Abu-Daud:
Jihad (Kitab Al-Jihad)
(Chapter: Regarding Giving A Present To The One Who Delivers Good News)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2773.
سیدنا کعب بن مالک ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ جب بھی کسی سفر سے واپس لوٹتے تو سب سے پہلے مسجد میں تشریف لے جاتے، وہاں دو رکعتیں پڑھتے اور پھر لوگوں سے ملنے کے لیے بیٹھ جاتے۔ (امام ابوداؤد کے شیخ) ابن السرح نے پوری حدیث بیان کی اور کہا: رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو منع فرما دیا تھا کہ ہم تینوں سے کوئی بات چیت کرے۔ حتیٰ کہ جب یہ کیفیت بہت طویل ہو گئی تو میں اپنے چچا زاد ابوقتادہ ؓ کی دیوار پر چڑھا اور میں نے اس کو سلام کہا۔ اللہ کی قسم! اس نے مجھے جواب نہیں دیا۔ پھر جب پچاس راتیں پوری ہو گئیں اور اس صبح فجر کی نماز میں نے اپنے ایک مکان کی چھت پر پڑھی، تو میں نے ایک بلند آواز سے پکارنے والے کی آواز سنی جو کہہ رہا تھا: اے کعب بن مالک! خوشخبری ہو۔ پھر جب وہ میرے پاس پہنچا، جس کی آواز میں نے سنی تھی، تو میں نے اس کے لیے اپنے کپڑے اتارے اور اس کو پہنا دیے۔ پھر میں چلا حتیٰ کہ جب مسجد میں داخل ہوا تو رسول اللہ ﷺ تشریف فرما تھے۔ طلحہ بن عبیداللہ ؓ دوڑتے ہوئے میری طرف لپکے، حتیٰ کہ مجھ سے مصافحہ کیا اور مبارک باد پیش کی۔
تشریح:
1۔ یہ غزوہ تبوک میں حضرت کعب بن ماک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی غیر حاضری پر ان کے بائکاٹ سے متعلق واقعہ ہے۔ جو فتح مکہ کے بعد سن 9 ہجری میں پیش آیا تھا۔ اور یہی وہ غزوہ ہے۔ جو اس دور کے تمام مسلمانوں پر بالمعوم فرض عین ہوا تھا۔ مگر مخلص مسلمانوں میں سے تین افراد بغیر کسی معقول عذر کے پیچھے رہ گئے یعنی کعب بن مالک سربراہ بن ربیع اور ہلال بن امیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ ﷺ واپس تشریف لائے۔ تو انہوں نے بصراحت اقرار کیا۔ کہ ہمارے پیچھے رہ جانے میں کوئی شرعی عذر نہ تھا۔ چنانچہ آپ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ ان سے مقاطعہ کرلیں۔ چالیس دن کے بعد حکم آیا کہ یہ اپنی عورتوں سے بھی الگ رہیں۔ پچاس دن پورے ہونے پر توبہ قبول کی گئی۔ او ر یہ آیت نازل ہوئی۔ (وَعَلَى الثَّلَاثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُوا حَتَّىٰ إِذَا ضَاقَتْ عَلَيْهِمُ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَيْهِمْ أَنفُسُهُمْ وَظَنُّوا أَن لَّا مَلْجَأَ مِنَ اللَّـهِ إِلَّا إِلَيْهِ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ لِيَتُوبُوا ۚ إِنَّ اللَّـهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ) (التوبة۔118) اور اللہ نے ان تین آدمیوں کی توبہ قبول فرما لی۔ جن کا معاملہ موخر کیا گیا تھا۔ یہا ں تک کہ جب زمین باوجود اپنی کشادگی کے ان پر تنگ ہوگئی۔ اورخود ان کی جان بھی ان پر تنگ ہوگئی۔ اور انہوں نے یقین کرلیا کہ اللہ کے سوائے ان کےلئے کوئی جائے پناہ نہیں ہے۔ پھر اللہ نے ان پر رجوع فرمایا تاکہ وہ توبہ کرلیں۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والا بہت مہربان ہے۔
(جهاد‘ جهد) سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں ’’ محنت و مشقت ۔‘‘ اس معنی کے اعتبار سے دین کے لیے کی جانے والی تمام مساعی (جانی ‘مالی ‘قولی‘فکری‘فعلی اور تحریری سبھی ) جہاد میں شامل ہیں تا ہم اصطلاحاً و عرفا نفس امّارہ کا مقابلہ ’’مجاہدہ‘‘ اور دشمن اور فسادیوں کے ساتھ مسلح آویزش کو ’’جہاد‘‘ کہتے ہیں مکی دور میں کفار کے ساتھ (فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِيلَ)
اعراض و درگزر سے کام لو۔‘‘کا حکم تھا‘ مگر مدینہ ہجرت کرجانے کے بعد مسلمانوں کو مسلح مقابلے کی اجازت دے دی گئی اور فرمایا گیا(أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ)(الحج:39)’’ان لوگوں کو جن سے کافر لڑتے ہیں(مسلح قتال کی) اجازت دی جاتی ہے اس لیے کہ یہ مظلوم ہیں اور اللہ ان کی مدد پر خوب قدرت رکھتا ہے۔‘‘بعد ازاں اس عمل کو امت پر من حیث المجموع واجب کر دیا گیا اور فرمایا گیا(كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَكُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ)(البقرۃ26)’’(کفار سے) قتال کرنا تم پرفرض کر دیا گیا ہے اور ممکن ہے کہ تمہیں ایک چیزیں بری لگے اور وہ (حقیقت ) تمہارےلیے بہتر ہو اور ممکن ہے کہ کوئی چیز تمہیں بھلی لگے اور وہ (حقیقت میں) تمہارے لیے بری ہو اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔‘‘ اور عام حالات میں جہاد فرض کفایہ ہے۔
جہاد کی فضیلت کی بابت حضرت ابوذر سے مروی ہے ‘ وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبئ کریمﷺ سے پوچھا:اے اللہ کے رسول! کون سا عمل سب سے اچھا اور افضل ہے ؟ تو آپ نے فرمایا :’’اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا اور اس کے بعد جہاد فی سبیل اللہ۔‘‘(صحيح البخارى .العتق . باب . أي الرقاب أفضل؟حديث:2518)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایمان لانے کے بعد افضل ترین عمل ‘جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ ایک دوسری روایت میں رسول اللہ سے پوچھا گیا‘ کون سے اعمال سب سے زیادہ فضیلت والے ہیں ؟یا کون سے اعمال بہتر ہیں؟ آپ نے فرمایا :’’جہاد (نیک) اعمال کی کوہان ہے ۔‘‘ (جامع ترمذی ‘فضائل الجہاد‘حدیث:1658) دین اسلام میں جہاد کی بہت زیادہ اہمیت و فضیلت بیان ہوئی ہے۔آپ ﷺ نے فرمایا ایمان لانے کے بعد جہاد فی سبیل اللہ بلند ترین درجات کے حصول کا اور رنج و غم اور مصائب و مشکلات سے نجات حاصل کرنے کا ذریعہ ہے ‘ اسی طرح حدیث سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کے بعد ہجرت اور جہاد کرنے والے کے لیے اللہ تعالیٰ تین گھر بناتا ہے ‘ایک گھر جنت کے گرد ‘ایک جنت کے وسط میں اور ایک جنت کے بالا خانوں میں۔(سنن النسائی‘ الجہاد ‘ حدیث :3135) جہاد کی اہمیت کے متعلق کے نبی ﷺ نے فرمایا جس شخص نے کبھی جہاد میں حصہ لیا نہ کبھی اس کے دل میں جہاد کی خواہش پیدا ہوئی ‘وہ نفاق کے ایک درجہ میں مرے گا۔‘‘ صحیح مسلم‘الامارۃ‘ حدیث1910) اسی طرح آپ نے فرمایا:’’ جس شخص نے کبھی جہاد میں حصہ نہ لیا اور نہ کبھی مجاہد کی مدد ہی کی ‘ اللہ تعالیٰ اسے دنیا ہی میں سخت مصیبت میں مبتلا فرما دےگا۔‘‘(سنن ابی داود ‘الجہاد ‘ حدیث 1503) قرآن و حدیث میں جہاد کی تعلیم اور تر غیب کو سامنے رکھتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ پر نظر ڈالی جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے یہ الفاظ کہ میں چاہتا ہوں کہ اللہ کی راہ میں قتل کیا جاؤں ‘ پھر زندہ کیا جاؤں ‘ پھر قتل کیا جاؤں ‘پھر زندہ کیا جاؤں ‘ پھر قتل کیا جاؤں ‘ پھر زندہ کیا جاؤں ۔صرف امت کو جہاد کی ترغیب اور فضیلت ظاہر کرنے کے لیے نہ تھے بلکہ آپ دل کی گہرائیوں سے یہ خواہش رکھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی جان کا نذرانہ پیش کریں اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں میں بھی جہاد فی سبیل اللہ کی تڑپ پیدا کرے‘ تا کہ اس گئے گزرے دور میں بھی دین اسلام پوری دنیا میں پھیل جائے ‘ ہر طرف دین اسلام ہی کا بو ل بالا ہو اور دین با قی ادیان پر غالب آ جائے۔
سیدنا کعب بن مالک ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ جب بھی کسی سفر سے واپس لوٹتے تو سب سے پہلے مسجد میں تشریف لے جاتے، وہاں دو رکعتیں پڑھتے اور پھر لوگوں سے ملنے کے لیے بیٹھ جاتے۔ (امام ابوداؤد کے شیخ) ابن السرح نے پوری حدیث بیان کی اور کہا: رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو منع فرما دیا تھا کہ ہم تینوں سے کوئی بات چیت کرے۔ حتیٰ کہ جب یہ کیفیت بہت طویل ہو گئی تو میں اپنے چچا زاد ابوقتادہ ؓ کی دیوار پر چڑھا اور میں نے اس کو سلام کہا۔ اللہ کی قسم! اس نے مجھے جواب نہیں دیا۔ پھر جب پچاس راتیں پوری ہو گئیں اور اس صبح فجر کی نماز میں نے اپنے ایک مکان کی چھت پر پڑھی، تو میں نے ایک بلند آواز سے پکارنے والے کی آواز سنی جو کہہ رہا تھا: اے کعب بن مالک! خوشخبری ہو۔ پھر جب وہ میرے پاس پہنچا، جس کی آواز میں نے سنی تھی، تو میں نے اس کے لیے اپنے کپڑے اتارے اور اس کو پہنا دیے۔ پھر میں چلا حتیٰ کہ جب مسجد میں داخل ہوا تو رسول اللہ ﷺ تشریف فرما تھے۔ طلحہ بن عبیداللہ ؓ دوڑتے ہوئے میری طرف لپکے، حتیٰ کہ مجھ سے مصافحہ کیا اور مبارک باد پیش کی۔
حدیث حاشیہ:
1۔ یہ غزوہ تبوک میں حضرت کعب بن ماک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی غیر حاضری پر ان کے بائکاٹ سے متعلق واقعہ ہے۔ جو فتح مکہ کے بعد سن 9 ہجری میں پیش آیا تھا۔ اور یہی وہ غزوہ ہے۔ جو اس دور کے تمام مسلمانوں پر بالمعوم فرض عین ہوا تھا۔ مگر مخلص مسلمانوں میں سے تین افراد بغیر کسی معقول عذر کے پیچھے رہ گئے یعنی کعب بن مالک سربراہ بن ربیع اور ہلال بن امیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ ﷺ واپس تشریف لائے۔ تو انہوں نے بصراحت اقرار کیا۔ کہ ہمارے پیچھے رہ جانے میں کوئی شرعی عذر نہ تھا۔ چنانچہ آپ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ ان سے مقاطعہ کرلیں۔ چالیس دن کے بعد حکم آیا کہ یہ اپنی عورتوں سے بھی الگ رہیں۔ پچاس دن پورے ہونے پر توبہ قبول کی گئی۔ او ر یہ آیت نازل ہوئی۔ (وَعَلَى الثَّلَاثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُوا حَتَّىٰ إِذَا ضَاقَتْ عَلَيْهِمُ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَيْهِمْ أَنفُسُهُمْ وَظَنُّوا أَن لَّا مَلْجَأَ مِنَ اللَّـهِ إِلَّا إِلَيْهِ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ لِيَتُوبُوا ۚ إِنَّ اللَّـهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ) (التوبة۔118) اور اللہ نے ان تین آدمیوں کی توبہ قبول فرما لی۔ جن کا معاملہ موخر کیا گیا تھا۔ یہا ں تک کہ جب زمین باوجود اپنی کشادگی کے ان پر تنگ ہوگئی۔ اورخود ان کی جان بھی ان پر تنگ ہوگئی۔ اور انہوں نے یقین کرلیا کہ اللہ کے سوائے ان کےلئے کوئی جائے پناہ نہیں ہے۔ پھر اللہ نے ان پر رجوع فرمایا تاکہ وہ توبہ کرلیں۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والا بہت مہربان ہے۔
2۔ جو شخص خوشخبری پہنچائے اسے ہدیہ دینا مستحب ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
کعب بن مالک ؓ کہتے ہیں نبی اکرم ﷺ جب سفر سے آتے تو پہلے مسجد میں جاتے اور اس میں دو رکعت نماز پڑھتے، پھر لوگوں سے ملاقات کے لیے بیٹھتے (اس کے بعد ابن السرح نے پوری حدیث بیان کی، اس میں ہے کہ) رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو ہم تینوں۱؎ سے بات کرنے سے منع فرما دیا، یہاں تک کہ مجھ پر جب ایک لمبا عرصہ گزر گیا تو میں اپنے چچا زاد بھائی ابوقتادہ ؓ کے باغ میں دیوار پھاند کر گیا، میں نے ان کو سلام کیا، اللہ کی قسم انہوں نے جواب تک نہیں دیا، پھر میں نے اپنے گھر کی چھت پر پچاسویں دن کی نماز فجر پڑھی تو ایک پکارنے والے کی آواز سنی جو پکار رہا تھا: کعب بن مالک! خوش ہو جاؤ، پھر جب وہ شخص جس کی آواز میں نے سنی تھی میرے پاس آیا، تو میں نے اپنے دونوں کپڑے اتار کر اس کو پہنا دیئے، اور میں مسجد نبوی کی طرف چل پڑا، رسول اللہ ﷺ وہاں تشریف فرما تھے، مجھ کو دیکھ کر طلحہ بن عبیداللہ ؓ اٹھ کھڑے ہوئے اور دوڑ کر مجھ سے مصافحہ کیا اور مجھے مبارکباد دی۲؎۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: ہم تینوں سے مراد کعب بن مالک، ہلال بن امیہ اور مرارہ بن ربیع رضی اللہ عنہم ہیں، یہ لوگ بغیر کسی عذر شرعی کے غزوہ تبوک میں نہیں گئے، جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ سے واپس آئے تو ان لوگوں نے خدمت اقدس میں حاضر ہو کر صاف صاف کہہ دیا کہ اللہ کے رسول ہمارے پاس کوئی عذر نہیں تھا، محض سستی کی وجہ سے ہم لوگ اس غزوہ میں شریک نہیں ہوئے، اسی بناء پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم صادر فرمایا تھا کہ ان تینوں سے کوئی بات نہ کرے۔
۲؎: یہ توبہ قبول ہونے کی مبارکبادی تھی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Ka’ab bin Malik said “When the Prophet (ﷺ) arrived from a journey, he first went to a mosque where he prayed two rak’ahs after which he sat in it and gave audience to the people. The narrator Ibn Al Sarh then narrated the rest of the tradition. He said “The Apostle of Allah (ﷺ) forbade the Muslims to speak to any three of us. When considerable time had passed on me, I ascended the wall of Abu Qatadah who was my cousin. I saluted him, but, I swear by Allah he did not return my salutation. I then offered the dawn prayer on the fiftieth day on the roof of one of our houses. I then hear d a crier say “Ka’ab bin Mailk, have good news”. When the man whose voice I heard came to me giving me good news, I took off my garments and clothed him. I went on till I entered the mosque. The Apostle of Allah (ﷺ) was sitting there. Talhah bin ‘Ubaid Allah stood up and hastened to me till he shook hands with me and greeted me.