Abu-Daud:
Jihad (Kitab Al-Jihad)
(Chapter: Regarding A Man Being Taken Captive)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2660.
سیدنا ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے دس افراد کو بطور جاسوس روانہ کیا اور ان پر سیدنا عاصم بن ثابت کو امیر مقرر کیا، تو قبیلہ ہذیل کے تقریباً ایک سو تیر انداز ان کے مقابلے میں آ گئے۔ جب عاصم ؓ نے ان کو دیکھا تو یہ سب ایک ٹیلے کی اوٹ میں ہو گئے (مگر ان کافروں نے ان کو گھیر لیا) اور بولے: ہتھیار پھینک دو اور اپنے آپ کو ہمارے حوالے کر دو، ہم تم سے یہ عہد کرتے ہیں اور پختہ وعدہ ہے کہ تم میں سے کسی کو قتل نہ کریں گے۔ عاصم ؓ نے کہا: میں کسی کافر کے عہد میں نہیں آتا۔ تو انہوں نے ان مجاہدین کو تیر مارے اور عاصم سمیت سات افراد کو قتل کر دیا، اور تین افراد نے ان کافروں کا عہد و میثاق قبول کر لیا۔ یہ تھے خبیب اور زید بن وثنہ اور ایک اور آدمی (اس کا نام عبداللہ بن طارق بلوی آیا ہے۔) جب ان کافروں نے ان کو پکڑ لیا تو انہوں نے ان کی کمانوں کی تانتیں کھولیں اور ان سے ان کو باندھ دیا۔ تیسرا آدمی کہنے لگا: یہ پہلا دھوکہ ہے، اللہ کی قسم! میں تمہارے ساتھ نہیں چلوں گا۔ میرے لیے میرے (قتل ہو جانے والے) ساتھی ہی نمونہ ہیں۔ انہوں نے اس کو گھسیٹا مگر اس نے ان کے ساتھ چلنے سے انکار کر دیا تو انہوں نے اس کو قتل کر دیا۔ (اور خبیب اور زید کو انہوں نے مکہ لے جا کر بیچ دیا۔ سیدنا خبیب کو حارث بن عامر کے بیٹوں نے خرید لیا) چنانچہ خبیب ؓ (ان کے) قیدی ہو گئے حتیٰ کہ انہوں نے ان کو قتل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ (متعینہ تاریخ سے پہلے) خبیب نے ان سے استرا طلب کیا تاکہ زیر ناف بال صاف کر سکیں، جب وہ ان کو قتل کرنے کے لیے چلے، تو خبیب ؓ نے کہا: مجھے مہلت دو میں دو رکعت ادا کر لوں۔ پھر کہا: قسم اللہ کی! اگر مجھے یہ شبہ نہ ہوتا کہ تم لوگ سمجھو گے کہ ڈر کے مارے نماز پڑھتا ہو تو میں اور زیادہ پڑھتا۔
تشریح:
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين. وقد أخرجه البخاري بأسانيد أحدها إسناد المؤلف، ومتنه أتم مما هنا) . إسناده: حدثنا موسى بن إسماعيل: ثنا إبراهيم- يعني: ابن سعد-: أخبرنا - ابن شهاب: أخبرني عمرو بن جارية الثقَفِيُ حليف بني زُهْرَةَ عن أبي هريرة. حدثنا ابن عوف: ثنا أبو اليمان: أخبرنا شعيب عن الزهري: أخبرني عمرو ابن أبي سفيان بن أسِيدٍ بن جارية الثقفي- وهو حليف لبني زهرة، وكان من أصحاب أبي هريرة-... فذكر الحديث
قلت ، وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين من الوجهين عن الزهري؛ وقد أخرجه البخاري كذلك كما يأتي. والحديث أخرجه البخاري (5/11) من الوجه الأول. و (4/28- 30) من الوجه الآخر... أتم منه. وتابعه على الوجه الأول: الطيالسي، فقال في مسنده (2597) : حدثنا إبراهيم بن سعد... به. ومن طريقه وطريق المؤلف: أخرجه البيهقي (9/145- 146) . وأخرجه أحمد (2/294) من طريق أخرى عن إبراهيم... به. وتابعه معمر عن الزهري... به: أخرجه البخاري (5/40- 41) ، وأحمد (2/310) عن عبد الرزاق، وهذا في المصنف (9730) .
(جهاد‘ جهد) سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں ’’ محنت و مشقت ۔‘‘ اس معنی کے اعتبار سے دین کے لیے کی جانے والی تمام مساعی (جانی ‘مالی ‘قولی‘فکری‘فعلی اور تحریری سبھی ) جہاد میں شامل ہیں تا ہم اصطلاحاً و عرفا نفس امّارہ کا مقابلہ ’’مجاہدہ‘‘ اور دشمن اور فسادیوں کے ساتھ مسلح آویزش کو ’’جہاد‘‘ کہتے ہیں مکی دور میں کفار کے ساتھ (فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِيلَ)
اعراض و درگزر سے کام لو۔‘‘کا حکم تھا‘ مگر مدینہ ہجرت کرجانے کے بعد مسلمانوں کو مسلح مقابلے کی اجازت دے دی گئی اور فرمایا گیا(أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ)(الحج:39)’’ان لوگوں کو جن سے کافر لڑتے ہیں(مسلح قتال کی) اجازت دی جاتی ہے اس لیے کہ یہ مظلوم ہیں اور اللہ ان کی مدد پر خوب قدرت رکھتا ہے۔‘‘بعد ازاں اس عمل کو امت پر من حیث المجموع واجب کر دیا گیا اور فرمایا گیا(كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَكُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ)(البقرۃ26)’’(کفار سے) قتال کرنا تم پرفرض کر دیا گیا ہے اور ممکن ہے کہ تمہیں ایک چیزیں بری لگے اور وہ (حقیقت ) تمہارےلیے بہتر ہو اور ممکن ہے کہ کوئی چیز تمہیں بھلی لگے اور وہ (حقیقت میں) تمہارے لیے بری ہو اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔‘‘ اور عام حالات میں جہاد فرض کفایہ ہے۔
جہاد کی فضیلت کی بابت حضرت ابوذر سے مروی ہے ‘ وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبئ کریمﷺ سے پوچھا:اے اللہ کے رسول! کون سا عمل سب سے اچھا اور افضل ہے ؟ تو آپ نے فرمایا :’’اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا اور اس کے بعد جہاد فی سبیل اللہ۔‘‘(صحيح البخارى .العتق . باب . أي الرقاب أفضل؟حديث:2518)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایمان لانے کے بعد افضل ترین عمل ‘جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ ایک دوسری روایت میں رسول اللہ سے پوچھا گیا‘ کون سے اعمال سب سے زیادہ فضیلت والے ہیں ؟یا کون سے اعمال بہتر ہیں؟ آپ نے فرمایا :’’جہاد (نیک) اعمال کی کوہان ہے ۔‘‘ (جامع ترمذی ‘فضائل الجہاد‘حدیث:1658) دین اسلام میں جہاد کی بہت زیادہ اہمیت و فضیلت بیان ہوئی ہے۔آپ ﷺ نے فرمایا ایمان لانے کے بعد جہاد فی سبیل اللہ بلند ترین درجات کے حصول کا اور رنج و غم اور مصائب و مشکلات سے نجات حاصل کرنے کا ذریعہ ہے ‘ اسی طرح حدیث سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کے بعد ہجرت اور جہاد کرنے والے کے لیے اللہ تعالیٰ تین گھر بناتا ہے ‘ایک گھر جنت کے گرد ‘ایک جنت کے وسط میں اور ایک جنت کے بالا خانوں میں۔(سنن النسائی‘ الجہاد ‘ حدیث :3135) جہاد کی اہمیت کے متعلق کے نبی ﷺ نے فرمایا جس شخص نے کبھی جہاد میں حصہ لیا نہ کبھی اس کے دل میں جہاد کی خواہش پیدا ہوئی ‘وہ نفاق کے ایک درجہ میں مرے گا۔‘‘ صحیح مسلم‘الامارۃ‘ حدیث1910) اسی طرح آپ نے فرمایا:’’ جس شخص نے کبھی جہاد میں حصہ نہ لیا اور نہ کبھی مجاہد کی مدد ہی کی ‘ اللہ تعالیٰ اسے دنیا ہی میں سخت مصیبت میں مبتلا فرما دےگا۔‘‘(سنن ابی داود ‘الجہاد ‘ حدیث 1503) قرآن و حدیث میں جہاد کی تعلیم اور تر غیب کو سامنے رکھتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ پر نظر ڈالی جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے یہ الفاظ کہ میں چاہتا ہوں کہ اللہ کی راہ میں قتل کیا جاؤں ‘ پھر زندہ کیا جاؤں ‘ پھر قتل کیا جاؤں ‘پھر زندہ کیا جاؤں ‘ پھر قتل کیا جاؤں ‘ پھر زندہ کیا جاؤں ۔صرف امت کو جہاد کی ترغیب اور فضیلت ظاہر کرنے کے لیے نہ تھے بلکہ آپ دل کی گہرائیوں سے یہ خواہش رکھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی جان کا نذرانہ پیش کریں اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں میں بھی جہاد فی سبیل اللہ کی تڑپ پیدا کرے‘ تا کہ اس گئے گزرے دور میں بھی دین اسلام پوری دنیا میں پھیل جائے ‘ ہر طرف دین اسلام ہی کا بو ل بالا ہو اور دین با قی ادیان پر غالب آ جائے۔
سیدنا ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے دس افراد کو بطور جاسوس روانہ کیا اور ان پر سیدنا عاصم بن ثابت کو امیر مقرر کیا، تو قبیلہ ہذیل کے تقریباً ایک سو تیر انداز ان کے مقابلے میں آ گئے۔ جب عاصم ؓ نے ان کو دیکھا تو یہ سب ایک ٹیلے کی اوٹ میں ہو گئے (مگر ان کافروں نے ان کو گھیر لیا) اور بولے: ہتھیار پھینک دو اور اپنے آپ کو ہمارے حوالے کر دو، ہم تم سے یہ عہد کرتے ہیں اور پختہ وعدہ ہے کہ تم میں سے کسی کو قتل نہ کریں گے۔ عاصم ؓ نے کہا: میں کسی کافر کے عہد میں نہیں آتا۔ تو انہوں نے ان مجاہدین کو تیر مارے اور عاصم سمیت سات افراد کو قتل کر دیا، اور تین افراد نے ان کافروں کا عہد و میثاق قبول کر لیا۔ یہ تھے خبیب اور زید بن وثنہ اور ایک اور آدمی (اس کا نام عبداللہ بن طارق بلوی آیا ہے۔) جب ان کافروں نے ان کو پکڑ لیا تو انہوں نے ان کی کمانوں کی تانتیں کھولیں اور ان سے ان کو باندھ دیا۔ تیسرا آدمی کہنے لگا: یہ پہلا دھوکہ ہے، اللہ کی قسم! میں تمہارے ساتھ نہیں چلوں گا۔ میرے لیے میرے (قتل ہو جانے والے) ساتھی ہی نمونہ ہیں۔ انہوں نے اس کو گھسیٹا مگر اس نے ان کے ساتھ چلنے سے انکار کر دیا تو انہوں نے اس کو قتل کر دیا۔ (اور خبیب اور زید کو انہوں نے مکہ لے جا کر بیچ دیا۔ سیدنا خبیب کو حارث بن عامر کے بیٹوں نے خرید لیا) چنانچہ خبیب ؓ (ان کے) قیدی ہو گئے حتیٰ کہ انہوں نے ان کو قتل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ (متعینہ تاریخ سے پہلے) خبیب نے ان سے استرا طلب کیا تاکہ زیر ناف بال صاف کر سکیں، جب وہ ان کو قتل کرنے کے لیے چلے، تو خبیب ؓ نے کہا: مجھے مہلت دو میں دو رکعت ادا کر لوں۔ پھر کہا: قسم اللہ کی! اگر مجھے یہ شبہ نہ ہوتا کہ تم لوگ سمجھو گے کہ ڈر کے مارے نماز پڑھتا ہو تو میں اور زیادہ پڑھتا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے دس آدمیوں کو جاسوسی کے لیے بھیجا، اور ان کا امیر عاصم بن ثابت ؓ کو بنایا، ان سے لڑنے کے لیے ہذیل کے تقریباً سو تیر انداز نکلے، جب عاصم ؓ نے ان کے آنے کو محسوس کیا تو ان لوگوں نے ایک ٹیلے کی آڑ میں پناہ لی، کافروں نے ان سے کہا: اترو اور اپنے آپ کو سونپ دو، ہم تم سے عہد کرتے ہیں کہ تم میں سے کسی کو قتل نہ کریں گے، عاصم ؓ نے کہا: رہی میری بات تو میں کافر کی امان میں اترنا پسند نہیں کرتا، اس پر کافروں نے انہیں تیروں سے مارا اور ان کے سات ساتھیوں کو قتل کر دیا جن میں عاصم ؓ بھی تھے اور تین آدمی کافروں کے عہد اور اقرار پر اعتبار کر کے اتر آئے، ان میں ایک خبیب، دوسرے زید بن دثنہ، اور تیسرے ایک اور آدمی تھے ؓ، جب یہ لوگ کفار کی گرفت میں آ گئے تو کفار نے اپنی کمانوں کے تانت کھول کر ان کو باندھا، تیسرے شخص نے کہا: اللہ کی قسم! یہ پہلی بدعہدی ہے، اللہ کی قسم! میں تمہارے ساتھ نہیں جاؤں گا، میرے لیے میرے ان ساتھیوں کی زندگی نمونہ ہے، کافروں نے ان کو کھینچا، انہوں نے ساتھ چلنے سے انکار کیا، تو انہیں قتل کر دیا، اور خبیب ؓ ان کے ہاتھ میں قیدی ہی رہے، یہاں تک کہ انہوں نے خبیب کے بھی قتل کرنے کا ارادہ کر لیا، تو آپ نے زیر ناف کے بال مونڈنے کے لیے استرا مانگا۱؎، پھر جب وہ انہیں قتل کرنے کے لیے لے کر چلے تو خبیب ؓ نے ان سے کہا: مجھے چھوڑو میں دو رکعت نماز پڑھ لوں، پھر کہا: اللہ کی قسم! اگر تم یہ گمان نہ کرتے کہ مجھے مارے جانے کے خوف سے گھبراہٹ ہے تو میں اور دیر تک پڑھتا۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: سولی دیتے وقت بے پردہ ہونے کا خطرہ تھا، اس لئے خبیب رضی اللہ عنہ نے استرا طلب کیا تاکہ زیر ناف صاف کر لیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Hurairah (RA) said “The Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) sent ten persons (on an expedition) and appointed ‘Asim bin Thabit their commander. About one hundred men of Hudhail who were archers came out to (attack) them. When ‘Asim felt their presence, they took cover in a hillock. They aid to them “Come down and surrender and we make a covenant and pact with you that we shall not kill any of you”. ‘Asim said “I do not come to the protection of a disbeliever. Then they shot them with arrows and killed ‘Asim in a company of seven persons. The other three persons came down to their covenant and pact. They were Khubaib, Zaid bin Al Lathnah and another man. When they overpowered them, they untied their bow strings and tied them with them”. The third person said “This is the first treachery. I swear by Allah, I shall not accompany you. In them (my companions) is an example for me. They pulled him, but he refused to accompany them, so they killed him. Khubaib remained their captive until they agreed to kill him. He asked for a razor to shave his pubes. When they brought him outside to kill him. Khubaib said to them “Let me offer two rak’ahs of prayer”. He then said “I swear by Allah, if you did not think that I did this out of fear. I would have increased (the number of rak’ahs).