باب: شوہر اپنی اہلیہ سے (ایام حیض میں) جماع کے علاوہ سب کچھ کرسکتا ہے
)
Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: A Person Has Relations With Her Other Than Intercourse)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
271.
ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓ روایت کرتی ہیں، فرماتی ہیں کہ جب مجھے حیض آتا تو میں بستر سے اتر کر چٹائی پر آ جاتی پھر ہم (زوجات) رسول اللہ ﷺ کے قریب نہ ہوتی تھیں حتیٰ کہ پاک ہو جاتیں۔
تشریح:
مقصد یہ ہے کہ کبھی یہ صورت ہوتی اور کبھی اکٹھے بھی لیٹ جاتے۔ مذکورہ دونوں روایات ضعیف ہیں۔ تاہم دیگر دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ اس معاملے میں وسعت ہے اور دونوں صورتیں جائز ہیں۔ واللہ أعلم
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده ضعيف، أبو اليمان- واسمه: كثير بن يمان- مجهول الحال، والحديث منكر؛ لأنه خلاف ما صح عن عائشة قالت: كان رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يأمر إحدانا- إذا كانت حائضاً- أن تتزر، ثم يضاجعها زوجها. أخرجه الشيخان في صحيحيهما ، وهو في الكتاب الأخر من طرق عنها (رقم 261 و 263 و 264) ) . إسناده: حدثنا سعيد بن عبد الجبار: نا عبد العزيز- يعني: ابن محمد- عن أبي اليمان. قلت: وهذا إسناد ضعيف؛ من أجل أبي اليمان هذا؛ فإنه ليس بالمشهور، ولم يحدث عنه غير اثنين- أحدهما مختلف فيه-، ولم يوثقه غير ابن حبان؛ ولذلك قال الحافظ في التقريب : مستور ، يعني: مجهول الحال؛ فإنه قال في مقدمة الكتاب: الطبقة السابعة: من روى عنه أكثر من واحد، ولم يوثق؛ وإليه الإشارة بلفظ: مستور، أو: مجهول الحال . وأم ذرة أشهر منه، وهي مدنية، مولاة عائشة، روى عنها اثنان آخران- غير أبي اليمان-، ووثقها ابن حبان. وقال العجلي: تابعية مدنية ثقة . وقال الحافظ: مقبولة ؛ أي: لينة الحديث. وقال ابن حزم في المحلى (2/177) : وأما هذا الخبر؛ فإنه من طريق أبي اليمان كثير بن اليمان الرحال، وليس بالمشهور، عن أم ذرة، وهي مجهولة؛ فسقط . ورد عليه ابن القيم في التهذيب ، فقال: وما ذكره ضعيف؛ فإن أبا اليمان هذا ذكره البخاري في تاريخه ، فقال: سمع أم ذرة، روى عنه أبو هاشم عمار بن هاشم، وعبد العزيز الدراوردي. وذكره ابن حبان في الثقات وقال: يروي عن أم ذرة وعن شداد بن أبي عمرو. وكذا أم ذرة؛ فهي مدنية روت عن مولاتها عائشة وعن أم سلمة، وروى عنها محمد بن المنكدر وعائشة بنت سعد بن أبي وقاص وأبو اليمان كثير بن اليمان. فالحديث غير ساقط . قلت: والحق ما ذهب إليه ابن حزم: أن الحديث ساقط. وما ذكره في الرد عليه إنما يُخْرِج الراويين عن الجهالة العينية إلى الجهالة الحالية، وتوثيق ابن حبان وكذا العجلي فيه تساهل معروف، ولذلك ترى الحافظ لم يعرج على توثيقهما في هذين الراويين وفي غيرهما ممن سبق ذكره، ومجهول الحال لا يحتج به إلا إذا توبع، كما قرره ابن القيم نفسه في تهذيب السنن - في الحديث الذي قبل هذا-، وقد نقلنا كلامه في ذلك عند الحديث المشار إليه فما الكتاب الآخر (رقم
260) ؛ فراجعه. ولا بد من أن ننقل منه ما يناسب المقام؛ قال رحمه الله: والراوي إذا كانت هذه حاله- يعني حالة السّتْرِ- ولم يجرحه أحد؛ إنما يخشى من تفرده بما لا يتابع عليه، فأما إذا روى ما رواه الناس، وكانت لروايته شواهد ومتابعات؛ فإن أئمة الحديث يقبلون حديث مثل هذا، فإذا صاروا إلي معارضة ما رواه بما هو أثبت منه وأشهر؛ عللوه بمثل هذه الجهالة وبالتفرد . قلت: وأبو اليمان هذا قد روى هذا الحديث بإسناده عن عائشة، مخالفاً لجميع الثقات الذين رووه عنها بلفظِ ومعنىً مخالفِ لحديثه هذا، وقد ذكرنا آنفاً عقيبه حديثاً واحداً للدلالة على ذلك. فلا أدري كيف ذهل ابن القيم رحمه اللّه عن ذلك، وحاول أن يقوي الحديث مع هذه النكارة الواضحة؟! نعم؛ قد روى الإمام أحمد في المسند (6/91) حديثاً آخر عن عائشة رضي الله عنها، لو صح إسناده إليها لكان دليلاً قوياً في الجمع بين هذا الحديث والأحاديث الأخرى: وهو ما أخرجه من طريق ابن لهيعة عن يزيد بن أبي حبيب عن سويد بن قيس عن ابن قريظة الصّدفي قال: قلت لعائشة رضي الله عنها: أكان رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يضاجعك وأنت حائض؟ قالت: نعم إذا شددت علي إزاري، ولم يكن لنا- إذ ذاك- إلا فراش واحد، فلما رزقني الله عز وجل فراشاً آخر؛ اعتزلت رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. وهذا إسناد ضعيف لا يصح؛ وذلك لأن ابن لهيعة سيئ الحفظ، فلا يحتج به إذا تفرد، فكيف به إذا خالف؟! وابن قريظة الصدفيُ أورده الحافظ في فصل فيمن أُبهم، ولكن ذكر اسم أبيه أو جده أو نحو ذلك من التعجيل ؛ ولم يزد على أن ذكر ما جاء في هذا الإسناد. فهو مجهول العين.
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓ روایت کرتی ہیں، فرماتی ہیں کہ جب مجھے حیض آتا تو میں بستر سے اتر کر چٹائی پر آ جاتی پھر ہم (زوجات) رسول اللہ ﷺ کے قریب نہ ہوتی تھیں حتیٰ کہ پاک ہو جاتیں۔
حدیث حاشیہ:
مقصد یہ ہے کہ کبھی یہ صورت ہوتی اور کبھی اکٹھے بھی لیٹ جاتے۔ مذکورہ دونوں روایات ضعیف ہیں۔ تاہم دیگر دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ اس معاملے میں وسعت ہے اور دونوں صورتیں جائز ہیں۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام المؤمنین عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ میں جب حائضہ ہوتی تو بچھونے سے چٹائی پر چلی آتی، اور ہم رسول اللہ ﷺ سے قریب نہ ہوتے، جب تک کہ ہم پاک نہ ہو جاتے۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Aishah, Ummul Mu'minin (RA): When I menstruated, I left the bed and lay on the reed-mat and did not approach or come near the Apostle of Allah (ﷺ) until we were purified.