Abu-Daud:
Sacrifice (Kitab Al-Dahaya)
(Chapter: What Is Allowed Regarding Age For The Udhiyyah (Sacrifice))
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2797.
سیدنا جابر ؓ سے منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”صرف دو دانتا جانور ہی ذبح کرو، سوائے اس کے کہ تمہارے لیے بہت مشکل ہو جائے تو بھیڑ کا جذع ذبح کر سکتے ہو۔“
تشریح:
مذکورہ بالاحدیث سے واضح ہوتا ہے کہ آپﷺ نے امت کو مسنہ دو دانتا جانور بطور قربانی ذبح کرنے کا حکم دیا۔ اور وقت اور دشواری کی صورت میں جزع قربانی کرنے کی رخصت عنایت فرمائی، لیکن دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ عام حالات میں بھی جبکہ (مسنہ) دو دانتا جانور ملنا مشکل اور دشوار نہ ہو تو جذع بطور قربانی کیا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہﷺ کے ساتھ بھیڑ کا جذع قربانی کیا۔ (سنن النسائي، الضحایا، باب المسنة و الجذعة، حدیث:4387) او سنن ابی دائود میں عاصم بن کلیب اپنے والد سے بیان کرتے ہیں۔ کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ایک صحابی کے ساتھ تھے۔ جن کا نام مجاشع تھا قربانی کے لئے بکریاں تقسیم کی گئیں تو کم ہوگئیں۔ پس انہوں نے ایک منادی کرانے والے کو حکم دیا۔ کہ وہ اعلان کردے کہ رسول للہ ﷺ فرمایا کرتے تھے۔ بلاشبہ جذع (ایک سالہ) مثنی (دو دانتے) کی جگہ کفایت کرتا جاتا ہے۔ (سنن أبي داود، الضحایا، باب مایجوز في الضحایا من السنن، حدیث: 2799) اور اسی طرح ام بلال رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں۔ کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا! بھیڑ کے جزع کی قربانی کرو۔ اس لئے کہ اس کی قربانی جائز ہے۔ (مسند أحمد:368/6) مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوا کہ عام حالات میں بھی بھیڑ کا جزع قربانی کیا جا سکتا ہے، البتہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت کی رو سے مسنہ (دو دانتا) جانور قربانی کرنا افضل ہے۔ جیسا کہ حافظ ابن حجر اس کی بابت فتح الباری میں فرماتے ہیں۔ امام نووی نے جمہور علماء سے نقل کیا کہ انھوں نے اس حدیث کو افضلیت پرمحمول کیا ہے۔ (فتح الباري: 20/10) (جذع) یہ صرف بھیڑ (دنبہ چھتر) میں جائز ہے۔ دیگر جانوروں کے بچوں کو اس عمر میں قربانی کرنا جائز نہیں۔ رسول اللہﷺ نے چند ایک صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کو مجبوری کی صورت میں رخصت اور اجازت مرحمت فرمائی اور ساتھ یہ ارشاد فرمایا۔ تیرے بعد کسی اور کے لئے ایسا کرنا درست نہیں۔ (صحیح البخاري، الأضاحي، حدیث: 5556) اور یہ بھی احتمال ہے کہ شروع میں دونوں قسم کا جذع جائز ہو بعد میں بکری کے جذع کی قربانی کرنے سے منع کردیا ہو۔ بھیڑ (دنبہ۔ چھترا) کا جذع بطور قربانی کیا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ مذکورہ بالا دلائل سے واضح ہے۔ لیکن اس کی عمر کتنی ہو اس بارے میں اختلاف ہے۔ بعض نے ایک سال مدت بتلائی ہے۔ بعض نے چھ ماہ بعض نے سات ماہ۔ امام نووی اس کی بابت فرماتے ہیں۔ جزع کی عمر کے بارے میں سب سے راحج قول یہ ہے کہ اس کی عمر مکمل ایک سال ہو۔ (کتاب المجموع:365/8) حافظ ابن حجر اس کی بابت یوں فرماتے ہیں۔ جمہور کے قول کے مطابق بھیڑ (دنبہ چھترا) کا جزع وہ ہے۔ جس کی عمر کا ایک سال مکمل ہوچکا ہو۔ (فتح الباري: 21/10) لہذا جو حضرات بھیڑ (دنبہ۔ چھترا) کی قربانی چاہتے ہوں۔ وہ اس بات کو ضرور مد نظر رکھیں۔ کہ اس کی عمر کم از کم ایک سال ہو۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده ضعيف؛ لعنعنة أبي الزبير، فإنه كان مدلساً مكْثِراً منه) . إسناده: حدثنا أحمد بن أبي شعيْبٍ الحرّانيُّ: ثنا زهير بن معاوية: ثنا أبو الزبير...
قلت: وهذا إسناد ضعيف- وإن كان على شرط مسلم؛ إلا الحراني، فإنه من رجال البخاري وقد توبع-؛ فإن أبا الزبير مدلس، وقد أورده الحافظ في المرتبة الثالثة من رسالته طبقات المدلسين - وهي طبقة من أكثر من التدليس؛ فلم يحتج الأئمة من أحاديثهم إلا بما صرحوا فيه بالسماع-؛ ولذلك قال الذهبي: وفي صحيح مسلم عدة أحاديث لم يُوضِّحْ فيها أبو الزبير السماع من جابر، ولا هي من طريق الليث عنه؛ ففي القلب منها شيء .
قلت: وهذا منها، فقد أخرجه مسلم وأبو عوانة وغيرهما- في نحو عشرة من الأئمة المخرجين- من طرق عن زهير عن أبي الزبير... به معنعاً. بل رواه أبو يعلى من طريق أخرى عنه معنعناً أيضاً، ليس في شيء منها تصريح أبي الزبير بالتحديث لتزول شبهة التدليس. وقد فصلْتُ القول في هذه الشبهة في الأحاديث الضعيفة تحت الحديث (65) . ثم خرجت الحديث عن الأئمة المشار إليهم في الإرواء (1145) ؛ فتصحيح الحديث- والحالة هذه؛ كما فعل الحافظ في الفتح (10/15) !- ينافي القواعد العلمية، ولا سيما وهو مخالف لبعض الأحاديث الصحيحة؛ كما بينته في المصدرين المذكورين آنفاً، وتأويله بحمله على الأفضلية ينافيه قوله فيه: ... إلا أن يعْسُر عليكم... . ولذلك بوّب له أبو عوانة ب: باب وجوب الأضحية بالمُسِنة ! على أن التأويل فرع التصحيح، وهذا منفي! واللّه أعلم. نعم؛ قد قال أبو عوانة عقب الحديث (5/228) : رواه محمد بن بكر عن ابن جريج: حدثني أبو الزبير: أنه يسمع جابرا يقول... وذكر الحديث . وهذا- كما ترى- معلق؛ لم يسق أبو عوانة إسناده ليُنْظر فيه، ولا يخفى على العارفين بهذا العلم الشريف أن (الحديث المعلق) من أقسام الحديث الضعيف لانقطاعه. فلعل في هذا تذكيراً بعض الطلبة الذين انتقدوا تضعيفي للحديث في السلسلة . والله ولي التوفيق.
(الضَّحَايَا)ضَحِيَّةٌ(اَلْا ضَاحِى)اُضْحِيَّة كى جمع اور(اَلْاضَحى ) اَضْحَاةٌ کی جمع ہے۔اس سے مراد وہ جانور ہے جو ماہ ذوالحجہ کی دسویں تاریخ یا ایام تشریق میں عید کی مناسبت سے اللہ تعالیٰ کے تقرب کے لیے ذبح کیا جاتا ہے۔ اس عمل کی مشروعیت قرآن مجید سے ثابت ہے ‘فرمایا(فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ)(الکوثر:2)’’اپنے رب کے لیے نماز پڑھیے اور قربانی کیجئے۔‘(وَالْبُدْنَ جَعَلْنَاهَا لَكُمْ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ لَكُمْ فِيهَا خَيْرٌ)(الحج :36) قربانی کے اونٹ ہم نے تمہارے لیے اللہ کی نشانیوں میں سے بنائے ہیں ‘ان میں تمہارا نفع ہے۔‘‘رسول اللہﷺ کے قول و عمل سے اس کی تصدیق ہوتی ہے اور ابتدا ہی سے مسلمان اس پر کار بند اور اس کے مسنون ہونے کے قائل ہیں اس مقصد کے لیے اونٹ ‘گائے‘بکری اور بھیڑ نر و مادہ کو ذبح کیا جاسکتا ہے ۔کوئی دوسرا جانور اس میں کار آمد نہیں ہوتا۔فرمایا(لِيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَى مَا رَزَقَهُمْ مِنْ بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ)(الحج:34) ’’تا کہ وہ ان چوپائے جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انہیں دے رکھے ہیں قربانی کا حکم یکم ہجری کو ہوا۔ لہذانبی ﷺ نے خود بھی قربانی کی اور امت کو بھی اس کا حکم دیا۔ حضرت انس فرماتے ہیں کہ نبئ اکرمﷺ نے دو سینگوں والے چتکبرے مینڈے ذبح کیے۔(صحیح البخاری‘الاضاحی‘حدیث:5554)
٭حکمت قربانی:قربانی میں متعدد حکمتیں پنہاں ہیں ‘ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں :
٭اللہ تعالیٰ کے قرب اور خوشنودی کا حصول ‘مومنوں کو حکم دیتے ہوئے فرمایا ہے(قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ)(الانعام:162) کہہ دیجیئے ! بے شک میری نماز‘ میری قربانی ‘میرا مرنا اور جینا اللہ ہی کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے۔‘‘
٭جد انبیاء ابراہیم کی سنت کی یاد تازہ کی جاتی ہے۔
٭اللہ تعالیٰ نے بے شمار جانور ہمارے فائدہ کے لیے پیدا فرمائے ہیں ‘ انہی جانوروں میں سے چند ایک کی قربانی کر کے اس نعمت کا شکر ادا کیا جاتا ہے۔
٭قربانی کے آداب:قربانی کرنے والے کے لیے درج ذیل آداب ومسائل کو مد نظر رکھنا ضروری ہے:
(1) قربانی کا جانور مسنہ (دو دانتا) ہونا ضروری ہے ‘ تاہم بعض کے نزدیک افضل ہے۔
(2) جانور کو خصی کروانا تا کہ وہ خوب صحت مند ہو جائے ‘جائز ہے ۔اور اس کی قربانی بھی جائز ہے۔
(3) قربانی قرب الہی کے حصول کا ذریعہ ہے لہذا قربانی میں ردی ‘ نہایت کمزورلاغر‘بیمار‘لنگڑالولا‘کانا یا کوئی اور عیب زدہ جانور ذبح کرنا درست نہیں۔
(4) عید کے روز قربانی نماز کی ادائیگی کے بعد کی جائے گی ورنہ قربانی نہیں ہو گی ‘البتہ ایام تشریق میں رات اور دن کے کسی بھی حصے میں قربانی کی جا سکتی ہے۔
سیدنا جابر ؓ سے منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ”صرف دو دانتا جانور ہی ذبح کرو، سوائے اس کے کہ تمہارے لیے بہت مشکل ہو جائے تو بھیڑ کا جذع ذبح کر سکتے ہو۔“
حدیث حاشیہ:
مذکورہ بالاحدیث سے واضح ہوتا ہے کہ آپﷺ نے امت کو مسنہ دو دانتا جانور بطور قربانی ذبح کرنے کا حکم دیا۔ اور وقت اور دشواری کی صورت میں جزع قربانی کرنے کی رخصت عنایت فرمائی، لیکن دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ عام حالات میں بھی جبکہ (مسنہ) دو دانتا جانور ملنا مشکل اور دشوار نہ ہو تو جذع بطور قربانی کیا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہﷺ کے ساتھ بھیڑ کا جذع قربانی کیا۔ (سنن النسائي، الضحایا، باب المسنة و الجذعة، حدیث:4387) او سنن ابی دائود میں عاصم بن کلیب اپنے والد سے بیان کرتے ہیں۔ کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ایک صحابی کے ساتھ تھے۔ جن کا نام مجاشع تھا قربانی کے لئے بکریاں تقسیم کی گئیں تو کم ہوگئیں۔ پس انہوں نے ایک منادی کرانے والے کو حکم دیا۔ کہ وہ اعلان کردے کہ رسول للہ ﷺ فرمایا کرتے تھے۔ بلاشبہ جذع (ایک سالہ) مثنی (دو دانتے) کی جگہ کفایت کرتا جاتا ہے۔ (سنن أبي داود، الضحایا، باب مایجوز في الضحایا من السنن، حدیث: 2799) اور اسی طرح ام بلال رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں۔ کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا! بھیڑ کے جزع کی قربانی کرو۔ اس لئے کہ اس کی قربانی جائز ہے۔ (مسند أحمد:368/6) مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوا کہ عام حالات میں بھی بھیڑ کا جزع قربانی کیا جا سکتا ہے، البتہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت کی رو سے مسنہ (دو دانتا) جانور قربانی کرنا افضل ہے۔ جیسا کہ حافظ ابن حجر اس کی بابت فتح الباری میں فرماتے ہیں۔ امام نووی نے جمہور علماء سے نقل کیا کہ انھوں نے اس حدیث کو افضلیت پرمحمول کیا ہے۔ (فتح الباري: 20/10) (جذع) یہ صرف بھیڑ (دنبہ چھتر) میں جائز ہے۔ دیگر جانوروں کے بچوں کو اس عمر میں قربانی کرنا جائز نہیں۔ رسول اللہﷺ نے چند ایک صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کو مجبوری کی صورت میں رخصت اور اجازت مرحمت فرمائی اور ساتھ یہ ارشاد فرمایا۔ تیرے بعد کسی اور کے لئے ایسا کرنا درست نہیں۔ (صحیح البخاري، الأضاحي، حدیث: 5556) اور یہ بھی احتمال ہے کہ شروع میں دونوں قسم کا جذع جائز ہو بعد میں بکری کے جذع کی قربانی کرنے سے منع کردیا ہو۔ بھیڑ (دنبہ۔ چھترا) کا جذع بطور قربانی کیا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ مذکورہ بالا دلائل سے واضح ہے۔ لیکن اس کی عمر کتنی ہو اس بارے میں اختلاف ہے۔ بعض نے ایک سال مدت بتلائی ہے۔ بعض نے چھ ماہ بعض نے سات ماہ۔ امام نووی اس کی بابت فرماتے ہیں۔ جزع کی عمر کے بارے میں سب سے راحج قول یہ ہے کہ اس کی عمر مکمل ایک سال ہو۔ (کتاب المجموع:365/8) حافظ ابن حجر اس کی بابت یوں فرماتے ہیں۔ جمہور کے قول کے مطابق بھیڑ (دنبہ چھترا) کا جزع وہ ہے۔ جس کی عمر کا ایک سال مکمل ہوچکا ہو۔ (فتح الباري: 21/10) لہذا جو حضرات بھیڑ (دنبہ۔ چھترا) کی قربانی چاہتے ہوں۔ وہ اس بات کو ضرور مد نظر رکھیں۔ کہ اس کی عمر کم از کم ایک سال ہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
جابر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”صرف مسنہ۱؎ ہی ذبح کرو، مسنہ نہ پاؤ تو بھیڑ کا جذعہ ذبح کرو۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎: مسنہ وہ جانور جس کے دودھ کے دانت ٹوٹ چکے ہوں، یہ اونٹ میں عموماً اس وقت ہوتا ہے، جب وہ پانچ برس پورے کر کے چھٹے میں داخل ہو گیا ہے، گائے بیل اور بھینس جب وہ دو برس پورے کرکے تیسرے میں داخل ہو جائیں، بکری اور بھیڑ میں جب ایک برس پورا کرکے دوسرے میں داخل ہو جائیں، جذعہ اس دنبہ یا بھیڑ کو کہتے ہیں جو سال بھر کا ہو چکا ہو، اہل لغت اور شارحین میں محققین کا یہی قول صحیح ہے۔ (دیکھئے مرعاۃ شرح مشکاۃ)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jabir (RA): The Messenger of Allah (ﷺ) as saying: Sacrifice only a full-grown animal unless it is difficult for you, in which case sacrifice a lamb.