باب: شوہر اپنی اہلیہ سے (ایام حیض میں) جماع کے علاوہ سب کچھ کرسکتا ہے
)
Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: A Person Has Relations With Her Other Than Intercourse)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
273.
ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے (یعنی زوجات کے) شدت حیض کے دنوں میں ہمیں حکم دیتے کہ ہم اپنی چادر کس کے باندھ لیں اور پھر ہمارے ساتھ لیٹ جاتے، اور تم میں سے کون ہے جسے اپنے جذبات پر اس قدر ضبط ہو جیسے کہ رسول اللہ ﷺ کو تھا؟
تشریح:
معلوم ہوا کہ نو بیاہتا اور جوان جوڑوں کو مخصوص دنوں میں بے انتہا احتیاط واجب ہے مگر جب عمر ڈھل جائے اور جذبات میں ٹھہراؤ آجائے تو مذکورہ فعل جائز ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين. وقد أخرجاه وكذا أبو عوانة في صحاحهم . وصححه الحاكم أيضا على شرطهما ووافقه الذهبي) . إسناده: حدثنا عثمان بن أبي شيبة: نا جرير عن الشيباني عن عبد الرحمن ابن الأسود عن أبيه عن عائشة. قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين. وكذا قال الحاكم (1/172) - وقد أخرجه عن عثمان-، ووافقه الذهبي. والحديث أخرجه الشيخان وأبو عوانة وابن ماجه والبيهقي من طريق- علي ابن مُسْهر-، وأبو عوانة وابن ماجه، وأحمد (6/33) - من طرق أخرى- كلهم عن أبي إسحاق الشيباني... به. وله طريق أخرى عن عائشة: رواه أبو إسحاق- وهو السبِيعي- عن أبي ميسرة عنها... به. أخرجه أحمد (6/113 و 160- 161 و 182 و 204) ، والطحاوي (2/21) ، والبيهقي (1/314) من طرق عنه. وهذا إسناد صحيح أيضا على شرطهما.
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے (یعنی زوجات کے) شدت حیض کے دنوں میں ہمیں حکم دیتے کہ ہم اپنی چادر کس کے باندھ لیں اور پھر ہمارے ساتھ لیٹ جاتے، اور تم میں سے کون ہے جسے اپنے جذبات پر اس قدر ضبط ہو جیسے کہ رسول اللہ ﷺ کو تھا؟
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ نو بیاہتا اور جوان جوڑوں کو مخصوص دنوں میں بے انتہا احتیاط واجب ہے مگر جب عمر ڈھل جائے اور جذبات میں ٹھہراؤ آجائے تو مذکورہ فعل جائز ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام المؤمنین عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے حیض کی شدت میں ہمیں ازار (تہبند) باندھنے کا حکم فرماتے تھے پھر ہم سے مباشرت کرتے تھے، اور تم میں سے کون اپنی خواہش پر قابو پا سکتا ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کو اپنی خواہش پر قابو تھا؟۱؎۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: اس حدیث میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جو مرد اپنے نفس پر قابو نہ رکھ پاتا ہو اس کا حائضہ سے مباشرت کرنا بہتر نہیں، کیوں کہ خدشہ ہے کہ وہ اپنے نفس پر قابو نہ رکھ سکے اور جماع کر بیٹھے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'Aishah (RA) said; The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) would ask us in the beginning of our menstruation to tie the waist-wrapper. Then he would embrace us. And who amongst you can have as much control over his desire as the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) had over his desire?