تشریح:
1۔ مطلب یہ ہے کہ ہم ان کے اظہار ایمان کو نہیں جھٹلاتے، بلکہ ان کے معاملے کو اللہ کے سپرد کر دیتے ہیں۔ اگر وہ مخلص ہوں گے تو عند اللہ معزز اور اس کے برعکس ہوں گے۔ تو عند اللہ مجرم۔ لیکن ہم اس کے ساتھ اس کے ظاہر کے مطابق معاملہ کریں گے۔ اس سے یہ اصول معلوم ہوا کہ اسلامی مملکت عوام کے ظاہری حالات کے مطابق فیصلہ کرنے کی پابند ہے۔ کیونکہ باطن کا علم تو صرف اللہ ہی کو ہے۔ اور وہی قیامت کے دن اس کے مطابق فیصلہ فرمائے گا۔ اسی لئے کہا جاتا ہے۔ (نحن نحكم بالظواهر والله يتولی السرائر) ہم صرف ظاہری حالات پر حکم لگا سکتے ہیں۔ جبکہ پوشیدہ معاملات اللہ کے سپرد ہیں۔
2۔ کافر جاسوس کے قتل کر دینے پر اتفاق ہے۔ مگر مسلمان کو قتل نہیں کرنا چاہیے۔ خواہ منافق ہی ہو۔
3۔ باب میں ذمی جاسوس کا ذکر ہے۔ جب کہ حدیث میں حضرت فرات کے ذمی ہونے کی صراحت نہیں ہے۔ لیکن یہی روایت منتقی الاخیار میں مسند احمد کے حوالے سے ہے۔ اس میں صراحت ہے کہ نبی کریمﷺ نے ان کے قتل کا حکم دیا۔ وکان ذمیاً اور وہ ذمی تھے۔ ان الفاظ سے باب کے ساتھ مناسبت بھی واضح ہوجاتی ہے۔ اور ذمی جاسوس کے قتل کرنے جواز بھی (عون المعبود)
4۔ فرات بن حیان نے بعد میں اسلام قبول کرلیا۔ اور بہت عمدہ مسلمان ثابت ہوئے۔ ہجرت کی اوررسول اللہ ﷺ کے حین حیات آپ کی معیت میں جہاد کرتے رہے۔ بعد ازاں کوفہ میں سکونت اختیار کرلی تھی۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح، وصححه ابن الجارود والحاكم والذهبي) . إسناده: حدثنا محمد بن بشار: حدثني محمد بن مُحَبَّب أبو هَمام الدلالُ: ثنا سفيان بن سعيد عن أبي إسحاق عن حارثة بن مُضَربٍ عن فُراتِ بن حيان.
قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله ثقات رجال الشيخين؛ غير حارثة، وهو ثقة. ومثله ابن مُحَبَّب- على وزن محمد- ثقة بلا خلاف. ووهم المنذري، فقال في مختصره : لا يحتج بحديثه ! ولكنه أفاد أنه تابعه بشر بن السري وعباد بن موسى الأزرق العباداني، وكلاهما ثقة. والمتابعة الأولى: عند أحمد (4/336) . والحديث مخرج في الصحيحة (1701) ، فأغنى عن الإعادة