Abu-Daud:
Wills (Kitab Al-Wasaya)
(Chapter: What Has Been Related About It Being Disliked To Cause Harm With The Will)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2866.
سیدنا ابو سعید خدری ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”انسان کا اپنی زندگی میں ایک درہم صدقہ کرنا، موت کے وقت سو (درہم ) صدقہ کرنے کی بہ نسبت زیادہ افضل ہے۔“
تشریح:
یہ روایت سنداً ضعیف ہے۔ لیکن مذکورہ حدیث اس معنی کی تایئد کرتی ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده ضعيف؛ شرحبيل- وهو: ابن سعد المدني- لا يحتج به؛كما قال المنذري) .إسناده: حدثنا أحمد بن صالح: ثنا ابن أبي فُديْكٍ: أخبرني ابن أبي ذئبٍ عن شرحبيل.
قلت: وهذا إسناد ضعيف، رجاله رجال الصحيح ؛ غير شرحبيل- وهو:ابن سعد المدني- ضعيف؛ كما قال الدارقطني وغيره، وبه أعله المنذري فقال(4/149) : ولا يحتج بحديثه .والحديث أخرجه المخلص في الفوائد المنتقاة (198/197- 198) من طريقابن أبي فديك... به.
[وصيّت] کے لغوی معنی ہیں ’’ تاکیدی حکم کرنا‘‘ جیسے کہ اس آیت میں ہے (وَوَصَّى بِهَا إِبْرَاهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ)(البقرۃ:132)’’حضرت ابراہیم اور یعقوب نے اپنی اپنی اولاد کو اس با ت کی وصیت کی ۔‘‘ (اسلام پر ثابت قدم رہنے کی تاکید کی ۔) اور اصطلاح شرع میں اس سے مراد وہ خاص عہد ہوتا ہے جو کوئی شخص اپنے عزیزوں کو کرتا ہے کہ اس کے مرنے کے بعد اس پر عمل کیا جائے ‘خواہ وہ کسی مال کی بابت ہو یا کسی قول و قرار کے متعلق۔
٭وصیت کا حکم:وصیت کرنا مشروع ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے (كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِنْ تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ)(البقرۃ:180) ’’تم پر فرض کر دیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کو موت آنے لگے ‘اگر وہ مال چھوڑے جا رہا ہو تو اپنے ماں باپ اور قرابت داروں کے لیے اچھائی کے ساتھ وصیت کر جائے‘پرہیز گاروں پر یہ حق اور ثابت ہے۔‘‘
رسول اللہ ﷺ نے بھی وصیت کرنے کی تلقین فرمائی ہے اور اسے تہائی مال تک محدود رکھنے کا حکم دیا ہے ۔ البتہ وارث کے حق میں وصیت کرنےسے منع فرمایا ہے۔ ارشاد گرامی ہے: «إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَعْطَى كُلَّ ذِي حَقٍّ حَقَّهُ فَلَا وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ»’’اللہ تعالیٰ نے ہر صاحب حق کو اس کا حق دے دیا ہے ‘لہذا وارث کے لیے وصیت نہیں ہے‘‘(سنن ابن ماجه ~الواصايا~ باب لاوصية لوارث~ حديث:2713)اس لیے وصیت کرنا غرباء اور رشتہ داروں کے لیے جہاں باعث تقویت ہے وہاں وصیت کرنے والے کے لیے باعث اجر و ثواب بھی ہے لیکن اگر ورثاء کو نقصان پہچانے کی غرض سے وصیت کی گئی تو یہ حرام ہوگی ۔ اسی طرح اگر کسی نا جائز کام کے لیے مال خرچ کرنے کی وصیت کی تو یہ بھی نا جائز اور منع ہو گی۔ البتہ حقوق کی ادائیگی مثلاً قرض کی ادائیگی ‘امانت کی سپردگی ‘کفارہ کی ادائیگی وغیرہ وغیرہ ضروری ہوگی ۔
٭وصیت کے چند آداب: وصیت کرتے وقت شرعی احکام کو مد نظر رکھنا لازمی ہے ‘مثلا ایک تہائی سے زائد یا وارث کے حق میں وصیت نہیں کر سکتا۔
٭وصیت کرنے والا اپنی وصیت میں تبدیلی کر سکتا ہے ۔
٭وصیت کا اطلاق قرض کی ادائیگی کے بعد ہوگا۔
٭اگر کسی خاص چیز کی وصیت کی گئی اور وہ چیز ضائع ہوگئی تو وصیت باطل ہو جائے گی۔
٭ورثاء کی طرف سے وصیت میں ردوبدل کرنا حرام ہے۔
سیدنا ابو سعید خدری ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”انسان کا اپنی زندگی میں ایک درہم صدقہ کرنا، موت کے وقت سو (درہم ) صدقہ کرنے کی بہ نسبت زیادہ افضل ہے۔“
حدیث حاشیہ:
یہ روایت سنداً ضعیف ہے۔ لیکن مذکورہ حدیث اس معنی کی تایئد کرتی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابو سعید خدری ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”آدمی کا اپنی زندگی میں (جب تندرست ہو) ایک درہم خیرات کر دینا اس سے بہتر ہے کہ مرتے وقت سو درہم خیرات کرے۔“
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Sa'id al-Khudri (RA): The Prophet (ﷺ) said: A man giving a dirham as sadaqah (charity) during his life is better than giving one hundred dirhams as sadaqah (charity) at the moment of his death.