Abu-Daud:
Wills (Kitab Al-Wasaya)
(Chapter: What Has Been Related About Accepting The Position Of Executing A Will)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2868.
سیدنا ابوذر ؓ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا تھا: ”اے ابوذر! میں تجھے کمزور پاتا ہوں، اور بلاشبہ میں تیرے لیے وہی چیز پسند کرتا ہوں جو مجھے اپنے لیے پسند ہے، تو کبھی دو آدمیوں پر بھی امیر نہ بننا اور نہ کسی یتیم کے مال کا ولی بننا۔“ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں: اہل مصر اس روایت میں منفرد ہیں۔
تشریح:
بلاشبہ کسی قوم کا ولی قاضی اور سربراہ بننا اور ایسے ہی یتیم کا سرپرست اور ذمہ دار ہونا لوگوں کے ہاں اور پھر اللہ کے ہاں بھی سخت باز پرس کا مقام ہے۔ جو شخص ان ذمہ داریوں کو اٹھائے تو چاہیے کہ لوگوں کا اور اللہ کا حق ادا کرنے میں کوتاہی نہ کرے۔ اور جو اپنے آپ کو کمزور پائے تو وہ ابتدائی طور پر ہی ایسی ذمہ داری سے معذرت کرلے تاکہ دنیا اورآخرت میں رسوائی نہ ہو۔
[وصيّت] کے لغوی معنی ہیں ’’ تاکیدی حکم کرنا‘‘ جیسے کہ اس آیت میں ہے (وَوَصَّى بِهَا إِبْرَاهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ)(البقرۃ:132)’’حضرت ابراہیم اور یعقوب نے اپنی اپنی اولاد کو اس با ت کی وصیت کی ۔‘‘ (اسلام پر ثابت قدم رہنے کی تاکید کی ۔) اور اصطلاح شرع میں اس سے مراد وہ خاص عہد ہوتا ہے جو کوئی شخص اپنے عزیزوں کو کرتا ہے کہ اس کے مرنے کے بعد اس پر عمل کیا جائے ‘خواہ وہ کسی مال کی بابت ہو یا کسی قول و قرار کے متعلق۔
٭وصیت کا حکم:وصیت کرنا مشروع ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے (كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِنْ تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ)(البقرۃ:180) ’’تم پر فرض کر دیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کو موت آنے لگے ‘اگر وہ مال چھوڑے جا رہا ہو تو اپنے ماں باپ اور قرابت داروں کے لیے اچھائی کے ساتھ وصیت کر جائے‘پرہیز گاروں پر یہ حق اور ثابت ہے۔‘‘
رسول اللہ ﷺ نے بھی وصیت کرنے کی تلقین فرمائی ہے اور اسے تہائی مال تک محدود رکھنے کا حکم دیا ہے ۔ البتہ وارث کے حق میں وصیت کرنےسے منع فرمایا ہے۔ ارشاد گرامی ہے: «إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَعْطَى كُلَّ ذِي حَقٍّ حَقَّهُ فَلَا وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ»’’اللہ تعالیٰ نے ہر صاحب حق کو اس کا حق دے دیا ہے ‘لہذا وارث کے لیے وصیت نہیں ہے‘‘(سنن ابن ماجه ~الواصايا~ باب لاوصية لوارث~ حديث:2713)اس لیے وصیت کرنا غرباء اور رشتہ داروں کے لیے جہاں باعث تقویت ہے وہاں وصیت کرنے والے کے لیے باعث اجر و ثواب بھی ہے لیکن اگر ورثاء کو نقصان پہچانے کی غرض سے وصیت کی گئی تو یہ حرام ہوگی ۔ اسی طرح اگر کسی نا جائز کام کے لیے مال خرچ کرنے کی وصیت کی تو یہ بھی نا جائز اور منع ہو گی۔ البتہ حقوق کی ادائیگی مثلاً قرض کی ادائیگی ‘امانت کی سپردگی ‘کفارہ کی ادائیگی وغیرہ وغیرہ ضروری ہوگی ۔
٭وصیت کے چند آداب: وصیت کرتے وقت شرعی احکام کو مد نظر رکھنا لازمی ہے ‘مثلا ایک تہائی سے زائد یا وارث کے حق میں وصیت نہیں کر سکتا۔
٭وصیت کرنے والا اپنی وصیت میں تبدیلی کر سکتا ہے ۔
٭وصیت کا اطلاق قرض کی ادائیگی کے بعد ہوگا۔
٭اگر کسی خاص چیز کی وصیت کی گئی اور وہ چیز ضائع ہوگئی تو وصیت باطل ہو جائے گی۔
٭ورثاء کی طرف سے وصیت میں ردوبدل کرنا حرام ہے۔
سیدنا ابوذر ؓ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا تھا: ”اے ابوذر! میں تجھے کمزور پاتا ہوں، اور بلاشبہ میں تیرے لیے وہی چیز پسند کرتا ہوں جو مجھے اپنے لیے پسند ہے، تو کبھی دو آدمیوں پر بھی امیر نہ بننا اور نہ کسی یتیم کے مال کا ولی بننا۔“ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں: اہل مصر اس روایت میں منفرد ہیں۔
حدیث حاشیہ:
بلاشبہ کسی قوم کا ولی قاضی اور سربراہ بننا اور ایسے ہی یتیم کا سرپرست اور ذمہ دار ہونا لوگوں کے ہاں اور پھر اللہ کے ہاں بھی سخت باز پرس کا مقام ہے۔ جو شخص ان ذمہ داریوں کو اٹھائے تو چاہیے کہ لوگوں کا اور اللہ کا حق ادا کرنے میں کوتاہی نہ کرے۔ اور جو اپنے آپ کو کمزور پائے تو وہ ابتدائی طور پر ہی ایسی ذمہ داری سے معذرت کرلے تاکہ دنیا اورآخرت میں رسوائی نہ ہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوذر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: ”اے ابوذر! میں تمہیں ضعیف دیکھتا ہوں اور میں تمہارے لیے وہی پسند کرتا ہوں جو میں اپنے لیے پسند کرتا ہوں، تو تم دو آدمیوں پر بھی حاکم نہ ہونا، اور نہ یتیم کے مال کا ولی بننا۱؎۔“ ابوداؤد کہتے ہیں: اس حدیث کی روایت کرنے میں اہل مصر منفرد ہیں۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ جس طرح یتیم کے مال کا ولی بننا اور لوگوں پر حاکم بننا ایک مشکل کام ہے اور خوف کا باعث ہے اسی طرح وصیت کرنے والے کا وصی بننا بھی ایک مشکل عمل اور باعث خوف ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Dharr (RA): The Messenger of Allah (ﷺ) said to me: Abu Dharr, I see you weak, and I like for you what I like for myself. Do not be a leader of two (persons), and do not be a guardian of an orphan. Abu Dawud رحمۃ اللہ علیہ said: This has been narrated only by the people of Egypt.