باب: شوہر اپنی اہلیہ سے (ایام حیض میں) جماع کے علاوہ سب کچھ کرسکتا ہے
)
Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: A Person Has Relations With Her Other Than Intercourse)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
267.
ام المؤمنین سیدہ میمونہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ اپنی ازواج میں سے کسی ایک کے ساتھ لیٹ جایا کرتے تھے جبکہ وہ حیض سے ہوتی اور اس پر آدھی رانوں تک یا گھٹنوں تک کپڑا ہوتا اور وہ اس کپڑے سے اپنے (زیریں) جسم ڈھانپے ہوتی تھی۔
تشریح:
زوجین کے یہ مسائل کسی عام عالم کے لیے اس انداز میں بیان کرنا بہت مشکل ہے مگر چونکہ یہ دین طہارت اور اللہ کی حدود کے مسائل ہیں اسی لیے ازواج مطہرات نے بھی بیان فرمائے ہیں ورنہ ان کی حیاوشرم بے مثل و بےمثال تھی (رضی اللہ عنہن) اور آپ ﷺ کی کثرت ازدواج کی حکمت بھی یہی تھی کہ زوجین کے مابین کے مسائل شرعی لحاظ سے امت کے سامنے آجائیں۔ مسئلہ: ایام حیض میں بوس وکنار یقیناً جائز ہے مگر دیکھنا یہ ہے کہ ایسے جوڑے کو اپنے اوپر کس حد تک ضبط ہے۔ اگر اندیشہ ہو کہ ضبط قائم نہ رہے گا تو از حد احتیاط کرنی چاہیے کہ کہیں حرام میں واقع نہ ہو جائیں۔ (نیز دیکھیے حدیث: 258)
الحکم التفصیلی:
(قلت: حديث صحيح، وكذا قال أبو الحسن السِّنْدِي، وصححه ابن حبان (1362) وقوّاه ابن القيم وحسنه المنذري) . إسناده: حدثنا يزيد بن خالد بن عبد الله بن مَوْهَب الرَّمْلي: ثتي الليث بن سعد عن ابن شهاب عن حبيب مولى عروة عن نُدْبَة مولاة ميمونة عن ميمونة. قلت: وهذا إسناد رجاله كلهم ثقات؛ غير ندبة- بضم أولها؛ ويقال: بفتحها، وسكون الدال بعدها موحدة، ويقال: بموحدة أولها مع التصغير- مقبولة، ويقال: إن لها صحبة؛ كذا في التقريب . وفي التهذيب : ذكرها ابن حبان في الثقات ، وذكرها ابن منده وأبو نعيم في الصحابة ... . وأما ابن حزم؛ فقال في المحلى (2/179) : وهي مجهولة لا تعرفط . قلت: لكن الحديث له طريق آخر وشواهد؛ فهو بها صحيح بلا شك. ولذلك قال ابن القيم رحمه الله- راداً على ابن حزم-: فأما تعليله حديث ندبة بكونها مجهولة؛ فإنها مدنية روت عن مولاتها ميمونة، وروى عنها حبيب، ولم يعلم أحد جرحها، والراوي إذا كانت هذه حاله؛ إنما يخشى من تفرده بما لا يتابع عليه، فأما إذا روى ما رواه الناس، وكانت لروايته شواهد ومتابعات؛ فإن أئمة الحديث يقبلون حديثاً مثل هذا، ولا يردونه ولا يعللونه بالجهالة، فإذا صاروا إلى معارضة ما رواه ب ا هو أثبت منه وأشهر؛ عللوه بمثل هذه الجهالة وبالتفرد. ومن تأمل كلام الأئمة رأى فيه ذلك، فيظن أن ذلك تناقض منهم، وهو مَحْضُ العلم والذوق والوزن المستقيم. فيجب التنبه لهذه النكتة؛ فكثيراً ما تمر بك في الأحاديث، ويقع الغلط بسببها . قلت: وهذه قاعدة مهمة، نبه عليها الحافظ ابن القيم رحمه الله. وعليها جرينا ونجري في كتابنا وفي الكتب الأخرى إن شاء الله تعالى، وعلى ذلك أئمة الحديث كما قال ابن القيم؛ ومنهم خاتمة الحفاظ المحققين: الحافظ ابن حجر. وأقرب مثال منه على ذلك قوله في (ندبة) هذه: إنها مقبولة ؛ أي: حيث تتابع؛ وإلا فهي لينة الحديث، كما قد نص عليه في المقدمة والحديث أخرجه النسائي (1/54- 55 و 67) ، والدارمي (1/246) ، والبيهقي (3/311) ، وأحمد (6/332 و 335- 336) من طرق عن الليث... به. وكذا أخرجه الطحاوي (2/21) . وقد تابعه شعيب بن أبي حمزة- عند البيهقي-، ومحمد بن إسحاق- عند أحمد- كلاهما عن الزهري... به نحوه. وتابعهم يونس: عند الطحاوي. وأما الطريق الآخر؛ فهو عند مسلم (1/167) ، وأبي عوانة (1/359- 310) ، والدارمي (1/244) ، وأحمد (6/335) عن عبد الله بن شداد عن ميمونة قالت: كان رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّ َ يباشر نساءه فوق الإزار وهن حُيَّضٌ . وأخرجه البخاري أيضا (1/321) ، والمصنف نحوه. ويأتي برقم (1883) . وله عنها طريق ثالث: عند مسلم وأبي عوانة. ومن شواهده: ما أخرجه ابن ماجه (1/219) من طريق ابن إسحاق عن يزيد ابن أبي حبيب عن سويد بن قيس عن معاوية بن حُدَيْج عن معاوية بن أبي سفيان عن أم حبيبة زوج النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قال: سالتها: كيف كنتِ تصنعين مع رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ في الحيضة؟ قالت: كانت إحدانا في فورها- أولَ ما تحيض- تشد عليها إزاراً إلى أنصاف فخذيها، ثم تضطجع مع رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. وهذا إسناد حسن، لولا عنعنة ابن إسحاق. ولكنه صحيح مَعْنىً؛ بحديث الباب، كما قال السندي. ومن شواهده: أحاديث عائشة في الباب.
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
ام المؤمنین سیدہ میمونہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ اپنی ازواج میں سے کسی ایک کے ساتھ لیٹ جایا کرتے تھے جبکہ وہ حیض سے ہوتی اور اس پر آدھی رانوں تک یا گھٹنوں تک کپڑا ہوتا اور وہ اس کپڑے سے اپنے (زیریں) جسم ڈھانپے ہوتی تھی۔
حدیث حاشیہ:
زوجین کے یہ مسائل کسی عام عالم کے لیے اس انداز میں بیان کرنا بہت مشکل ہے مگر چونکہ یہ دین طہارت اور اللہ کی حدود کے مسائل ہیں اسی لیے ازواج مطہرات نے بھی بیان فرمائے ہیں ورنہ ان کی حیاوشرم بے مثل و بےمثال تھی (رضی اللہ عنہن) اور آپ ﷺ کی کثرت ازدواج کی حکمت بھی یہی تھی کہ زوجین کے مابین کے مسائل شرعی لحاظ سے امت کے سامنے آجائیں۔ مسئلہ: ایام حیض میں بوس وکنار یقیناً جائز ہے مگر دیکھنا یہ ہے کہ ایسے جوڑے کو اپنے اوپر کس حد تک ضبط ہے۔ اگر اندیشہ ہو کہ ضبط قائم نہ رہے گا تو از حد احتیاط کرنی چاہیے کہ کہیں حرام میں واقع نہ ہو جائیں۔ (نیز دیکھیے حدیث: 258)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام المؤمنین میمونہ ؓ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنی بیویوں سے حیض کی حالت میں مباشرت (اختلاط و مساس) کرتے تھے جب ان کے اوپر نصف رانوں تک یا دونوں گھٹنوں تک تہبند ہوتا جس سے وہ آڑ کیے ہوتیں۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Maimunah (RA) said: The Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) would contact and embrace any of his wives while she was menstruating. She would wear the wrapper up to half the the thighs or cover her knees with it.