(الضَّحَايَا)ضَحِيَّةٌ(اَلْا ضَاحِى)اُضْحِيَّة كى جمع اور(اَلْاضَحى ) اَضْحَاةٌ کی جمع ہے۔اس سے مراد وہ جانور ہے جو ماہ ذوالحجہ کی دسویں تاریخ یا ایام تشریق میں عید کی مناسبت سے اللہ تعالیٰ کے تقرب کے لیے ذبح کیا جاتا ہے۔ اس عمل کی مشروعیت قرآن مجید سے ثابت ہے ‘فرمایا(فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ)(الکوثر:2)’’اپنے رب کے لیے نماز پڑھیے اور قربانی کیجئے۔‘(وَالْبُدْنَ جَعَلْنَاهَا لَكُمْ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ لَكُمْ فِيهَا خَيْرٌ)(الحج :36) قربانی کے اونٹ ہم نے تمہارے لیے اللہ کی نشانیوں میں سے بنائے ہیں ‘ان میں تمہارا نفع ہے۔‘‘رسول اللہﷺ کے قول و عمل سے اس کی تصدیق ہوتی ہے اور ابتدا ہی سے مسلمان اس پر کار بند اور اس کے مسنون ہونے کے قائل ہیں اس مقصد کے لیے اونٹ ‘گائے‘بکری اور بھیڑ نر و مادہ کو ذبح کیا جاسکتا ہے ۔کوئی دوسرا جانور اس میں کار آمد نہیں ہوتا۔فرمایا(لِيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَى مَا رَزَقَهُمْ مِنْ بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ)(الحج:34) ’’تا کہ وہ ان چوپائے جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انہیں دے رکھے ہیں قربانی کا حکم یکم ہجری کو ہوا۔ لہذانبی ﷺ نے خود بھی قربانی کی اور امت کو بھی اس کا حکم دیا۔ حضرت انس فرماتے ہیں کہ نبئ اکرمﷺ نے دو سینگوں والے چتکبرے مینڈے ذبح کیے۔(صحیح البخاری‘الاضاحی‘حدیث:5554)
٭حکمت قربانی:قربانی میں متعدد حکمتیں پنہاں ہیں ‘ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں :
٭اللہ تعالیٰ کے قرب اور خوشنودی کا حصول ‘مومنوں کو حکم دیتے ہوئے فرمایا ہے(قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ)(الانعام:162) کہہ دیجیئے ! بے شک میری نماز‘ میری قربانی ‘میرا مرنا اور جینا اللہ ہی کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے۔‘‘
٭جد انبیاء ابراہیم کی سنت کی یاد تازہ کی جاتی ہے۔
٭اللہ تعالیٰ نے بے شمار جانور ہمارے فائدہ کے لیے پیدا فرمائے ہیں ‘ انہی جانوروں میں سے چند ایک کی قربانی کر کے اس نعمت کا شکر ادا کیا جاتا ہے۔
٭قربانی کے آداب:قربانی کرنے والے کے لیے درج ذیل آداب ومسائل کو مد نظر رکھنا ضروری ہے:
(1) قربانی کا جانور مسنہ (دو دانتا) ہونا ضروری ہے ‘ تاہم بعض کے نزدیک افضل ہے۔
(2) جانور کو خصی کروانا تا کہ وہ خوب صحت مند ہو جائے ‘جائز ہے ۔اور اس کی قربانی بھی جائز ہے۔
(3) قربانی قرب الہی کے حصول کا ذریعہ ہے لہذا قربانی میں ردی ‘ نہایت کمزورلاغر‘بیمار‘لنگڑالولا‘کانا یا کوئی اور عیب زدہ جانور ذبح کرنا درست نہیں۔
(4) عید کے روز قربانی نماز کی ادائیگی کے بعد کی جائے گی ورنہ قربانی نہیں ہو گی ‘البتہ ایام تشریق میں رات اور دن کے کسی بھی حصے میں قربانی کی جا سکتی ہے۔
سیدنا ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”نہ «فرع» (واجب) ہے اور نہ «عتيرة»۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”(اسلام میں) نہ «فرع» ہے اور نہ «عتیرہ»۱؎۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎ : «فرع» زمانہ جاہلیت میں جس جانور کا پہلوٹہ بچہ پیدا ہوتا اس کو بتوں کے نام ذبح کرتے تھے، اور ابتدائے اسلام میں مسلمان بھی ایسا اللہ کے واسطے کرتے تھے، پھر کفار سے مشابہت کی بنا پر اسے منسوخ کر دیا گیا، اور اس کام سے منع کر دیا گیا، اور «عتیرہ» رجب کے پہلے عشرہ میں تقرب حاصل کرنے کے لئے زمانہ جاہلیت میں ذبح کرتے تھے، اور اسلام کے ابتداء میں مسلمان بھی ایسا کرتے تھے، کافر اپنے بتوں سے تقرب کے لئے اور مسلمان اللہ تعالی سے تقرب کے لئے کرتے تھے، پھر یہ دونوں منسوخ ہو گئے، اب نہ «فرع» ہے اور نہ «عتیرہ»، بلکہ مسلمانوں کے لئے عیدالاضحی کے روز قربانی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): Prophet (ﷺ) sa saying: There is no fara' and 'atirah.