باب: جو جانور کہیں گر گیا ہو ‘تو اسکو ذبح کرنے کا طریقہ
)
Abu-Daud:
Sacrifice (Kitab Al-Dahaya)
(Chapter: Regarding Slaughtering The Mutaraddiyah)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2825.
جناب ابوالعشراء اپنے والد سے بیان کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول! کیا جانور کا ذبح کرنا لبہ (نرخرے) سے یا حلق ہی سے ہوتا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اگر تو اس کی ران میں بھی کوئی تیر وغیرہ مار دے تو کافی ہے۔“ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں: یہ صورت صرف اس جانور میں ہے جو کہیں نیچے جا گرا ہو یا وحشی بن گیا ہو۔
تشریح:
روایت سندا اگرچہ ضعیف ہے۔ تاہم اضطراری کیفیت میں جب ذبح کی مہلت نہ ملے۔ اور کہیں سے بھی خون بہہ جائے۔ تو وہ ذبح کے معنی میں ہوگا۔ جیسے کہ شکار میں ہوتا ہے
الحکم التفصیلی:
قلت: حديث منكر، وإسناد مجهول؛ أبو العشراء لا يُدرى من هو، ولامن أبوه. قال الخطابي والمنذر: ضعفوا هذا الحديث؛ لأن راويه مجهول،وأبو العُشراء لا يُدرى من أبوه، ولم يرو عنه غير حماد بن سلمة . واستغربه الترمذي) .إسناده: حدثنا أحمد بن يونس: ثنا حماد بن سلمة عن أبي العشراء.قلت: وهذا إسناد ضعيف؛ أبو العشراء لا يُدرى من هو، ولا من أبوه؛ كماقال الذهبي في الميزان ، وهو معنى ما نقلته أعلاه عن الخطابي في معالمه ،والمنذري في مختصره .والحديث رواه بقية أصحاب السنن وغيرهم، وقد خرجته في إرواء الغليل (2535)
(الضَّحَايَا)ضَحِيَّةٌ(اَلْا ضَاحِى)اُضْحِيَّة كى جمع اور(اَلْاضَحى ) اَضْحَاةٌ کی جمع ہے۔اس سے مراد وہ جانور ہے جو ماہ ذوالحجہ کی دسویں تاریخ یا ایام تشریق میں عید کی مناسبت سے اللہ تعالیٰ کے تقرب کے لیے ذبح کیا جاتا ہے۔ اس عمل کی مشروعیت قرآن مجید سے ثابت ہے ‘فرمایا(فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ)(الکوثر:2)’’اپنے رب کے لیے نماز پڑھیے اور قربانی کیجئے۔‘(وَالْبُدْنَ جَعَلْنَاهَا لَكُمْ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ لَكُمْ فِيهَا خَيْرٌ)(الحج :36) قربانی کے اونٹ ہم نے تمہارے لیے اللہ کی نشانیوں میں سے بنائے ہیں ‘ان میں تمہارا نفع ہے۔‘‘رسول اللہﷺ کے قول و عمل سے اس کی تصدیق ہوتی ہے اور ابتدا ہی سے مسلمان اس پر کار بند اور اس کے مسنون ہونے کے قائل ہیں اس مقصد کے لیے اونٹ ‘گائے‘بکری اور بھیڑ نر و مادہ کو ذبح کیا جاسکتا ہے ۔کوئی دوسرا جانور اس میں کار آمد نہیں ہوتا۔فرمایا(لِيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَى مَا رَزَقَهُمْ مِنْ بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ)(الحج:34) ’’تا کہ وہ ان چوپائے جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انہیں دے رکھے ہیں قربانی کا حکم یکم ہجری کو ہوا۔ لہذانبی ﷺ نے خود بھی قربانی کی اور امت کو بھی اس کا حکم دیا۔ حضرت انس فرماتے ہیں کہ نبئ اکرمﷺ نے دو سینگوں والے چتکبرے مینڈے ذبح کیے۔(صحیح البخاری‘الاضاحی‘حدیث:5554)
٭حکمت قربانی:قربانی میں متعدد حکمتیں پنہاں ہیں ‘ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں :
٭اللہ تعالیٰ کے قرب اور خوشنودی کا حصول ‘مومنوں کو حکم دیتے ہوئے فرمایا ہے(قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ)(الانعام:162) کہہ دیجیئے ! بے شک میری نماز‘ میری قربانی ‘میرا مرنا اور جینا اللہ ہی کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے۔‘‘
٭جد انبیاء ابراہیم کی سنت کی یاد تازہ کی جاتی ہے۔
٭اللہ تعالیٰ نے بے شمار جانور ہمارے فائدہ کے لیے پیدا فرمائے ہیں ‘ انہی جانوروں میں سے چند ایک کی قربانی کر کے اس نعمت کا شکر ادا کیا جاتا ہے۔
٭قربانی کے آداب:قربانی کرنے والے کے لیے درج ذیل آداب ومسائل کو مد نظر رکھنا ضروری ہے:
(1) قربانی کا جانور مسنہ (دو دانتا) ہونا ضروری ہے ‘ تاہم بعض کے نزدیک افضل ہے۔
(2) جانور کو خصی کروانا تا کہ وہ خوب صحت مند ہو جائے ‘جائز ہے ۔اور اس کی قربانی بھی جائز ہے۔
(3) قربانی قرب الہی کے حصول کا ذریعہ ہے لہذا قربانی میں ردی ‘ نہایت کمزورلاغر‘بیمار‘لنگڑالولا‘کانا یا کوئی اور عیب زدہ جانور ذبح کرنا درست نہیں۔
(4) عید کے روز قربانی نماز کی ادائیگی کے بعد کی جائے گی ورنہ قربانی نہیں ہو گی ‘البتہ ایام تشریق میں رات اور دن کے کسی بھی حصے میں قربانی کی جا سکتی ہے۔
جناب ابوالعشراء اپنے والد سے بیان کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول! کیا جانور کا ذبح کرنا لبہ (نرخرے) سے یا حلق ہی سے ہوتا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اگر تو اس کی ران میں بھی کوئی تیر وغیرہ مار دے تو کافی ہے۔“ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں: یہ صورت صرف اس جانور میں ہے جو کہیں نیچے جا گرا ہو یا وحشی بن گیا ہو۔
حدیث حاشیہ:
روایت سندا اگرچہ ضعیف ہے۔ تاہم اضطراری کیفیت میں جب ذبح کی مہلت نہ ملے۔ اور کہیں سے بھی خون بہہ جائے۔ تو وہ ذبح کے معنی میں ہوگا۔ جیسے کہ شکار میں ہوتا ہے
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوالعشراء اسامہ کے والد مالک بن قہطم ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا ذبح سینے اور حلق ہی میں ہوتا ہے اور کہیں نہیں ہوتا؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اگر تم اس کے ران میں نیزہ مار دو تو وہ بھی کافی ہے۔“ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ «متردی»۱؎ اور «متوحش»۲؎ کے ذبح کا طریقہ ہے۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: یعنی جو جانور گر پڑے اور ذبح کی مہلت نہ ملے۔ ۲؎: ایسا جنگلی جانور جو بھاگ نکلے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abul 'Ushara' (Usamah ibn Malik?): Abul 'Ushara' reported on the authority of his father: He asked: Apostle of Allah (ﷺ), is the slaughtering to be done only in the upper part of the breast and the throat? The Apostle of Allah (ﷺ) replied: If you pierced its thigh, it would serve you.