باب: ان حضرات کی دلیل جو کہتے ہیں کہ گھوڑے کا بھی ایک ہی حصہ ہے
)
Abu-Daud:
Jihad (Kitab Al-Jihad)
(Chapter: Regarding Giving Only One Portion (For The Horse))
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2736.
سیدنا مجمع بن جاریہ انصاری ؓ سے روایت ہے اور یہ ایسے قاری تھے، جنہوں نے پورا قرآن پڑھا تھا، (حفظ کیا تھا) وہ بیان کرتے ہیں کی ہم حدیبیہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حاضر تھے۔ جب ہم وہاں سے واپس ہونے لگے تو دیکھا کہ لوگ اپنے اونٹوں کو تیز بھگا رہے ہیں، لوگوں نے ایک دوسرے سے پوچھا: کیا بات ہے؟ انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ پر وحی نازل ہوئی ہے، تو ہم بھی لوگوں کے ساتھ اونٹ دوڑاتے ہوئے نکلے۔ ہم نے کراع الغمیم مقام پر دیکھا کہ نبی کریم ﷺ اپنی سواری پر رکے ہوئے ہیں۔ جب لوگ آپ ﷺ کے پاس جمع ہو گئے تو آپ ﷺ نے سورۃ الفتح کی آیات تلاوت فرمائیں: {إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُبِينًا} ”بلاشبہ ہم نے آپ کو واضح فتح دی ہے۔“ ایک شخص نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! کیا یہ فتح ہے؟ فرمایا ”ہاں، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد (ﷺ) کی جان ہے! بلاشبہ یہ فتح ہے۔“ چنانچہ (بعد میں) خیبر کی غنیمتیں اہل حدیبیہ ہی پر تقسیم کی گئیں۔ آپ ﷺ نے ان کے اٹھارہ حصے بنائے اور لشکر والوں کی تعداد پندرہ سو تھی جن میں تین سو گھوڑ سوار تھے۔ پس آپ ﷺ نے گھوڑ سوار کو دو حصے اور پیدل کو ایک حصہ عنایت فرمایا۔ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں: ابومعاویہ کی حدیث زیادہ صحیح ہے اوراسی پر عمل ہے۔ (حدیث 2733) اورمجمع کی روایت ہیں وہم ہے کہ یہ گھوڑ سوار تین سو بتاتے ہیں حالانکہ وہ دو سو تھے۔
تشریح:
غنائم خیبر کے اٹھارہ حصے یوں بنتے ہیں۔ کہ اگر مجاہدین کی تعداد پندرہ سو اوران میں گھوڑ سوار تین سو ہوں۔ اور ہر گھوڑے کا ایک حصہ شمار کیا جائے۔ تو یہ کل تعداد اٹھارہ سو ہوئی۔ چنانچہ ہر ایک حصہ ایک سو کے لئے ہوا اور گھوڑے کے لئے بھی ایک ہی حصہ دیا گیا۔ مگر یہ بات صحیح تر روایات کے خلاف ہے۔ اس اعتبار سے یہ حدیث ضعیف ہے۔ جیسا کہ امام ابو دائود نے کہا ہے کہ۔ صحیح یہ ہے کہ مجاہدین کی تعداد چودہ سو اور ان میں گھوڑ سوار دو سو تھے۔ گھوڑے کے لئے دو حصے تھے۔ اس طرح کل حصے جن میں یہ غنیمتیں تقسیم ہوئیں۔ اٹھارہ سو بنے۔ ہر ایک سو کےلئے ایک حصہ تھا۔ اورکل حصے اٹھارہ بنائے گئے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: وعلته يعقوب هذا فإنه لا يعرف، وفي متنه نكاره كما أشار إلي ذلك المؤلف، وتبعه البيهقي، وحديث أبي معاوية تراه في الصحيح (2443) بلفظ: أسهم لرجل ولفرسه ثلاثة أسهم، سهماً له، وسهمين لفرسه ) .إسناده: حدثنا محمد بن عيسى: ثنا مُجمِّع بن يعقوب بن مجمِّعِ بن يزيد الأنصاري قال: سمعت أبي يعقوب بن مجمِّعٍ...
قلت: وهذا إسناد ضعيف رجاله ثقات؛ غير يعقوب بن مجمِّع؛ فهو مجهول عندي لم يرو عنه أحد من الثقات غير ابنه مجمع، ولم يوثقه غير ابن حبان! وقد أشار إلى تمريض توثيقه الذهبيّ في الكاشف بقوله: وُثِّق ، والحافظ بقوله: مقبول . أي: عند المتابعة، وإلا؛ فليِّنُ الحديث، وما علمت له متابعاً. والحديث أخرجه الحاكم (2/131) ، والبيهقي (6/325) من طريق أخرى عن محمد بن عيسى... به. وأخرجه الدارقطني (4/105) ، وأحمد (3/420) من طريقين اخرين عن مجمع بن يعقوب... به. وقال الحاكم: حديث كبير صحيح الإسناد ! ووافقه الذهبي! وابن التركماني في الجوهر النقي ! وأما البيهقي فقد أعله بنحو ما أعله المؤلف به آنفاً، وذُكِر عن الشافعي أنه قال: مجمعِّ بن يعقوب لا يعرف .
قلت: هذا القول إنما يليق بأبيه يعقوب- لما سبق بيانه-، وأما مجمِّع نفسه فهو معروف، قد وثّقه جمْعٌ ، وقال فيه الحافظ: صدوق . ولذلك قال ابن القطان فما كتابه: وعلة هذا الحديث الجهل بحال يعقوب بن مجمِّع، ولا يعرف روى عنه ابنه، وابنه ثقة . نقله الشيخ أبو الطيب في التعليق المغني ، وادعى أن الحاكم سكت عنه! وهذا خلاف ما ذكرته عن النسخة المطبوعة من المستدرك ، وخلاف ما نقله ابن التركماني؛ كما تقدم. فلعل ذلك في نسخة مخطوطة منه وقعت للشيخ المذكور. والله أعلم.
(جهاد‘ جهد) سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں ’’ محنت و مشقت ۔‘‘ اس معنی کے اعتبار سے دین کے لیے کی جانے والی تمام مساعی (جانی ‘مالی ‘قولی‘فکری‘فعلی اور تحریری سبھی ) جہاد میں شامل ہیں تا ہم اصطلاحاً و عرفا نفس امّارہ کا مقابلہ ’’مجاہدہ‘‘ اور دشمن اور فسادیوں کے ساتھ مسلح آویزش کو ’’جہاد‘‘ کہتے ہیں مکی دور میں کفار کے ساتھ (فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِيلَ)
اعراض و درگزر سے کام لو۔‘‘کا حکم تھا‘ مگر مدینہ ہجرت کرجانے کے بعد مسلمانوں کو مسلح مقابلے کی اجازت دے دی گئی اور فرمایا گیا(أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ)(الحج:39)’’ان لوگوں کو جن سے کافر لڑتے ہیں(مسلح قتال کی) اجازت دی جاتی ہے اس لیے کہ یہ مظلوم ہیں اور اللہ ان کی مدد پر خوب قدرت رکھتا ہے۔‘‘بعد ازاں اس عمل کو امت پر من حیث المجموع واجب کر دیا گیا اور فرمایا گیا(كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَكُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ)(البقرۃ26)’’(کفار سے) قتال کرنا تم پرفرض کر دیا گیا ہے اور ممکن ہے کہ تمہیں ایک چیزیں بری لگے اور وہ (حقیقت ) تمہارےلیے بہتر ہو اور ممکن ہے کہ کوئی چیز تمہیں بھلی لگے اور وہ (حقیقت میں) تمہارے لیے بری ہو اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔‘‘ اور عام حالات میں جہاد فرض کفایہ ہے۔
جہاد کی فضیلت کی بابت حضرت ابوذر سے مروی ہے ‘ وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبئ کریمﷺ سے پوچھا:اے اللہ کے رسول! کون سا عمل سب سے اچھا اور افضل ہے ؟ تو آپ نے فرمایا :’’اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا اور اس کے بعد جہاد فی سبیل اللہ۔‘‘(صحيح البخارى .العتق . باب . أي الرقاب أفضل؟حديث:2518)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایمان لانے کے بعد افضل ترین عمل ‘جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ ایک دوسری روایت میں رسول اللہ سے پوچھا گیا‘ کون سے اعمال سب سے زیادہ فضیلت والے ہیں ؟یا کون سے اعمال بہتر ہیں؟ آپ نے فرمایا :’’جہاد (نیک) اعمال کی کوہان ہے ۔‘‘ (جامع ترمذی ‘فضائل الجہاد‘حدیث:1658) دین اسلام میں جہاد کی بہت زیادہ اہمیت و فضیلت بیان ہوئی ہے۔آپ ﷺ نے فرمایا ایمان لانے کے بعد جہاد فی سبیل اللہ بلند ترین درجات کے حصول کا اور رنج و غم اور مصائب و مشکلات سے نجات حاصل کرنے کا ذریعہ ہے ‘ اسی طرح حدیث سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کے بعد ہجرت اور جہاد کرنے والے کے لیے اللہ تعالیٰ تین گھر بناتا ہے ‘ایک گھر جنت کے گرد ‘ایک جنت کے وسط میں اور ایک جنت کے بالا خانوں میں۔(سنن النسائی‘ الجہاد ‘ حدیث :3135) جہاد کی اہمیت کے متعلق کے نبی ﷺ نے فرمایا جس شخص نے کبھی جہاد میں حصہ لیا نہ کبھی اس کے دل میں جہاد کی خواہش پیدا ہوئی ‘وہ نفاق کے ایک درجہ میں مرے گا۔‘‘ صحیح مسلم‘الامارۃ‘ حدیث1910) اسی طرح آپ نے فرمایا:’’ جس شخص نے کبھی جہاد میں حصہ نہ لیا اور نہ کبھی مجاہد کی مدد ہی کی ‘ اللہ تعالیٰ اسے دنیا ہی میں سخت مصیبت میں مبتلا فرما دےگا۔‘‘(سنن ابی داود ‘الجہاد ‘ حدیث 1503) قرآن و حدیث میں جہاد کی تعلیم اور تر غیب کو سامنے رکھتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ پر نظر ڈالی جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے یہ الفاظ کہ میں چاہتا ہوں کہ اللہ کی راہ میں قتل کیا جاؤں ‘ پھر زندہ کیا جاؤں ‘ پھر قتل کیا جاؤں ‘پھر زندہ کیا جاؤں ‘ پھر قتل کیا جاؤں ‘ پھر زندہ کیا جاؤں ۔صرف امت کو جہاد کی ترغیب اور فضیلت ظاہر کرنے کے لیے نہ تھے بلکہ آپ دل کی گہرائیوں سے یہ خواہش رکھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی جان کا نذرانہ پیش کریں اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں میں بھی جہاد فی سبیل اللہ کی تڑپ پیدا کرے‘ تا کہ اس گئے گزرے دور میں بھی دین اسلام پوری دنیا میں پھیل جائے ‘ ہر طرف دین اسلام ہی کا بو ل بالا ہو اور دین با قی ادیان پر غالب آ جائے۔
سیدنا مجمع بن جاریہ انصاری ؓ سے روایت ہے اور یہ ایسے قاری تھے، جنہوں نے پورا قرآن پڑھا تھا، (حفظ کیا تھا) وہ بیان کرتے ہیں کی ہم حدیبیہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حاضر تھے۔ جب ہم وہاں سے واپس ہونے لگے تو دیکھا کہ لوگ اپنے اونٹوں کو تیز بھگا رہے ہیں، لوگوں نے ایک دوسرے سے پوچھا: کیا بات ہے؟ انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ پر وحی نازل ہوئی ہے، تو ہم بھی لوگوں کے ساتھ اونٹ دوڑاتے ہوئے نکلے۔ ہم نے کراع الغمیم مقام پر دیکھا کہ نبی کریم ﷺ اپنی سواری پر رکے ہوئے ہیں۔ جب لوگ آپ ﷺ کے پاس جمع ہو گئے تو آپ ﷺ نے سورۃ الفتح کی آیات تلاوت فرمائیں: {إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُبِينًا} ”بلاشبہ ہم نے آپ کو واضح فتح دی ہے۔“ ایک شخص نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! کیا یہ فتح ہے؟ فرمایا ”ہاں، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد (ﷺ) کی جان ہے! بلاشبہ یہ فتح ہے۔“ چنانچہ (بعد میں) خیبر کی غنیمتیں اہل حدیبیہ ہی پر تقسیم کی گئیں۔ آپ ﷺ نے ان کے اٹھارہ حصے بنائے اور لشکر والوں کی تعداد پندرہ سو تھی جن میں تین سو گھوڑ سوار تھے۔ پس آپ ﷺ نے گھوڑ سوار کو دو حصے اور پیدل کو ایک حصہ عنایت فرمایا۔ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں: ابومعاویہ کی حدیث زیادہ صحیح ہے اوراسی پر عمل ہے۔ (حدیث 2733) اورمجمع کی روایت ہیں وہم ہے کہ یہ گھوڑ سوار تین سو بتاتے ہیں حالانکہ وہ دو سو تھے۔
حدیث حاشیہ:
غنائم خیبر کے اٹھارہ حصے یوں بنتے ہیں۔ کہ اگر مجاہدین کی تعداد پندرہ سو اوران میں گھوڑ سوار تین سو ہوں۔ اور ہر گھوڑے کا ایک حصہ شمار کیا جائے۔ تو یہ کل تعداد اٹھارہ سو ہوئی۔ چنانچہ ہر ایک حصہ ایک سو کے لئے ہوا اور گھوڑے کے لئے بھی ایک ہی حصہ دیا گیا۔ مگر یہ بات صحیح تر روایات کے خلاف ہے۔ اس اعتبار سے یہ حدیث ضعیف ہے۔ جیسا کہ امام ابو دائود نے کہا ہے کہ۔ صحیح یہ ہے کہ مجاہدین کی تعداد چودہ سو اور ان میں گھوڑ سوار دو سو تھے۔ گھوڑے کے لئے دو حصے تھے۔ اس طرح کل حصے جن میں یہ غنیمتیں تقسیم ہوئیں۔ اٹھارہ سو بنے۔ ہر ایک سو کےلئے ایک حصہ تھا۔ اورکل حصے اٹھارہ بنائے گئے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مجمع بن جاریہ انصاری ؓ سے روایت ہے اور وہ ان قاریوں میں سے ایک تھے جو قراءت قرآن میں ماہر تھے، وہ کہتے ہیں: ہم صلح حدیبیہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے، جب ہم وہاں سے واپس لوٹے تو لوگ اپنی سواریوں کو حرکت دے رہے تھے، بعض نے بعض سے کہا: لوگوں کو کیا ہو گیا ہے؟ لوگوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ کی طرف وحی کی گئی ہے تو ہم بھی لوگوں کے ساتھ (اپنی سواریوں) کو دوڑاتے اور ایڑ لگاتے ہوئے نکلے، ہم نے نبی اکرم ﷺ کو اپنی سواری پر کراع الغمیم۱؎ کے پاس کھڑا پایا جب سب لوگ آپ کے پاس جمع ہو گئے تو آپ ﷺ نے {إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُبِينًا} پڑھی، تو ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا یہی فتح ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ہاں ، قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، یہی فتح ہے۔“ پھر خیبر کی جنگ میں جو مال آیا وہ صلح حدیبیہ کے لوگوں پر تقسیم ہوا، رسول اللہ ﷺ نے اس مال کے اٹھارہ حصے کئے اور لشکر کے لوگ سب ایک ہزار پانچ سو تھے جن میں تین سو سوار تھے، آپ ﷺ نے سواروں کو دو حصے دئیے اورپیدل والوں کو ایک حصہ۔ ابوداؤد کہتے ہیں: ابومعاویہ کی حدیث (نمبر ۲۷۳۳) زیادہ صحیح ہے اور اسی پر عمل ہے، اورمیرا خیال ہے مجمع کی حدیث میں وہم ہوا ہے انہوں نے کہا ہے: تین سو سوار تھے حالانکہ دو سو سوارتھے۲؎۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک جگہ کا نام ہے۔
۲؎: گویا لشکر کی صحیح تعداد چودہ سو تھی جن میں دو سو سوار تھے، سواروں کو تین تین حصے دئے گئے اور پیدل والوں کو ایک حصہ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Mujammi' ibn Jariyah al-Ansari (RA): Mujammi' was one of the Qur'an-reciters (qaris), and he said: We were present with the Apostle of Allah (ﷺ) at al-Hudaybiyyah. When we returned, the people were driving their camels quickly. The people said to one another: What is the matter with them? They said: Revelation has come down to the Prophet (ﷺ). We also proceeded with the people, galloping (our camels). We found the Prophet (ﷺ) standing on his riding-animal at Kura' al-Ghamim. When the people gathered near him, he recited: "Verily We have granted thee a manifest victory. A man asked: Is this a victory, Apostle of Allah (ﷺ)? He replied: Yes. By Him in Whose hands the soul of Muhammad is, this is a victory. Khaybar was divided among those who had been at al-Hudaybiyyah, and the Apostle of Allah (ﷺ) divided it into eighteen portions. The army consisted of one thousand five hundred men, of which three hundred were cavalry, and he gave two shares to a horseman and one to a foot-soldier.