Abu-Daud:
Sacrifice (Kitab Al-Dahaya)
(Chapter: What Is Disliked For Udhiyyah)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2805.
سیدنا علی ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ایسی قربانی کرنے سے منع فرمایا ہے، جس کا کان یا سینگ جڑ سے کٹ گیا ہو یا ٹوٹ گیا ہو۔ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں کہ جری بن کلی، سدوسی ہے، بصرہ کا رہنے والا ہے، اس سے قتادہ ؓ کے سوا اور کسی نے حدیث نہیں لی۔
تشریح:
عضباء یا عضب کے ایک معنی یہی ہیں۔ کہ سینگ کا اندرونی حصہ ٹوٹ گیا ہو۔ اور دوسرے معنی وہ ہیں۔ جو درج ذیل روایت میں ہیں۔ یعنی آدھا سینگ ٹوٹا ہوا ہو یا زیادہ۔
الحکم التفصیلی:
قلت: كأنه يشير إلى جهالة جُري. وقد صرح بذلك ابن المديني فقال: مجهول ، وخالفه حجية بن عدِي، فروى عن علي رضي الله عنه أنه لا بأس بمكسورة القرْن. وهذا عندي أصح) .إسناده: حدثنا مسلم بن إبراهيم: ثنا هشيم (*) عن قتادة عن جري بنكليْب...
قلت: وهذا إسناد فيه ضعف، رجاله ثقات رجال الشيخين؛ غير جري بن كليْب، فإن فيه جهالة؛ كما أشار المؤلف إلى ذلك بقوله عقب الحديث: لم يحدِّثْ عنه إلا قتادة . وكأنه تبع في ذلك الإمام ابن المديني؛ فإنه قال:(*) كذا في أصل الشيخ رحمه الله تعالى تبعاً لـ التازية والصواب:... ثنا هشام بن أبي عبد الله الدسْتوائي- ويقال له: هشام بن سنْبر- عن قتاده..؛ كما في الدعاس ،وغيرها.(2/380) مجهول. لا أعلم أحداً روى عنه غير قتادة - كما في الجرح والتعديل (1/1/537) -. وقال عن أبيه: شيخ لا يحتج بحديثه. هو مثل عمارة بن عبد، وهبيرة بن مريم، وحجيةابن عدي وشريح بن عبيد؛ هؤلاء شيوخ لا يحتج بحديثهم .قلت: ليسوا سواءً! فبعضهم ثقة- وقريب منهم حجية؛ كما يأتي-، فلاينبغي أن يؤخذ كلامه إلا بعد النظر في كلام أمثاله من أئمة الجرح والتعديل- كمافعلنا هنا-.ولذلك نقل الذهبي في الكاشف قول أبي حاتم هذا في جُري وأقره. وقالالحافظ فيه: مقبول . يعني: عند المتابعة، ولم يتابع بل قد خولف في القرْن كما يأتي.وأما قول الذهبي في الميزان - متعقباً قول أبي حاتم والمؤلف-: قلت: قد أثنى عليه قتادة .ففيه نظر عندي؛ لأنه لم يثبت عن قتاده! فإن في الطريق إهعند البخاري في التاريخ (1/2 (*)
(الضَّحَايَا)ضَحِيَّةٌ(اَلْا ضَاحِى)اُضْحِيَّة كى جمع اور(اَلْاضَحى ) اَضْحَاةٌ کی جمع ہے۔اس سے مراد وہ جانور ہے جو ماہ ذوالحجہ کی دسویں تاریخ یا ایام تشریق میں عید کی مناسبت سے اللہ تعالیٰ کے تقرب کے لیے ذبح کیا جاتا ہے۔ اس عمل کی مشروعیت قرآن مجید سے ثابت ہے ‘فرمایا(فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ)(الکوثر:2)’’اپنے رب کے لیے نماز پڑھیے اور قربانی کیجئے۔‘(وَالْبُدْنَ جَعَلْنَاهَا لَكُمْ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ لَكُمْ فِيهَا خَيْرٌ)(الحج :36) قربانی کے اونٹ ہم نے تمہارے لیے اللہ کی نشانیوں میں سے بنائے ہیں ‘ان میں تمہارا نفع ہے۔‘‘رسول اللہﷺ کے قول و عمل سے اس کی تصدیق ہوتی ہے اور ابتدا ہی سے مسلمان اس پر کار بند اور اس کے مسنون ہونے کے قائل ہیں اس مقصد کے لیے اونٹ ‘گائے‘بکری اور بھیڑ نر و مادہ کو ذبح کیا جاسکتا ہے ۔کوئی دوسرا جانور اس میں کار آمد نہیں ہوتا۔فرمایا(لِيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَى مَا رَزَقَهُمْ مِنْ بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ)(الحج:34) ’’تا کہ وہ ان چوپائے جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انہیں دے رکھے ہیں قربانی کا حکم یکم ہجری کو ہوا۔ لہذانبی ﷺ نے خود بھی قربانی کی اور امت کو بھی اس کا حکم دیا۔ حضرت انس فرماتے ہیں کہ نبئ اکرمﷺ نے دو سینگوں والے چتکبرے مینڈے ذبح کیے۔(صحیح البخاری‘الاضاحی‘حدیث:5554)
٭حکمت قربانی:قربانی میں متعدد حکمتیں پنہاں ہیں ‘ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں :
٭اللہ تعالیٰ کے قرب اور خوشنودی کا حصول ‘مومنوں کو حکم دیتے ہوئے فرمایا ہے(قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ)(الانعام:162) کہہ دیجیئے ! بے شک میری نماز‘ میری قربانی ‘میرا مرنا اور جینا اللہ ہی کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے۔‘‘
٭جد انبیاء ابراہیم کی سنت کی یاد تازہ کی جاتی ہے۔
٭اللہ تعالیٰ نے بے شمار جانور ہمارے فائدہ کے لیے پیدا فرمائے ہیں ‘ انہی جانوروں میں سے چند ایک کی قربانی کر کے اس نعمت کا شکر ادا کیا جاتا ہے۔
٭قربانی کے آداب:قربانی کرنے والے کے لیے درج ذیل آداب ومسائل کو مد نظر رکھنا ضروری ہے:
(1) قربانی کا جانور مسنہ (دو دانتا) ہونا ضروری ہے ‘ تاہم بعض کے نزدیک افضل ہے۔
(2) جانور کو خصی کروانا تا کہ وہ خوب صحت مند ہو جائے ‘جائز ہے ۔اور اس کی قربانی بھی جائز ہے۔
(3) قربانی قرب الہی کے حصول کا ذریعہ ہے لہذا قربانی میں ردی ‘ نہایت کمزورلاغر‘بیمار‘لنگڑالولا‘کانا یا کوئی اور عیب زدہ جانور ذبح کرنا درست نہیں۔
(4) عید کے روز قربانی نماز کی ادائیگی کے بعد کی جائے گی ورنہ قربانی نہیں ہو گی ‘البتہ ایام تشریق میں رات اور دن کے کسی بھی حصے میں قربانی کی جا سکتی ہے۔
سیدنا علی ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ایسی قربانی کرنے سے منع فرمایا ہے، جس کا کان یا سینگ جڑ سے کٹ گیا ہو یا ٹوٹ گیا ہو۔ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں کہ جری بن کلی، سدوسی ہے، بصرہ کا رہنے والا ہے، اس سے قتادہ ؓ کے سوا اور کسی نے حدیث نہیں لی۔
حدیث حاشیہ:
عضباء یا عضب کے ایک معنی یہی ہیں۔ کہ سینگ کا اندرونی حصہ ٹوٹ گیا ہو۔ اور دوسرے معنی وہ ہیں۔ جو درج ذیل روایت میں ہیں۔ یعنی آدھا سینگ ٹوٹا ہوا ہو یا زیادہ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
علی ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے «عضباء» (یعنی سینگ ٹوٹے کان کٹے جانور) کی قربانی سے منع فرمایا ہے۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Ali ibn Abu Talib (RA): The Prophet (ﷺ) prohibited to sacrifice an animal with a slit ear and broken horn.