Abu-Daud:
Sacrifice (Kitab Al-Dahaya)
(Chapter: Regarding Exaggeration When Slaughtering)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2826.
سیدنا ابن عباس اور سیدنا ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے شیطان کے ذبیحہ سے منع فرمایا ہے۔ امام ابن عیسیٰ نے اپنی حدیث میں یہ اضافہ نقل کیا ہے (شیطان کے ذبیحہ سے مراد یہ ہے کہ) ذبیحہ کی کھال کاٹ دی جائے مگر رگیں نہ کاٹی جائیں اور پھر اسے یونہی چھوڑ دیا جائے حتیٰ کہ مر جائے۔ امام ابوداؤد ؓ کہتے ہیں: عمرو بن عبداللہ کو عمرو برق کہا جاتا ہے، عکرمہ اس کے والد کے ہاں یمن میں مہمان ٹھہرے تھے۔ اور معمر جب اس سے روایت کرتے ہیں تو وہ عمرو بن عبداللہ کہتے ہیں اور جب اہل یمن روایت کرتے ہیں تو اس کا نام ذکر نہیں کرتے۔
تشریح:
1۔ سندا روایت ضعیف ہے۔ لیکن مسئلہ اس طرح ہے کہ اس کا جانور حلال نہ ہوگا۔ 2۔ حضرت شداد بن اوسرضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں۔ کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے دو باتیں یاد کیں۔ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے ہر چیز پر احسان کرنا فرض قرار دیا ہے۔ لہذا جب تم قتل کرو تو اچھے طریقے سے کرو۔ اور جب تم کسی جانور کو ذبح کرو تو عمدہ طریقے سے ذبح کرو، ذبح کرنے والے ہر شخص کو چاہیے کہ اپنی چھری تیز کرے۔ اور اپنے ذبیحہ کو آرام پہنچائے۔ (صحیح مسلم الصید والذبائع باب الامر باحسان الذبح والقتل وتحدید الشفرۃ حدیث 1955) علاوہ ازیں رسول اللہ ﷺ خود بھی ذبح کرنے سے قبل چھری کو تیز کرنے کا اہتمام فرماتے تھے۔ حدیث کے الفاظ نهی رسول الله صلي الله عليه وسلم عن شريطةِ الشيطانِ رسول اللہ ﷺ نے شیطان کے ذبیحہ سے منع فرمایا ہے۔ میں مذکور ذبیحہ جانور سے مراد ایسا جانور ہے۔ جس کا ذبح کرتے وقت زرا سا حلق کاٹ دیا۔ پوری رگیں نہ کاٹیں اور وہ تڑپ تڑپ کر مر گیا۔ جاہلیت کے زمانے میں مشرک ایسا ہی کرتے۔ چونکہ شیطان نے ان کو بھڑکایا تھا۔ اس لئے ایسے ذبیحہ کو شیطا ن کا ذبیحہ فرمایا۔ اور اس کے ایک معنی ابن عیسیٰ نے بھی بیان فرمائے ہیں۔ جو کہ حدیث میں مذکور ہیں۔
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده ضعيف؛ لأن عمْراً هذا- قال الذهبي:- ضُعِّف ) .
(2/383)
إسناده: حدثنا هنّاد بن السًرِي والحسن بن عيسى- مولى ابن المبارك- عن
ابن المبارك عن معمر عن عمرو بن عبد الله.
قلت: وهذا إسناد ضعيف، رجاله كلهم ثقات رجال مسلم؛ غير عمرو بن
عبد الله- وهو: ابن الأسوار اليماني-، وقد ضعف؛ كما قال الذهبي في
الكاشف ، ولم يوثقه من المشهورين أحد سوى ابن حبان! وقال الحافظ:
صدوق لين . وبه أعله المنذري؛ فقال:
وقد تكلم فيه غير واحد .
والحديث أخرجه البيهقي (9/278) من طريق المؤلف.
وأخرجه هو وغيره من طرق أخرى عن ابن المبارك... به.
وهو مخرج في الإرواء (2531)
(الضَّحَايَا)ضَحِيَّةٌ(اَلْا ضَاحِى)اُضْحِيَّة كى جمع اور(اَلْاضَحى ) اَضْحَاةٌ کی جمع ہے۔اس سے مراد وہ جانور ہے جو ماہ ذوالحجہ کی دسویں تاریخ یا ایام تشریق میں عید کی مناسبت سے اللہ تعالیٰ کے تقرب کے لیے ذبح کیا جاتا ہے۔ اس عمل کی مشروعیت قرآن مجید سے ثابت ہے ‘فرمایا(فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ)(الکوثر:2)’’اپنے رب کے لیے نماز پڑھیے اور قربانی کیجئے۔‘(وَالْبُدْنَ جَعَلْنَاهَا لَكُمْ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ لَكُمْ فِيهَا خَيْرٌ)(الحج :36) قربانی کے اونٹ ہم نے تمہارے لیے اللہ کی نشانیوں میں سے بنائے ہیں ‘ان میں تمہارا نفع ہے۔‘‘رسول اللہﷺ کے قول و عمل سے اس کی تصدیق ہوتی ہے اور ابتدا ہی سے مسلمان اس پر کار بند اور اس کے مسنون ہونے کے قائل ہیں اس مقصد کے لیے اونٹ ‘گائے‘بکری اور بھیڑ نر و مادہ کو ذبح کیا جاسکتا ہے ۔کوئی دوسرا جانور اس میں کار آمد نہیں ہوتا۔فرمایا(لِيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَى مَا رَزَقَهُمْ مِنْ بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ)(الحج:34) ’’تا کہ وہ ان چوپائے جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انہیں دے رکھے ہیں قربانی کا حکم یکم ہجری کو ہوا۔ لہذانبی ﷺ نے خود بھی قربانی کی اور امت کو بھی اس کا حکم دیا۔ حضرت انس فرماتے ہیں کہ نبئ اکرمﷺ نے دو سینگوں والے چتکبرے مینڈے ذبح کیے۔(صحیح البخاری‘الاضاحی‘حدیث:5554)
٭حکمت قربانی:قربانی میں متعدد حکمتیں پنہاں ہیں ‘ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں :
٭اللہ تعالیٰ کے قرب اور خوشنودی کا حصول ‘مومنوں کو حکم دیتے ہوئے فرمایا ہے(قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ)(الانعام:162) کہہ دیجیئے ! بے شک میری نماز‘ میری قربانی ‘میرا مرنا اور جینا اللہ ہی کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے۔‘‘
٭جد انبیاء ابراہیم کی سنت کی یاد تازہ کی جاتی ہے۔
٭اللہ تعالیٰ نے بے شمار جانور ہمارے فائدہ کے لیے پیدا فرمائے ہیں ‘ انہی جانوروں میں سے چند ایک کی قربانی کر کے اس نعمت کا شکر ادا کیا جاتا ہے۔
٭قربانی کے آداب:قربانی کرنے والے کے لیے درج ذیل آداب ومسائل کو مد نظر رکھنا ضروری ہے:
(1) قربانی کا جانور مسنہ (دو دانتا) ہونا ضروری ہے ‘ تاہم بعض کے نزدیک افضل ہے۔
(2) جانور کو خصی کروانا تا کہ وہ خوب صحت مند ہو جائے ‘جائز ہے ۔اور اس کی قربانی بھی جائز ہے۔
(3) قربانی قرب الہی کے حصول کا ذریعہ ہے لہذا قربانی میں ردی ‘ نہایت کمزورلاغر‘بیمار‘لنگڑالولا‘کانا یا کوئی اور عیب زدہ جانور ذبح کرنا درست نہیں۔
(4) عید کے روز قربانی نماز کی ادائیگی کے بعد کی جائے گی ورنہ قربانی نہیں ہو گی ‘البتہ ایام تشریق میں رات اور دن کے کسی بھی حصے میں قربانی کی جا سکتی ہے۔
سیدنا ابن عباس اور سیدنا ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے شیطان کے ذبیحہ سے منع فرمایا ہے۔ امام ابن عیسیٰ نے اپنی حدیث میں یہ اضافہ نقل کیا ہے (شیطان کے ذبیحہ سے مراد یہ ہے کہ) ذبیحہ کی کھال کاٹ دی جائے مگر رگیں نہ کاٹی جائیں اور پھر اسے یونہی چھوڑ دیا جائے حتیٰ کہ مر جائے۔ امام ابوداؤد ؓ کہتے ہیں: عمرو بن عبداللہ کو عمرو برق کہا جاتا ہے، عکرمہ اس کے والد کے ہاں یمن میں مہمان ٹھہرے تھے۔ اور معمر جب اس سے روایت کرتے ہیں تو وہ عمرو بن عبداللہ کہتے ہیں اور جب اہل یمن روایت کرتے ہیں تو اس کا نام ذکر نہیں کرتے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ سندا روایت ضعیف ہے۔ لیکن مسئلہ اس طرح ہے کہ اس کا جانور حلال نہ ہوگا۔ 2۔ حضرت شداد بن اوسرضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں۔ کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے دو باتیں یاد کیں۔ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے ہر چیز پر احسان کرنا فرض قرار دیا ہے۔ لہذا جب تم قتل کرو تو اچھے طریقے سے کرو۔ اور جب تم کسی جانور کو ذبح کرو تو عمدہ طریقے سے ذبح کرو، ذبح کرنے والے ہر شخص کو چاہیے کہ اپنی چھری تیز کرے۔ اور اپنے ذبیحہ کو آرام پہنچائے۔ (صحیح مسلم الصید والذبائع باب الامر باحسان الذبح والقتل وتحدید الشفرۃ حدیث 1955) علاوہ ازیں رسول اللہ ﷺ خود بھی ذبح کرنے سے قبل چھری کو تیز کرنے کا اہتمام فرماتے تھے۔ حدیث کے الفاظ نهی رسول الله صلي الله عليه وسلم عن شريطةِ الشيطانِ رسول اللہ ﷺ نے شیطان کے ذبیحہ سے منع فرمایا ہے۔ میں مذکور ذبیحہ جانور سے مراد ایسا جانور ہے۔ جس کا ذبح کرتے وقت زرا سا حلق کاٹ دیا۔ پوری رگیں نہ کاٹیں اور وہ تڑپ تڑپ کر مر گیا۔ جاہلیت کے زمانے میں مشرک ایسا ہی کرتے۔ چونکہ شیطان نے ان کو بھڑکایا تھا۔ اس لئے ایسے ذبیحہ کو شیطا ن کا ذبیحہ فرمایا۔ اور اس کے ایک معنی ابن عیسیٰ نے بھی بیان فرمائے ہیں۔ جو کہ حدیث میں مذکور ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عباس اور ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے «شريطة الشيطان» سے منع فرمایا ہے۱؎۔ ابن عیسیٰ کی حدیث میں اتنا اضافہ ہے: اور وہ یہ ہے کہ جس جانور کو ذبح کیا جا رہا ہو اس کی کھال تو کاٹ دی جائے لیکن رگیں نہ کاٹی جائیں، پھر اسی طرح اسے چھوڑ دیا جائے یہاں تک کہ وہ (تڑپ تڑپ کر) مر جائے۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : «شریط» کے معنی نشتر مارنے کے ہیں، یہ «شریط» حجامت سے ماخوذ ہے، اسی وجہ سے اسے «شریط» کہا گیا ہے، اور شیطان کی طرف اس کی نسبت اس وجہ سے کی گئی ہے کہ شیطان ہی اسے اس عمل پر اکساتا ہے، اس میں جانور کو تکلیف ہوتی ہے، خون جلدی نہیں نکلتا اور اس کی جان تڑپ تڑپ کر نکلتی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah ibn 'Abbas (RA): Ibn Isa added: ( Ibn 'Abbas (RA)) and Abu Hurayrah said: The Apostle of Allah (ﷺ) forbade the devil's sacrifice. AbuIsa added in his version: This refers to the slaughtered animal whose skin cut off, and is then left to die without its jugular veins being severed.