باب: غفلت اور بےخبری میں دشمن کے پاس جانا اور ان کی مشابہت اختیار کرنا
)
Abu-Daud:
Jihad (Kitab Al-Jihad)
(Chapter: To Attack The Enemy By Surprise And To Imitate Them)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2768.
سیدنا جابر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”کون ہے جو کعب بن اشرف کی خبر لے؟ بلاشبہ اس نے اللہ اور اس کے رسول کو اذیت دی ہے۔“ پس محمد بن مسلمہ کھڑے ہوئے اور کہا: اے اللہ کے رسول! میں حاضر ہوں۔ کیا آپ ﷺ چاہتے ہیں کہ میں اسے قتل کر ڈالوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ہاں!“ انہوں نے کہا: مجھے اجازت دیجئیے کہ میں اس کے سامنے کوئی بات بنا سکوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ہاں ! تم کہہ سکتے ہو۔“ چنانچہ محمد بن مسلمہ ؓ اس کے پاس گئے اور کہا: اس آدمی نے ہم سے صدقات طلب کئے ہیں اور ہمیں بہت تنگ کر رکھا ہے۔ اس نے کہا: ابھی تم اس شخص سے اور بھی اکتا جاؤ گے۔ ابن مسلمہ ؓ نے کہا: چونکہ ہم اس کی پیروی اختیار کر چکے ہیں اس لیے فوراً اسے چھوڑ دینا مناسب نہیں ہے، حتیٰ کہ دیکھ لیں کہ اس کا انجام کیا ہوتا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ تم ہمیں ایک دو وسق (غلہ وغیرہ) دے دو۔ کعب نے کہا: بطور رہن کیا چیز دو گے؟ انہوں نے کہا: تم ہم سے کیا چاہتے ہو۔ اس نے کہا: اپنی عورتیں دے دو۔ انہوں نے کہا: سبحان اللہ! تم عرب کے حسین ترین شخص ہو، ہم تمہیں اپنی عورتیں بطور رہن دے دیں، تو یہ ہمارے لیے بہت بڑی عار ہو گی۔ وہ بولا: چلو اپنی اولادیں دے دو۔ انہوں نے کہا: سبحان اللہ! (ساری زندگی) ہمارے بچے کو یہ گالی دی جاتی رہے گی کہ تمہیں تو ایک یا دو وسق کے بدلے میں رہن رکھا گیا تھا۔ انہوں نے کہا: ہاں ہم اپنا اسلحہ بطور رہن دے سکتے ہیں۔ تو وہ بولا ہاں ٹھیک ہے۔ چنانچہ وہ لوگ جب اس کے پاس آئے تو ابن مسلمہ ؓ نے اس کو آواز دی، وہ باہر آیا، اس نے خوشبو لگا رکھی تھی اور اس کا سر خوشبو سے مہک رہا تھا۔ پس جب وہ اس کے پاس بیٹھ گیا۔ اور محمد بن مسلمہ اپنے ساتھ تین یا چار ساتھیوں کو بھی لائے تھے۔ سب نے اس سے خوشبو کا تذکرہ کیا۔ وہ کہنے لگا: میرے ہاں فلاں عورت ہے جو بہترین خوشبو والی عورت ہے۔ ابن مسلمہ نے کہا: اگر اجازت دو تو میں سونگھ لوں۔ اس نے کہا: ہاں ہاں۔ پس انہوں نے اپنا ہاتھ اس کے سر میں کیا اور اسے سونگھا۔ انہوں نے کہا: ذرا ایک بار پھر۔ اس نے کہا: ہاں ہاں۔ تو انہوں نے اپنا ہاتھ اس کے سر میں ڈالا اور اس کے بالوں کو خوب جکڑ لیا اور اپنے ساتھیوں سے کہا: لو اپنا کام کرو، تو انہوں نے اس کو مارا حتیٰ کہ قتل کر ڈالا۔
تشریح:
1۔ کعب بن اشرف یہودی کا تعلق بنو نضیرسے تھا۔ وہ بڑا مال داراور شاعر تھا۔ اسے مسلمانوں سے سخت عداوت تھی۔ اور لوگوں کو رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوں کے خلاف برانگیختہ کرتا رہتا تھا۔ اس نے مسلمانوں کے ساتھ مل کر ان کا دفاع کرنے کی بجائے مکہ جا کر قریش کو جنگ کے لئے آمادہ کیا۔ اور عہد شکنی بھی کی۔
2۔ دشمن پر وار کرنے کےلئے بناوٹی طور پر کچھ ایسی باتیں بنانا جو بظاہر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہوں۔ وقتی طور پر جائز ہے۔ اور جنگ دھوکے (چال بازی) کا نام ہے۔
(جهاد‘ جهد) سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں ’’ محنت و مشقت ۔‘‘ اس معنی کے اعتبار سے دین کے لیے کی جانے والی تمام مساعی (جانی ‘مالی ‘قولی‘فکری‘فعلی اور تحریری سبھی ) جہاد میں شامل ہیں تا ہم اصطلاحاً و عرفا نفس امّارہ کا مقابلہ ’’مجاہدہ‘‘ اور دشمن اور فسادیوں کے ساتھ مسلح آویزش کو ’’جہاد‘‘ کہتے ہیں مکی دور میں کفار کے ساتھ (فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِيلَ)
اعراض و درگزر سے کام لو۔‘‘کا حکم تھا‘ مگر مدینہ ہجرت کرجانے کے بعد مسلمانوں کو مسلح مقابلے کی اجازت دے دی گئی اور فرمایا گیا(أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ)(الحج:39)’’ان لوگوں کو جن سے کافر لڑتے ہیں(مسلح قتال کی) اجازت دی جاتی ہے اس لیے کہ یہ مظلوم ہیں اور اللہ ان کی مدد پر خوب قدرت رکھتا ہے۔‘‘بعد ازاں اس عمل کو امت پر من حیث المجموع واجب کر دیا گیا اور فرمایا گیا(كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَكُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ)(البقرۃ26)’’(کفار سے) قتال کرنا تم پرفرض کر دیا گیا ہے اور ممکن ہے کہ تمہیں ایک چیزیں بری لگے اور وہ (حقیقت ) تمہارےلیے بہتر ہو اور ممکن ہے کہ کوئی چیز تمہیں بھلی لگے اور وہ (حقیقت میں) تمہارے لیے بری ہو اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔‘‘ اور عام حالات میں جہاد فرض کفایہ ہے۔
جہاد کی فضیلت کی بابت حضرت ابوذر سے مروی ہے ‘ وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبئ کریمﷺ سے پوچھا:اے اللہ کے رسول! کون سا عمل سب سے اچھا اور افضل ہے ؟ تو آپ نے فرمایا :’’اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا اور اس کے بعد جہاد فی سبیل اللہ۔‘‘(صحيح البخارى .العتق . باب . أي الرقاب أفضل؟حديث:2518)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایمان لانے کے بعد افضل ترین عمل ‘جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ ایک دوسری روایت میں رسول اللہ سے پوچھا گیا‘ کون سے اعمال سب سے زیادہ فضیلت والے ہیں ؟یا کون سے اعمال بہتر ہیں؟ آپ نے فرمایا :’’جہاد (نیک) اعمال کی کوہان ہے ۔‘‘ (جامع ترمذی ‘فضائل الجہاد‘حدیث:1658) دین اسلام میں جہاد کی بہت زیادہ اہمیت و فضیلت بیان ہوئی ہے۔آپ ﷺ نے فرمایا ایمان لانے کے بعد جہاد فی سبیل اللہ بلند ترین درجات کے حصول کا اور رنج و غم اور مصائب و مشکلات سے نجات حاصل کرنے کا ذریعہ ہے ‘ اسی طرح حدیث سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کے بعد ہجرت اور جہاد کرنے والے کے لیے اللہ تعالیٰ تین گھر بناتا ہے ‘ایک گھر جنت کے گرد ‘ایک جنت کے وسط میں اور ایک جنت کے بالا خانوں میں۔(سنن النسائی‘ الجہاد ‘ حدیث :3135) جہاد کی اہمیت کے متعلق کے نبی ﷺ نے فرمایا جس شخص نے کبھی جہاد میں حصہ لیا نہ کبھی اس کے دل میں جہاد کی خواہش پیدا ہوئی ‘وہ نفاق کے ایک درجہ میں مرے گا۔‘‘ صحیح مسلم‘الامارۃ‘ حدیث1910) اسی طرح آپ نے فرمایا:’’ جس شخص نے کبھی جہاد میں حصہ نہ لیا اور نہ کبھی مجاہد کی مدد ہی کی ‘ اللہ تعالیٰ اسے دنیا ہی میں سخت مصیبت میں مبتلا فرما دےگا۔‘‘(سنن ابی داود ‘الجہاد ‘ حدیث 1503) قرآن و حدیث میں جہاد کی تعلیم اور تر غیب کو سامنے رکھتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ پر نظر ڈالی جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے یہ الفاظ کہ میں چاہتا ہوں کہ اللہ کی راہ میں قتل کیا جاؤں ‘ پھر زندہ کیا جاؤں ‘ پھر قتل کیا جاؤں ‘پھر زندہ کیا جاؤں ‘ پھر قتل کیا جاؤں ‘ پھر زندہ کیا جاؤں ۔صرف امت کو جہاد کی ترغیب اور فضیلت ظاہر کرنے کے لیے نہ تھے بلکہ آپ دل کی گہرائیوں سے یہ خواہش رکھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی جان کا نذرانہ پیش کریں اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں میں بھی جہاد فی سبیل اللہ کی تڑپ پیدا کرے‘ تا کہ اس گئے گزرے دور میں بھی دین اسلام پوری دنیا میں پھیل جائے ‘ ہر طرف دین اسلام ہی کا بو ل بالا ہو اور دین با قی ادیان پر غالب آ جائے۔
سیدنا جابر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”کون ہے جو کعب بن اشرف کی خبر لے؟ بلاشبہ اس نے اللہ اور اس کے رسول کو اذیت دی ہے۔“ پس محمد بن مسلمہ کھڑے ہوئے اور کہا: اے اللہ کے رسول! میں حاضر ہوں۔ کیا آپ ﷺ چاہتے ہیں کہ میں اسے قتل کر ڈالوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ہاں!“ انہوں نے کہا: مجھے اجازت دیجئیے کہ میں اس کے سامنے کوئی بات بنا سکوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ہاں ! تم کہہ سکتے ہو۔“ چنانچہ محمد بن مسلمہ ؓ اس کے پاس گئے اور کہا: اس آدمی نے ہم سے صدقات طلب کئے ہیں اور ہمیں بہت تنگ کر رکھا ہے۔ اس نے کہا: ابھی تم اس شخص سے اور بھی اکتا جاؤ گے۔ ابن مسلمہ ؓ نے کہا: چونکہ ہم اس کی پیروی اختیار کر چکے ہیں اس لیے فوراً اسے چھوڑ دینا مناسب نہیں ہے، حتیٰ کہ دیکھ لیں کہ اس کا انجام کیا ہوتا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ تم ہمیں ایک دو وسق (غلہ وغیرہ) دے دو۔ کعب نے کہا: بطور رہن کیا چیز دو گے؟ انہوں نے کہا: تم ہم سے کیا چاہتے ہو۔ اس نے کہا: اپنی عورتیں دے دو۔ انہوں نے کہا: سبحان اللہ! تم عرب کے حسین ترین شخص ہو، ہم تمہیں اپنی عورتیں بطور رہن دے دیں، تو یہ ہمارے لیے بہت بڑی عار ہو گی۔ وہ بولا: چلو اپنی اولادیں دے دو۔ انہوں نے کہا: سبحان اللہ! (ساری زندگی) ہمارے بچے کو یہ گالی دی جاتی رہے گی کہ تمہیں تو ایک یا دو وسق کے بدلے میں رہن رکھا گیا تھا۔ انہوں نے کہا: ہاں ہم اپنا اسلحہ بطور رہن دے سکتے ہیں۔ تو وہ بولا ہاں ٹھیک ہے۔ چنانچہ وہ لوگ جب اس کے پاس آئے تو ابن مسلمہ ؓ نے اس کو آواز دی، وہ باہر آیا، اس نے خوشبو لگا رکھی تھی اور اس کا سر خوشبو سے مہک رہا تھا۔ پس جب وہ اس کے پاس بیٹھ گیا۔ اور محمد بن مسلمہ اپنے ساتھ تین یا چار ساتھیوں کو بھی لائے تھے۔ سب نے اس سے خوشبو کا تذکرہ کیا۔ وہ کہنے لگا: میرے ہاں فلاں عورت ہے جو بہترین خوشبو والی عورت ہے۔ ابن مسلمہ نے کہا: اگر اجازت دو تو میں سونگھ لوں۔ اس نے کہا: ہاں ہاں۔ پس انہوں نے اپنا ہاتھ اس کے سر میں کیا اور اسے سونگھا۔ انہوں نے کہا: ذرا ایک بار پھر۔ اس نے کہا: ہاں ہاں۔ تو انہوں نے اپنا ہاتھ اس کے سر میں ڈالا اور اس کے بالوں کو خوب جکڑ لیا اور اپنے ساتھیوں سے کہا: لو اپنا کام کرو، تو انہوں نے اس کو مارا حتیٰ کہ قتل کر ڈالا۔
حدیث حاشیہ:
1۔ کعب بن اشرف یہودی کا تعلق بنو نضیرسے تھا۔ وہ بڑا مال داراور شاعر تھا۔ اسے مسلمانوں سے سخت عداوت تھی۔ اور لوگوں کو رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوں کے خلاف برانگیختہ کرتا رہتا تھا۔ اس نے مسلمانوں کے ساتھ مل کر ان کا دفاع کرنے کی بجائے مکہ جا کر قریش کو جنگ کے لئے آمادہ کیا۔ اور عہد شکنی بھی کی۔
2۔ دشمن پر وار کرنے کےلئے بناوٹی طور پر کچھ ایسی باتیں بنانا جو بظاہر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہوں۔ وقتی طور پر جائز ہے۔ اور جنگ دھوکے (چال بازی) کا نام ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
جابر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”کون ہے جو کعب بن اشرف۱؎ کے قتل کا بیڑا اٹھائے؟ کیونکہ اس نے اللہ اور اس کے رسول کو تکلیف پہنچائی ہے۔“ یہ سن کر محمد بن مسلمہ ؓ کھڑے ہو گئے اور بولے: اللہ کے رسول! میں، کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں اس کو قتل کر دوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ہاں“ محمد بن مسلمہ ؓ نے کہا: پھر آپ مجھے اجازت دیجئیے کہ میں کچھ کہہ سکوں، آپ ﷺ نے فرمایا: ”ہاں، کہہ سکتے ہو۔“ پھر انہوں نے کعب کے پاس آ کر کہا: اس شخص (یعنی محمد ﷺ) نے ہم سے صدقے مانگ مانگ کر ہماری ناک میں دم کر رکھا ہے، کعب نے کہا: ابھی کیا ہے؟ تم اور اکتا جاؤ گے، اس پر انہوں نے کہا: ہم اس کی پیروی کر چکے ہیں اب یہ بھی اچھا نہیں لگتا کہ اس کا ساتھ چھوڑ دیں جب تک کہ اس کا انجام نہ دیکھ لیں کہ کیا ہوتا ہے؟ ہم تم سے یہ چاہتے ہیں کہ ایک وسق یا دو وسق اناج ہمیں بطور قرض دے دو، کعب نے کہا: تم اس کے عوض رہن میں میرے پاس کیا رکھو گے؟ محمد بن مسلمہ نے کہا: تم کیا چاہتے ہو؟ کعب نے کہا: اپنی عورتوں کو رہن رکھ دو، انہوں نے کہا: ”سبحان الله!“ تم عربوں میں خوبصورت ترین آدمی ہو، اگر ہم اپنی عورتوں کو تمہارے پاس گروی رکھ دیں تو یہ ہمارے لیے عار کا سبب ہو گا، اس نے کہا: اپنی اولاد کو رکھ دو، انہوں نے کہا: ”سبحان الله!“ جب ہمارا بیٹا بڑا ہو گا تو لوگ اس کو طعنہ دیں گے کہ تو ایک وسق یا دو وسق کے بدلے گروی رکھ دیا گیا تھا، البتہ ہم اپنا ہتھیار تمہارے پاس گروی رکھ دیں گے، کعب نے کہا ٹھیک ہے۔ پھر جب محمد بن مسلمہ ؓ کعب کے پاس گئے اور اس کو آواز دی تو وہ خوشبو لگائے ہوئے نکلا، اس کا سر مہک رہا تھا، محمد بن مسلمہ ؓ ابھی بیٹھے ہی تھے کہ ان کے ساتھ تین چار آدمی جو اور تھے سبھوں نے اس کی خوشبو کا ذکر شروع کر دیا، کعب کہنے لگا کہ میرے پاس فلاں عورت ہے جو سب سے زیادہ معطر رہتی ہے، محمد بن مسلمہ ؓ نے کہا: کیا تم اجازت دیتے ہو کہ میں (تمہارے بال) سونگھوں؟ اس نے کہا: ہاں، تو محمد بن مسلمہ ؓ نے اپنا ہاتھ اس کے سر میں ڈال کر سونگھا، پھر دوبارہ اجازت چاہی اس نے کہا: ہاں، پھر انہوں نے اپنا ہاتھ اس کے سر پر رکھا، پھر جب اسے مضبوطی سے پکڑ لیا تو (اپنے ساتھیوں سے) کہا: پکڑو اسے، پھر ان لوگوں نے اس پر وار کیا یہاں تک کہ اسے مار ڈالا۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: کعب بن اشرف یہودیوں کا سردار تھا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کرتا تھا، دوسروں کو بھی اس پر ابھارتا تھا، اس کے ساتھ ساتھ عہد شکنی کا مجرم بھی تھا، اسی لئے آپ نے اس کے قتل کا حکم دیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Jabir (RA) reported: The Messenger of Allah (ﷺ) said: Who will pursue Ka’b bin Al-Ashraf, for he has caused trouble to Allah and His Apostle? Muhammad bin Maslamah (RA) stood up and said: I (shall do), Messenger of Allah. Do you want that I should kill him? He said: Yes. He said: So permit me to say something (against you). He said: Yes say. He then came to him (Ka’b b. al-Ashraf) and said to him: This man has asked us for sadaqah (alms) and has put us into trouble. He (Ka’b) said: You will be more grieved. He (Muhammad bin Maslamah (RA)) said: We have followed him and we do not like to forsake him until we see what will be the consequences of his matter. We wished if you could lend us one or two wasqs. Ka’b said: What will you mortgage with me? He asked: what do you want from us? He replied : your Women. They said: Glory be to Allah: You are the most beautiful of the Arabs. If we mortgage our women with you, that will be a disgrace for us. He said “The mortgage your children”. They said “Glory be to Allah, a son of us may abuse saying “You were mortgaged for one or two wasqs”. They said “We shall mortgage or coat of mail with you. By this he meant arms”. He said “Yes, when he came to him, he called him and he came out while he used perfume and his head was spreading fragrance. When he at with him and he came there accompanied by three or four persons who mentioned his perfume. He said “I have such and such woman with me. She is most fragrant of the women among the people. He (Muhammad bin Maslamah (RA)) asked “Do you permit me so that I may smell? He said “Yes. He then entered his hand through his hair and smell it.” He said “May I repeat”? He said “Yes. He again entered his hand through his hair. When he got his complete control, he said: “Take him. So he struck him until they killed him”.