باب: قیدی کو اسلام کی دعوت دیے بغیر قتل کر ڈالنے کا مسئلہ
)
Abu-Daud:
Jihad (Kitab Al-Jihad)
(Chapter: Killing A Captive Without Inviting Him To Islam)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2683.
سیدنا سعد بن ابی وقاص ؓ کا بیان ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہ ﷺ نے چار مردوں اور دو عورتوں کے سوا تمام لوگوں کو امان دے دی تھی۔ راوی نے ان کے نام گنوائے۔ اور ابن ابی سرح بھی تھے۔ اور حدیث بیان کی۔ ابن ابی سرح سیدنا عثمان بن عفان ؓ کے ہاں چھپ گئے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے جب لوگوں کو بیعت کے لیے بلایا، تو عثمان ؓ ان (ابن ابی سرح) کو لے آئے اور رسول اللہ ﷺ کے پاس کھڑا کر دیا اور عرض کیا: اے اﷲ کے نبی! عبداللہ کی بیعت قبول فرما لیجئیے۔ آپ ﷺ نے اپنا سر اٹھایا، ان کی طرف دیکھا، تین بار اس طرح ہوا، آپ ﷺ نے ہر بار اس کا انکار فرمایا۔ تیسری بار کے بعد آپ ﷺ نے ان سے بیعت فرما لی۔ پھر اپنے صحابہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ”تم میں کوئی سمجھدار آدمی نہ تھا، جو اس کی طرف اٹھتا، جب دیکھا کہ میں نے اس کی بیعت سے ہاتھ کھینچ لیا ہے تو اس کو قتل کر دیتا؟“ انہوں نے کہا: اے اﷲ کے رسول! ہمیں معلوم نہ تھا کہ آپ کے جی میں کیا ہے؟ آپ ﷺ اپنی آنکھ سے ہمیں اشارہ فرما دیتے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”نبی کو لائق نہیں کہ اس کی آنکھ خائن ہو۔“ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں عبداللہ (عبداللہ بن ابی سرح) سیدنا عثمان ؓ کے رضائی بھائی تھے۔ اور ولید بن عقبہ سیدنا عثمان ؓ کے ماں کی طرف سے بھائی تھے۔ انہوں نے جب شراب پی تھی تو سیدنا عثمان ؓ نے ان کو حد لگائی تھی۔
تشریح:
1۔ چونکہ یہ لوگ جنگی مجرم تھے۔ اور اسلام ہی کی شہرت ہی ان کے لئے اسلام کی دعوت تھی۔ اس لئے ان کے بارے میں حکم تھا۔ کہ جہاں ملیں ان کو قتل کردیا جائے۔ خواہ کعبہ کے پردوں کے ساتھ ہی کیوں نہ چمٹے ہوئے ہوں۔ اور یہ کئی افراد تھے۔ عکرمہ بن ابی جہل۔ عبد اللہ بن خطل۔ مقیس بن صبابہ۔ عبد اللہ بن سعد بن ابی سرح۔ (ان کے علاوہ اور بھی کئی لوگ تھے) اور عورتوں میں ابن خطل۔ یا مقیس بن صبابہ کی لونڈیاں قریبہ اور فرتنی۔ (علاوہ ازیں اور بھی عورتوں کے نام آتے ہیں) عبد اللہ بن خطل کو کعبہ کے پردوں کے ساتھ چمٹا ہوا پایا گیا۔ اور وہیں قتل کر دیا گیا۔ مقیس بن صبابہ کو لوگوں نے بازار میں جالیا۔ اور قتل ہوا۔ اور عکرمہ بھاگ کرکشتی میں سوار ہوگئے۔ اور قتل ہونے سے بچ گئے۔ پھر بعد میں حاضر خدمت ہوئے اور اسلام لے آئے۔ جو قبول کرلیا گیا۔ اور بڑے مخلص مسلمان ثابت ہوئے۔ عبد اللہ بن ابی سرح کے متعلق آتا ہے۔ یہ ابتداء میں ر سول اللہ ﷺ کے کاتب تھے۔ مگر مرتد ہوگئے۔ ان پر شدت اور سختی کی وجہ یہی تھی۔ بعد میں انہوں نے بھی دوبارہ اسلام قبول کر لیا گیا تھا۔ عورتوں میں یہ لونڈیاں رسول اللہ ﷺ کی ہجو کیا (مذمت میں شعرپڑھا) کرتی تھیں۔ قریبہ قتل کی گئی۔ جب کہ فرتنی بھاگ نکلی اور بعدمیں اسلام قبول کیا۔ 2۔ آنکھ سے چھپا اشارہ کرنا آنکھ کی خیانت مجرمانہ ہے۔ جو نبی کے کئے خصوصاً اور مومن کے لئے عموما درست نہیں۔ نیزدیکھئے: (سنن أبي داود، الجنائز، حدیث: 3194)
(جهاد‘ جهد) سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں ’’ محنت و مشقت ۔‘‘ اس معنی کے اعتبار سے دین کے لیے کی جانے والی تمام مساعی (جانی ‘مالی ‘قولی‘فکری‘فعلی اور تحریری سبھی ) جہاد میں شامل ہیں تا ہم اصطلاحاً و عرفا نفس امّارہ کا مقابلہ ’’مجاہدہ‘‘ اور دشمن اور فسادیوں کے ساتھ مسلح آویزش کو ’’جہاد‘‘ کہتے ہیں مکی دور میں کفار کے ساتھ (فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِيلَ)
اعراض و درگزر سے کام لو۔‘‘کا حکم تھا‘ مگر مدینہ ہجرت کرجانے کے بعد مسلمانوں کو مسلح مقابلے کی اجازت دے دی گئی اور فرمایا گیا(أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ)(الحج:39)’’ان لوگوں کو جن سے کافر لڑتے ہیں(مسلح قتال کی) اجازت دی جاتی ہے اس لیے کہ یہ مظلوم ہیں اور اللہ ان کی مدد پر خوب قدرت رکھتا ہے۔‘‘بعد ازاں اس عمل کو امت پر من حیث المجموع واجب کر دیا گیا اور فرمایا گیا(كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَكُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ)(البقرۃ26)’’(کفار سے) قتال کرنا تم پرفرض کر دیا گیا ہے اور ممکن ہے کہ تمہیں ایک چیزیں بری لگے اور وہ (حقیقت ) تمہارےلیے بہتر ہو اور ممکن ہے کہ کوئی چیز تمہیں بھلی لگے اور وہ (حقیقت میں) تمہارے لیے بری ہو اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔‘‘ اور عام حالات میں جہاد فرض کفایہ ہے۔
جہاد کی فضیلت کی بابت حضرت ابوذر سے مروی ہے ‘ وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبئ کریمﷺ سے پوچھا:اے اللہ کے رسول! کون سا عمل سب سے اچھا اور افضل ہے ؟ تو آپ نے فرمایا :’’اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا اور اس کے بعد جہاد فی سبیل اللہ۔‘‘(صحيح البخارى .العتق . باب . أي الرقاب أفضل؟حديث:2518)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایمان لانے کے بعد افضل ترین عمل ‘جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ ایک دوسری روایت میں رسول اللہ سے پوچھا گیا‘ کون سے اعمال سب سے زیادہ فضیلت والے ہیں ؟یا کون سے اعمال بہتر ہیں؟ آپ نے فرمایا :’’جہاد (نیک) اعمال کی کوہان ہے ۔‘‘ (جامع ترمذی ‘فضائل الجہاد‘حدیث:1658) دین اسلام میں جہاد کی بہت زیادہ اہمیت و فضیلت بیان ہوئی ہے۔آپ ﷺ نے فرمایا ایمان لانے کے بعد جہاد فی سبیل اللہ بلند ترین درجات کے حصول کا اور رنج و غم اور مصائب و مشکلات سے نجات حاصل کرنے کا ذریعہ ہے ‘ اسی طرح حدیث سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کے بعد ہجرت اور جہاد کرنے والے کے لیے اللہ تعالیٰ تین گھر بناتا ہے ‘ایک گھر جنت کے گرد ‘ایک جنت کے وسط میں اور ایک جنت کے بالا خانوں میں۔(سنن النسائی‘ الجہاد ‘ حدیث :3135) جہاد کی اہمیت کے متعلق کے نبی ﷺ نے فرمایا جس شخص نے کبھی جہاد میں حصہ لیا نہ کبھی اس کے دل میں جہاد کی خواہش پیدا ہوئی ‘وہ نفاق کے ایک درجہ میں مرے گا۔‘‘ صحیح مسلم‘الامارۃ‘ حدیث1910) اسی طرح آپ نے فرمایا:’’ جس شخص نے کبھی جہاد میں حصہ نہ لیا اور نہ کبھی مجاہد کی مدد ہی کی ‘ اللہ تعالیٰ اسے دنیا ہی میں سخت مصیبت میں مبتلا فرما دےگا۔‘‘(سنن ابی داود ‘الجہاد ‘ حدیث 1503) قرآن و حدیث میں جہاد کی تعلیم اور تر غیب کو سامنے رکھتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ پر نظر ڈالی جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے یہ الفاظ کہ میں چاہتا ہوں کہ اللہ کی راہ میں قتل کیا جاؤں ‘ پھر زندہ کیا جاؤں ‘ پھر قتل کیا جاؤں ‘پھر زندہ کیا جاؤں ‘ پھر قتل کیا جاؤں ‘ پھر زندہ کیا جاؤں ۔صرف امت کو جہاد کی ترغیب اور فضیلت ظاہر کرنے کے لیے نہ تھے بلکہ آپ دل کی گہرائیوں سے یہ خواہش رکھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی جان کا نذرانہ پیش کریں اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں میں بھی جہاد فی سبیل اللہ کی تڑپ پیدا کرے‘ تا کہ اس گئے گزرے دور میں بھی دین اسلام پوری دنیا میں پھیل جائے ‘ ہر طرف دین اسلام ہی کا بو ل بالا ہو اور دین با قی ادیان پر غالب آ جائے۔
سیدنا سعد بن ابی وقاص ؓ کا بیان ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہ ﷺ نے چار مردوں اور دو عورتوں کے سوا تمام لوگوں کو امان دے دی تھی۔ راوی نے ان کے نام گنوائے۔ اور ابن ابی سرح بھی تھے۔ اور حدیث بیان کی۔ ابن ابی سرح سیدنا عثمان بن عفان ؓ کے ہاں چھپ گئے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے جب لوگوں کو بیعت کے لیے بلایا، تو عثمان ؓ ان (ابن ابی سرح) کو لے آئے اور رسول اللہ ﷺ کے پاس کھڑا کر دیا اور عرض کیا: اے اﷲ کے نبی! عبداللہ کی بیعت قبول فرما لیجئیے۔ آپ ﷺ نے اپنا سر اٹھایا، ان کی طرف دیکھا، تین بار اس طرح ہوا، آپ ﷺ نے ہر بار اس کا انکار فرمایا۔ تیسری بار کے بعد آپ ﷺ نے ان سے بیعت فرما لی۔ پھر اپنے صحابہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ”تم میں کوئی سمجھدار آدمی نہ تھا، جو اس کی طرف اٹھتا، جب دیکھا کہ میں نے اس کی بیعت سے ہاتھ کھینچ لیا ہے تو اس کو قتل کر دیتا؟“ انہوں نے کہا: اے اﷲ کے رسول! ہمیں معلوم نہ تھا کہ آپ کے جی میں کیا ہے؟ آپ ﷺ اپنی آنکھ سے ہمیں اشارہ فرما دیتے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”نبی کو لائق نہیں کہ اس کی آنکھ خائن ہو۔“ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں عبداللہ (عبداللہ بن ابی سرح) سیدنا عثمان ؓ کے رضائی بھائی تھے۔ اور ولید بن عقبہ سیدنا عثمان ؓ کے ماں کی طرف سے بھائی تھے۔ انہوں نے جب شراب پی تھی تو سیدنا عثمان ؓ نے ان کو حد لگائی تھی۔
حدیث حاشیہ:
1۔ چونکہ یہ لوگ جنگی مجرم تھے۔ اور اسلام ہی کی شہرت ہی ان کے لئے اسلام کی دعوت تھی۔ اس لئے ان کے بارے میں حکم تھا۔ کہ جہاں ملیں ان کو قتل کردیا جائے۔ خواہ کعبہ کے پردوں کے ساتھ ہی کیوں نہ چمٹے ہوئے ہوں۔ اور یہ کئی افراد تھے۔ عکرمہ بن ابی جہل۔ عبد اللہ بن خطل۔ مقیس بن صبابہ۔ عبد اللہ بن سعد بن ابی سرح۔ (ان کے علاوہ اور بھی کئی لوگ تھے) اور عورتوں میں ابن خطل۔ یا مقیس بن صبابہ کی لونڈیاں قریبہ اور فرتنی۔ (علاوہ ازیں اور بھی عورتوں کے نام آتے ہیں) عبد اللہ بن خطل کو کعبہ کے پردوں کے ساتھ چمٹا ہوا پایا گیا۔ اور وہیں قتل کر دیا گیا۔ مقیس بن صبابہ کو لوگوں نے بازار میں جالیا۔ اور قتل ہوا۔ اور عکرمہ بھاگ کرکشتی میں سوار ہوگئے۔ اور قتل ہونے سے بچ گئے۔ پھر بعد میں حاضر خدمت ہوئے اور اسلام لے آئے۔ جو قبول کرلیا گیا۔ اور بڑے مخلص مسلمان ثابت ہوئے۔ عبد اللہ بن ابی سرح کے متعلق آتا ہے۔ یہ ابتداء میں ر سول اللہ ﷺ کے کاتب تھے۔ مگر مرتد ہوگئے۔ ان پر شدت اور سختی کی وجہ یہی تھی۔ بعد میں انہوں نے بھی دوبارہ اسلام قبول کر لیا گیا تھا۔ عورتوں میں یہ لونڈیاں رسول اللہ ﷺ کی ہجو کیا (مذمت میں شعرپڑھا) کرتی تھیں۔ قریبہ قتل کی گئی۔ جب کہ فرتنی بھاگ نکلی اور بعدمیں اسلام قبول کیا۔ 2۔ آنکھ سے چھپا اشارہ کرنا آنکھ کی خیانت مجرمانہ ہے۔ جو نبی کے کئے خصوصاً اور مومن کے لئے عموما درست نہیں۔ نیزدیکھئے: (سنن أبي داود، الجنائز، حدیث: 3194)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
سعد ؓ کہتے ہیں کہ جب مکہ فتح ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے چار مردوں اور دو عورتوں کے سوا سب کو امان دے دی، انہوں نے ان کا اور ابن ابی السرح کا نام لیا، رہا ابن ابی سرح تو وہ عثمان بن عفان ؓ کے پاس چھپ گیا، پھر رسول اللہ ﷺ نے جب لوگوں کو بیعت کے لیے بلایا تو عثمان نے اسے رسول اللہ ﷺ کے سامنے لا کھڑا کیا، اور کہا: اللہ کے نبی! عبداللہ سے بیعت لیجئے، آپ ﷺ نے اپنا سر اٹھایا اور اس کی جانب دیکھا، تین بار ایسا ہی کیا، ہر بار آپ انکار کرتے رہے، تین بار کے بعد پھر اس سے بیعت لے لی، پھر صحابہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ”کیا تم میں کوئی بھی عقلمند آدمی نہیں تھا کہ جس وقت میں نے اپنا ہاتھ اس کی بیعت سے روک رکھا تھا، اٹھتا اور اسے قتل کر دیتا؟“ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہمیں آپ کے دل کا حال نہیں معلوم تھا، آپ نے ہمیں آنکھ سے اشارہ کیوں نہیں کر دیا؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”کسی نبی کے لیے یہ مناسب نہیں کہ وہ کنکھیوں سے اشارے کرے۔“ ابوداؤد کہتے ہیں: عبداللہ عثمان کا رضاعی بھائی تھا اور ولید بن عقبہ عثمان کا اخیافی بھائی تھا، اس نے شراب پی تو عثمان ؓ نے اس پر حد لگائی۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Sa'd: On the day when Makkah was conquered, the Apostle of Allah (ﷺ) gave protection to the People except four men and two women and he named them. Ibn Abu Sarh was one of them. He then narrated the tradition. He said: Ibn Abu Sarh hid himself with 'Uthman (RA) ibn 'Affan. When the Apostle of Allah (ﷺ) called the people to take the oath of allegiance, he brought him and made him stand before the Apostle of Allah (ﷺ). He said: Apostle of Allah (ﷺ), receive the oath of allegiance from him. He raised his head and looked at him thrice, denying him every time. After the third time he received his oath. He then turned to his Companions and said: Is not there any intelligent man among you who would stand to this (man) when he saw me desisting from receiving the oath of allegiance, and kill him? They replied: We do not know, Apostle of Allah (ﷺ) , what lies in your heart; did you not give us an hint with your eye? He said: It is not proper for a Prophet (ﷺ) to have a treacherous eye.