہے۔ 8۔ کسی واضح عمل کی بنا پر اگر کوئی شخص کسی کو کفر یانفاق کی طرف منسوب کردے تو اس پرکوئی سزا نہیں۔ جیسے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا تھا۔ 9۔ اہل بدر کو دیگر صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کے مقابلے میں ایک ممتاز مرتبہ حاصل تھا۔ حضرت حاطبرضی اللہ تعالیٰ عنہ انہی میں سے تھے۔ اور نفاق کی تہمت سے بری تھے۔ 10۔ جو جی چاہے کرو۔ کہ یہ معنی ہرگز نہیں کہ وہ شرعی پابندیوں سے آذاد قرار دیئے گئے۔ بلکہ یہ ان کی مدح ثناء تھی۔ اور اللہ تعالیٰ کی طرفسے ضمانت تھی۔ کہ یہ لوگ اللہ کی خاص حفاظت میں ہیں۔ ان میں سے کوئی ایسا کام مصادر نہ ہوگا۔ جوشریعت کے صریح منافی ہو۔ واللہ اعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبیداللہ بن ابی رافع جو علی بن ابی طالب ؓ کے منشی تھے، کہتے ہیں: میں نے علی ؓ کو کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے، زبیر اور مقداد تینوں کو بھیجا اور کہا: ”تم لوگ جاؤ یہاں تک کہ روضہ خاخ۱؎ پہنچو، وہاں ایک عورت کجاوہ میں بیٹھی ہوئی اونٹ پر سوار ملے گی اس کے پاس ایک خط ہے تم اس سے اسے چھین لینا۔“ تو ہم اپنے گھوڑے دوڑاتے ہوئے چلے یہاں تک کہ روضہ خاخ پہنچے اور دفعتاً اس عورت کو جا لیا، ہم نے اس سے کہا: خط لاؤ، اس نے کہا: میرے پاس کوئی خط نہیں ہے، میں نے کہا: خط نکالو ورنہ ہم تمہارے کپڑے اتار دیں گے، اس عورت نے وہ خط اپنی چوٹی سے نکال کر دیا، ہم اسے نبی اکرم ﷺ کے پاس لائے، وہ حاطب بن ابوبلتعہ ؓ کی جانب سے کچھ مشرکوں کے نام تھا، وہ انہیں رسول اللہ ﷺ کے بعض امور سے آگاہ کر رہے تھے، آپ ﷺ نے پوچھا: ”حاطب یہ کیا ہے؟“ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! میرے سلسلے میں جلدی نہ کیجئے، میں تو ایسا شخص ہوں جو قریش میں آ کر شامل ہوا ہوں یعنی ان کا حلیف ہوں، خاص ان میں سے نہیں ہوں، اور جو لوگ قریش کی قوم سے ہیں وہاں ان کے قرابت دار ہیں، مشرکین اس قرابت کے سبب مکہ میں ان کے مال اور عیال کی نگہبانی کرتے ہیں، چونکہ میری ان سے قرابت نہیں تھی، میں نے چاہا کہ میں ان کے حق میں کوئی ایسا کام کر دوں جس کے سبب مشرکین مکہ میرے اہل و عیال کی نگہبانی کریں، قسم اللہ کی! میں نے یہ کام نہ کفر کے سبب کیا اور نہ ہی ارتداد کے سبب، یہ سن کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اس نے تم سے سچ کہا۔“ اس پر عمر ؓ بولے: مجھے چھوڑئیے، میں اس منافق کی گردن مار دوں، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”یہ جنگ بدر میں شریک رہے ہیں، اور تمہیں کیا معلوم کہ اللہ نے اہل بدر کو جھانک کر نظر رحمت سے دیکھا، اور فرمایا: تم جو چاہو کرو میں تمہیں معاف کر چکا ہوں۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎: مدینہ سے بارہ میل کی دوری پر ایک مقام کا نام ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
‘Ali said “The Apostle of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) sent me Al Zubair and Al Miqdad and said “Go till you come to the meadow of Khakh for there Is a woman there travelling on a Camel who has a letter which you must take from her. We went off racing one another on our horses till we came to the meadow and when we found the woman, we aid “Bring out the letter. She said “I have no letter”. I said “You must bring out the letter else we strip off your clothes”. She then brought it out from the tresses and we took it to the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم). It was addressed from Hatib bin Abi Balta’ah to some of the polytheists(in Makkah) giving them some information about the Apostle of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم). He asked “What is this, Hatib? He replied, Apostle of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) do not be hasty with me. I have been a man attached as an ally to the Quraish and am not one of them while those of the Quraish (i.e. the emigrants) have relationship with them by which they guarded their family in Makkah. As I did not have that advantage I wanted to give them some help for which they might guard my relations. I swear by Allah I am not guilty of unbelief or apostasy (from my religion). The Apostle of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) said “he has told you the truth. ‘Umar said “Let me cut off this hypocrite’s head. The Apostle of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) said “He was present at Badr and what do you know, perhaps Allah might look with pity on those who were present at Badr? And said “Do what you wish, I have forgiven you”.