باب: مستحاضہ کا بیان اور یہ کہ (غیر ممیزہ) اپنے حیض کے دنوں کے برابر نماز چھوڑدیا کرے
)
Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: Concerning The Woman Who Has Istihadah, And (Those Scholars) Who Stated That She Should Leave The Prayer For The Number Of Days Which She Used To Menstruate)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
274.
ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ ؓ زوجہ نبی کریم ﷺ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ایک عورت کو بہت خون آتا تھا تو اس کے لیے سیدہ ام سلمہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا ”اسے چاہیئے کہ یہ عارضہ لاحق ہونے سے پہلے، مہینے (میں حیض) کے دنوں اور راتوں کی گنتی کا خیال کرے اور استخاضہ والے مہینے میں اسی اندازے سے نماز چھوڑ دے۔ جب یہ دن گزر جائیں تو غسل کر لے اور کپڑے کا لنگوٹ باندھے رہے اور نماز پڑھتی رہے۔“
تشریح:
ہر بالغ عورت کو ماہانہ نظام کے تحت جو خون آتا ہے اسے حیض کہتے ہیں۔ اور یہ علامت ہوتی ہے کہ اس کا رحم خالی ہے۔ ابتدائے بلوغت ہی سے ہر عورت کو اپنی عادت کا بالعموم تجربہ ہو جاتا ہے۔ عام طور پر یہ خون سیاہی مائل ہوتا ہے لیکن اگر اس نظام میں خرابی آجائے اور خون کا آنا عادت سے بڑھ جائے تو اسے استحاضہ کہتے ہیں اور اس کی رنگت بھی مختلف سی ہوتی ہے۔ بچے کی ولادت پر آنے والے خون کو نفاس کہتے ہیں۔ حیض اور نفاس کے ایام ناپاکی کے ایام شمار ہوتے ہیں مگر استحاضہ کے ایام طہارت کے شمار کیے جاتے ہیں اس بنا پر کہ یہ ایک مرض کی کیفیت ہوتی ہے۔ استحاضہ کا مسئلہ یوں ہے کہ اگر عورت کو اپنے حیض کی تواریخ معلوم اور اس کے ایام متعین ہوں اور یہ عارضہ لاحق ہو جائے تو وہ ان متعین دنوں کی نمازیں چھوڑ دے اور شوہر بھی اس سے علیحدہ رہے۔ اگر ایام اور تواریخ میں فرق آتا رہتا ہو تو سیاہی مائل خون کے ایام کو حیض کے ایام شمار کیا جائے لیکن اگر تواریخ اور ایام غیر متعین اور رنگت سے بھی امتیاز نہ ہو رہا ہو یا ابتدا ہی سے استحاضے کا عارضہ لاحق ہوگیا ہو تو چھ، سات دن یا اپنے عزیز واقارب کی خواتین کی عادات کے مطابق حیض کے دن متعین کرلیے جائیں۔ ان دنوں میں نماز، روزہ اور مجامعت سے پرہیز کیا جائے۔ ان دنوں کے پورے ہونے پر غسل کرکےنماز، روزہ شروع کردے اور بعد ازاں ہر نماز کے لیے وضو کرتی رہے۔ اگر غسل کی ہمت ہو تو بہت افضل ہے۔ شوہر کو مباشرت کی بھی اجازت ہوگی۔ استحاضہ کی احادیث کا اس مختصر تمہید کی روشنی میں مطالعہ کیا جائے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين، وكذا قال النووي) . إسناده: حدثنا عبد الله بن مسلمة عن مالك عن نافع عن سليمان بن يسار عن أم سلمة. قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين. وكذا قال النووي في المجموع (2/415) . وقد أعل بالانقطاع! ويأتي الجواب عنه. والحديث في الموطأً (1/80- 81) . ومن طريقه: رواه محمد في موطئه (ص 79) ، وكذا النسائي (1/65) ، والبيهقي (1/332) ، وأحمد (6/325) كلهم عن مالك... به. وكذا رواه عنه في الحلية (9/157) . وقد تابعه عبيد الله بن عمر قال: أخبرني نافع... به: أخرجه النسائي وابن ماجه (1/215) ، والدارقطني (ص 80) - عن أبى أسامة-، وأحمد (6/293) - عن ابن نمير- كلاهما عنه. وأخرجه أبو بكر بن أبي شيجة عنهما كليهما في المصنف ؛ كما في الجوهر النقي . وخالفهما أنس بن عياض عنه؛ فأدخل بين سليمان بن يسار وأم سلمة رجلاً. أخرجه المصنف بعد الرواية الاتية. قال ابن التركماني: وأبو أسامة أجل من أنس بن عياض؛ وقد تابعه عبد الله بن نمير؛ فروايتهما مرجحة بالحفظ والكثرة . وتابعه عن سليمان بن يسار: أيوبُ السَّخْتِياني: أخرجه الدارقطني (ص 76) ، والبيهقي (334) ، وأحمد (6/322) ؛ ولم يختلف عليه فيه؛ بخلاف رواية نافع. فقول البيهقي: إن سليمان بن يسارلم يسمعه من أم سلمة ! غير قوي؛ وإن كان احتج على ذلك برواية الليث وغيره عن نافع... مثل رواية أنس بن عياض عن عبيد الله. وقد ذكر المؤلف رواياتهم- فيما بعد- وقد اختلف فيه على الليث أيضا، كما سنبينه في الرواية الآتية. فترجيح ما اختُلِفَ فيه على مالم يُخْتَلَفْ فيه؛ مما لايخفى ضعفه؛ لاسيما وأن سليمان بن يسار ثقة جليل، أحد الفقهاء السبعة، ولم يعرف بتدليس، وقد أدرك أم سلمة حتماً؛ فحديثه عنها محمول على الاتصال. فإن كان لا بد من الترجيح؛ فرواية أيوب أصح من رواية نافع؛ وإلا فالروايتان ثابتتان، ويكون ابن يسار سمعه منها مباشرة
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ ؓ زوجہ نبی کریم ﷺ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ایک عورت کو بہت خون آتا تھا تو اس کے لیے سیدہ ام سلمہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا ”اسے چاہیئے کہ یہ عارضہ لاحق ہونے سے پہلے، مہینے (میں حیض) کے دنوں اور راتوں کی گنتی کا خیال کرے اور استخاضہ والے مہینے میں اسی اندازے سے نماز چھوڑ دے۔ جب یہ دن گزر جائیں تو غسل کر لے اور کپڑے کا لنگوٹ باندھے رہے اور نماز پڑھتی رہے۔“
حدیث حاشیہ:
ہر بالغ عورت کو ماہانہ نظام کے تحت جو خون آتا ہے اسے حیض کہتے ہیں۔ اور یہ علامت ہوتی ہے کہ اس کا رحم خالی ہے۔ ابتدائے بلوغت ہی سے ہر عورت کو اپنی عادت کا بالعموم تجربہ ہو جاتا ہے۔ عام طور پر یہ خون سیاہی مائل ہوتا ہے لیکن اگر اس نظام میں خرابی آجائے اور خون کا آنا عادت سے بڑھ جائے تو اسے استحاضہ کہتے ہیں اور اس کی رنگت بھی مختلف سی ہوتی ہے۔ بچے کی ولادت پر آنے والے خون کو نفاس کہتے ہیں۔ حیض اور نفاس کے ایام ناپاکی کے ایام شمار ہوتے ہیں مگر استحاضہ کے ایام طہارت کے شمار کیے جاتے ہیں اس بنا پر کہ یہ ایک مرض کی کیفیت ہوتی ہے۔ استحاضہ کا مسئلہ یوں ہے کہ اگر عورت کو اپنے حیض کی تواریخ معلوم اور اس کے ایام متعین ہوں اور یہ عارضہ لاحق ہو جائے تو وہ ان متعین دنوں کی نمازیں چھوڑ دے اور شوہر بھی اس سے علیحدہ رہے۔ اگر ایام اور تواریخ میں فرق آتا رہتا ہو تو سیاہی مائل خون کے ایام کو حیض کے ایام شمار کیا جائے لیکن اگر تواریخ اور ایام غیر متعین اور رنگت سے بھی امتیاز نہ ہو رہا ہو یا ابتدا ہی سے استحاضے کا عارضہ لاحق ہوگیا ہو تو چھ، سات دن یا اپنے عزیز واقارب کی خواتین کی عادات کے مطابق حیض کے دن متعین کرلیے جائیں۔ ان دنوں میں نماز، روزہ اور مجامعت سے پرہیز کیا جائے۔ ان دنوں کے پورے ہونے پر غسل کرکےنماز، روزہ شروع کردے اور بعد ازاں ہر نماز کے لیے وضو کرتی رہے۔ اگر غسل کی ہمت ہو تو بہت افضل ہے۔ شوہر کو مباشرت کی بھی اجازت ہوگی۔ استحاضہ کی احادیث کا اس مختصر تمہید کی روشنی میں مطالعہ کیا جائے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام المؤمنین ام سلمہ ؓ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ایک عورت کو استحاضہ کا خون آتا تھا، تو ام سلمہ ؓ نے اس کے لیے رسول اللہ ﷺ سے مسئلہ پوچھا، آپ ﷺ نے فرمایا: ”اس عورت کو چاہیئے کہ اس بیماری کے لاحق ہونے سے پہلے مہینے کی ان راتوں اور دنوں کی تعداد کو جن میں اسے حیض آتا تھا ذہن میں رکھ لے اور (ہر) ماہ اسی کے بقدر نماز چھوڑ دے، پھر جب یہ دن گزر جائیں تو غسل کرے، پھر کپڑے کا لنگوٹ باندھ لے پھر اس میں نماز پڑھے۔“
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Umm Salamah, Ummul Mu'minin (RA): In the time of the Apostle of Allah (ﷺ) there was a woman who had an issue of blood. So Umm Salamah asked the Apostle of Allah (ﷺ) to give a decision about her. He said: She should consider the number of nights and days during which she used to menstruate each month before she was afflicted with this trouble and abandon prayer during that period each month. When those days and nights are over, she should take a bath, tie a cloth over her private parts and pray.