Abu-Daud:
Wills (Kitab Al-Wasaya)
(Chapter: What Has Been Related About What Is Commanded About The Will)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2862.
سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”کسی بھی مسلمان کو لائق نہیں کہ اس کے پاس کوئی چیز ہو جس کے متعلق وہ کوئی وصیت کرنا چاہتا ہو تو وہ دو راتیں بھی نہ گزارے مگر اس حال میں کہ اس کی وصیت اس کے پاس لکھی ہوئی ہو۔“
تشریح:
حدیث میں (يبيت ليلتين)سے مراد یہ ہے کہ اسے وصیت لکھنے میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔تحدید مراد نہیں ہے۔کیوکہ مسند ابی عوانۃ اور السنن کبریٰ للبیقی میں (ليلة او ليلتين)ایک ر ات یا دو راتوں کا زکر ہے۔ صحیح مسلم اور سنن نسائی میں (ثلاث لیال) تین راتوں کازکر بھی ملتاہے۔بہرحال انسان کو اپنی موت سے کبھی غافل نہیں ہوناچاہیے۔ نہ معلوم کس وقت بلاوا آجائے۔ لہذا اگر کوئی قرض ہو یا امانت یا کوئی اور اہم معاملہ تو چاہیے کہ اسے اپنے ہاں لکھ رکھے۔ تاکہ وارثوں کو اس کی تنفیذ میں آسانی رہے۔اورحقوق کے معاملے میں مرنے والے پر کوئی بوجھ باقی نہ رہ جائے۔اس صورت میں یہ امرواجب ہے۔لیکن اگرکوئی حق واجب نہ ہو تو وصیت کرنا مستحب ہے واجب نہیں۔جیسے کہ درج ذیل حدیث میں آرہاہے۔
[وصيّت] کے لغوی معنی ہیں ’’ تاکیدی حکم کرنا‘‘ جیسے کہ اس آیت میں ہے (وَوَصَّى بِهَا إِبْرَاهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ)(البقرۃ:132)’’حضرت ابراہیم اور یعقوب نے اپنی اپنی اولاد کو اس با ت کی وصیت کی ۔‘‘ (اسلام پر ثابت قدم رہنے کی تاکید کی ۔) اور اصطلاح شرع میں اس سے مراد وہ خاص عہد ہوتا ہے جو کوئی شخص اپنے عزیزوں کو کرتا ہے کہ اس کے مرنے کے بعد اس پر عمل کیا جائے ‘خواہ وہ کسی مال کی بابت ہو یا کسی قول و قرار کے متعلق۔
٭وصیت کا حکم:وصیت کرنا مشروع ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے (كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِنْ تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ)(البقرۃ:180) ’’تم پر فرض کر دیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کو موت آنے لگے ‘اگر وہ مال چھوڑے جا رہا ہو تو اپنے ماں باپ اور قرابت داروں کے لیے اچھائی کے ساتھ وصیت کر جائے‘پرہیز گاروں پر یہ حق اور ثابت ہے۔‘‘
رسول اللہ ﷺ نے بھی وصیت کرنے کی تلقین فرمائی ہے اور اسے تہائی مال تک محدود رکھنے کا حکم دیا ہے ۔ البتہ وارث کے حق میں وصیت کرنےسے منع فرمایا ہے۔ ارشاد گرامی ہے: «إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَعْطَى كُلَّ ذِي حَقٍّ حَقَّهُ فَلَا وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ»’’اللہ تعالیٰ نے ہر صاحب حق کو اس کا حق دے دیا ہے ‘لہذا وارث کے لیے وصیت نہیں ہے‘‘(سنن ابن ماجه ~الواصايا~ باب لاوصية لوارث~ حديث:2713)اس لیے وصیت کرنا غرباء اور رشتہ داروں کے لیے جہاں باعث تقویت ہے وہاں وصیت کرنے والے کے لیے باعث اجر و ثواب بھی ہے لیکن اگر ورثاء کو نقصان پہچانے کی غرض سے وصیت کی گئی تو یہ حرام ہوگی ۔ اسی طرح اگر کسی نا جائز کام کے لیے مال خرچ کرنے کی وصیت کی تو یہ بھی نا جائز اور منع ہو گی۔ البتہ حقوق کی ادائیگی مثلاً قرض کی ادائیگی ‘امانت کی سپردگی ‘کفارہ کی ادائیگی وغیرہ وغیرہ ضروری ہوگی ۔
٭وصیت کے چند آداب: وصیت کرتے وقت شرعی احکام کو مد نظر رکھنا لازمی ہے ‘مثلا ایک تہائی سے زائد یا وارث کے حق میں وصیت نہیں کر سکتا۔
٭وصیت کرنے والا اپنی وصیت میں تبدیلی کر سکتا ہے ۔
٭وصیت کا اطلاق قرض کی ادائیگی کے بعد ہوگا۔
٭اگر کسی خاص چیز کی وصیت کی گئی اور وہ چیز ضائع ہوگئی تو وصیت باطل ہو جائے گی۔
٭ورثاء کی طرف سے وصیت میں ردوبدل کرنا حرام ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”کسی بھی مسلمان کو لائق نہیں کہ اس کے پاس کوئی چیز ہو جس کے متعلق وہ کوئی وصیت کرنا چاہتا ہو تو وہ دو راتیں بھی نہ گزارے مگر اس حال میں کہ اس کی وصیت اس کے پاس لکھی ہوئی ہو۔“
حدیث حاشیہ:
حدیث میں (يبيت ليلتين)سے مراد یہ ہے کہ اسے وصیت لکھنے میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔تحدید مراد نہیں ہے۔کیوکہ مسند ابی عوانۃ اور السنن کبریٰ للبیقی میں (ليلة او ليلتين)ایک ر ات یا دو راتوں کا زکر ہے۔ صحیح مسلم اور سنن نسائی میں (ثلاث لیال) تین راتوں کازکر بھی ملتاہے۔بہرحال انسان کو اپنی موت سے کبھی غافل نہیں ہوناچاہیے۔ نہ معلوم کس وقت بلاوا آجائے۔ لہذا اگر کوئی قرض ہو یا امانت یا کوئی اور اہم معاملہ تو چاہیے کہ اسے اپنے ہاں لکھ رکھے۔ تاکہ وارثوں کو اس کی تنفیذ میں آسانی رہے۔اورحقوق کے معاملے میں مرنے والے پر کوئی بوجھ باقی نہ رہ جائے۔اس صورت میں یہ امرواجب ہے۔لیکن اگرکوئی حق واجب نہ ہو تو وصیت کرنا مستحب ہے واجب نہیں۔جیسے کہ درج ذیل حدیث میں آرہاہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”کسی مسلمان کے لیے جس کے پاس کوئی ایسی چیز ہو جس میں اسے وصیت کرنی ہو مناسب نہیں ہے کہ اس کی دو راتیں بھی ایسی گزریں کہ اس کی لکھی ہوئی وصیت اس کے پاس موجود نہ ہو۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎ : اگر کسی شخص کے ذمہ کوئی ایسا واجبی حق ہے جس کی ادائیگی ضروری ہے مثلاً قرض و امانت وغیرہ تو ایسے شخص پر وصیت واجب ہے اور اگر اس کے ذمہ کوئی واجبی حق نہیں ہے تو وصیت مستحب ہے ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin 'Umar (RA): The Messenger of Allah (ﷺ) as saying: It is the duty of a Muslim man who has something which is to be given as bequest not to have it for two nights without having his will written regarding it.