مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2833.
ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ ہر پچاس بکریوں میں ایک بکری (صدقہ) ہے۔ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں: بعض علماء نے بیان کیا ہے کہ «فرع» سے مراد اونٹوں میں پیدا ہونے والا پہلا بچہ ہوتا تھا، جسے وہ لوگ اپنے بتوں کے نام سے ذبح کرتے تھے، گوشت کھا لیتے اور اس کا چمڑا کسی درخت پر ڈال دیتے تھے۔ اور «عتيرة» اسے کہتے تھے جسے وہ رجب کے پہلے دس دنوں میں ذبح کرتے تھے۔
تشریح:
ابتدائے اسلام میں فرع اور عتیرہ پرعمل ہوتا تھا۔ کہ کفار غیر اللہ کے نام پرکرتے تھے۔ اور مسلمان اللہ کے نام پر مگر بعد میں جب قربانی کا حکم ہوا تو انہیں منسوخ کر دیا گیا۔ یعنی ان کا وجوب 2۔ مجموعی طور پر حدیث سے عمومی صدقہ کے طور پر ان کا استحباب باقی ہے۔ مگر خیال رہے کہ کفار اور جاہلی لوگوں سے مشابہت نہ ہو۔ وہ لوگ غیر اللہ کے نام سے ذبح کرتے ہیں۔ جو سراسر شرک ہے۔ کچھ لوگ خون بہانا لازمی سمجھتے ہیں۔ اور اسے ہی تقرب کا ذریعہ جانتے ہیں۔ تو یہ بھی کوئی ضروری نہیں۔ (نیل الأوطار، باب ماجاء في الفرع والعتیرہ ونسخھا: 157/5) مذید دیکھئے حدیث 2788 کے فوائد)
(الضَّحَايَا)ضَحِيَّةٌ(اَلْا ضَاحِى)اُضْحِيَّة كى جمع اور(اَلْاضَحى ) اَضْحَاةٌ کی جمع ہے۔اس سے مراد وہ جانور ہے جو ماہ ذوالحجہ کی دسویں تاریخ یا ایام تشریق میں عید کی مناسبت سے اللہ تعالیٰ کے تقرب کے لیے ذبح کیا جاتا ہے۔ اس عمل کی مشروعیت قرآن مجید سے ثابت ہے ‘فرمایا(فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ)(الکوثر:2)’’اپنے رب کے لیے نماز پڑھیے اور قربانی کیجئے۔‘(وَالْبُدْنَ جَعَلْنَاهَا لَكُمْ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ لَكُمْ فِيهَا خَيْرٌ)(الحج :36) قربانی کے اونٹ ہم نے تمہارے لیے اللہ کی نشانیوں میں سے بنائے ہیں ‘ان میں تمہارا نفع ہے۔‘‘رسول اللہﷺ کے قول و عمل سے اس کی تصدیق ہوتی ہے اور ابتدا ہی سے مسلمان اس پر کار بند اور اس کے مسنون ہونے کے قائل ہیں اس مقصد کے لیے اونٹ ‘گائے‘بکری اور بھیڑ نر و مادہ کو ذبح کیا جاسکتا ہے ۔کوئی دوسرا جانور اس میں کار آمد نہیں ہوتا۔فرمایا(لِيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَى مَا رَزَقَهُمْ مِنْ بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ)(الحج:34) ’’تا کہ وہ ان چوپائے جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انہیں دے رکھے ہیں قربانی کا حکم یکم ہجری کو ہوا۔ لہذانبی ﷺ نے خود بھی قربانی کی اور امت کو بھی اس کا حکم دیا۔ حضرت انس فرماتے ہیں کہ نبئ اکرمﷺ نے دو سینگوں والے چتکبرے مینڈے ذبح کیے۔(صحیح البخاری‘الاضاحی‘حدیث:5554)
٭حکمت قربانی:قربانی میں متعدد حکمتیں پنہاں ہیں ‘ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں :
٭اللہ تعالیٰ کے قرب اور خوشنودی کا حصول ‘مومنوں کو حکم دیتے ہوئے فرمایا ہے(قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ)(الانعام:162) کہہ دیجیئے ! بے شک میری نماز‘ میری قربانی ‘میرا مرنا اور جینا اللہ ہی کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے۔‘‘
٭جد انبیاء ابراہیم کی سنت کی یاد تازہ کی جاتی ہے۔
٭اللہ تعالیٰ نے بے شمار جانور ہمارے فائدہ کے لیے پیدا فرمائے ہیں ‘ انہی جانوروں میں سے چند ایک کی قربانی کر کے اس نعمت کا شکر ادا کیا جاتا ہے۔
٭قربانی کے آداب:قربانی کرنے والے کے لیے درج ذیل آداب ومسائل کو مد نظر رکھنا ضروری ہے:
(1) قربانی کا جانور مسنہ (دو دانتا) ہونا ضروری ہے ‘ تاہم بعض کے نزدیک افضل ہے۔
(2) جانور کو خصی کروانا تا کہ وہ خوب صحت مند ہو جائے ‘جائز ہے ۔اور اس کی قربانی بھی جائز ہے۔
(3) قربانی قرب الہی کے حصول کا ذریعہ ہے لہذا قربانی میں ردی ‘ نہایت کمزورلاغر‘بیمار‘لنگڑالولا‘کانا یا کوئی اور عیب زدہ جانور ذبح کرنا درست نہیں۔
(4) عید کے روز قربانی نماز کی ادائیگی کے بعد کی جائے گی ورنہ قربانی نہیں ہو گی ‘البتہ ایام تشریق میں رات اور دن کے کسی بھی حصے میں قربانی کی جا سکتی ہے۔
ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ ہر پچاس بکریوں میں ایک بکری (صدقہ) ہے۔ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں: بعض علماء نے بیان کیا ہے کہ «فرع» سے مراد اونٹوں میں پیدا ہونے والا پہلا بچہ ہوتا تھا، جسے وہ لوگ اپنے بتوں کے نام سے ذبح کرتے تھے، گوشت کھا لیتے اور اس کا چمڑا کسی درخت پر ڈال دیتے تھے۔ اور «عتيرة» اسے کہتے تھے جسے وہ رجب کے پہلے دس دنوں میں ذبح کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
ابتدائے اسلام میں فرع اور عتیرہ پرعمل ہوتا تھا۔ کہ کفار غیر اللہ کے نام پرکرتے تھے۔ اور مسلمان اللہ کے نام پر مگر بعد میں جب قربانی کا حکم ہوا تو انہیں منسوخ کر دیا گیا۔ یعنی ان کا وجوب 2۔ مجموعی طور پر حدیث سے عمومی صدقہ کے طور پر ان کا استحباب باقی ہے۔ مگر خیال رہے کہ کفار اور جاہلی لوگوں سے مشابہت نہ ہو۔ وہ لوگ غیر اللہ کے نام سے ذبح کرتے ہیں۔ جو سراسر شرک ہے۔ کچھ لوگ خون بہانا لازمی سمجھتے ہیں۔ اور اسے ہی تقرب کا ذریعہ جانتے ہیں۔ تو یہ بھی کوئی ضروری نہیں۔ (نیل الأوطار، باب ماجاء في الفرع والعتیرہ ونسخھا: 157/5) مذید دیکھئے حدیث 2788 کے فوائد)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام المؤمنین عائشہ ؓ کہتی ہیں رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ہر پچاس بکری میں سے ایک بکری ذبح کرنے کا حکم دیا۱؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: بعض حضرات نے «فرع» کا یہ مطلب بیان کیا ہے کہ اونٹ کے سب سے پہلے بچہ کی پیدائش پر کفار اسے بتوں کے نام ذبح کر کے کھا لیتے، اور اس کی کھال کو درخت پر ڈال دیتے تھے، اور «عتیرہ» ایسے جانور کو کہتے ہیں جسے رجب کے پہلے عشرہ میں ذبح کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یہ حکم مستحب تھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Aishah (RA): The Messenger of Allah (ﷺ) used to sacrifice goat out of every fifty goats. Abu Dawud رحمۃ اللہ علیہ said: Fara' means the first baby camel born (to the Arabs). They used to sacrifice it for their idols, and then eat it, and its skin was thrown on a tree. 'Atira was a sacrifice made during the first ten days of Rajab.