Abu-Daud:
Wills (Kitab Al-Wasaya)
(Chapter: What Has Been Related About When One Ceases Being An Orphan)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2873.
سیدنا علی بن ابی طالب ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے یہ بات یاد رکھی ہے ” بلوغت کے بعد یتیمی نہیں اور صبح سے رات تک خاموش رہنا نہیں ۔ “
تشریح:
یتیم بچہ بالغ ہونے کے بعد اپنے امور کا خود ذمہ داار ہوجاتاہے۔اور اس سے یتیمی کے احکام اٹھ جاتے ہیں۔اگر وہ فی الواقع دانا اور سمجھ دار ہو تو خریدوفروخت اور نکاح وغیرہ کے معاملات میں اس کا اپنا فیصلہ راحج ہوگا۔لیکن اگر ثابت نہ ہو کہ ان معاملات میں وہ دانا نہیں ہے تو ولی ہی اس کا نگران رہے گا۔جیسے کہ سورۃ النساء میں ہے۔
( وَابْتَلُوا الْيَتَامَىٰ حَتَّىٰ إِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ فَإِنْ آنَسْتُم مِّنْهُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوا إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ)(النساء۔6/4)
اور یتیموں کو آذماتے رہو۔پھر تم اگر ان میں ہوشیاری اور حسن تدبیر پائو تو ان کے مال ان کے حوالے کردو اور دوسرا مسئلہ چپ کا روزہ قبل ازاسلام لوگوں کامعمول تھا۔اسلام میں اس س منع کردیا گیا ہے۔اور اللہ کا ذکر کرنے اور خیر کے ساتھ بولنے کا حکم دیاگیاہے۔
[وصيّت] کے لغوی معنی ہیں ’’ تاکیدی حکم کرنا‘‘ جیسے کہ اس آیت میں ہے (وَوَصَّى بِهَا إِبْرَاهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ)(البقرۃ:132)’’حضرت ابراہیم اور یعقوب نے اپنی اپنی اولاد کو اس با ت کی وصیت کی ۔‘‘ (اسلام پر ثابت قدم رہنے کی تاکید کی ۔) اور اصطلاح شرع میں اس سے مراد وہ خاص عہد ہوتا ہے جو کوئی شخص اپنے عزیزوں کو کرتا ہے کہ اس کے مرنے کے بعد اس پر عمل کیا جائے ‘خواہ وہ کسی مال کی بابت ہو یا کسی قول و قرار کے متعلق۔
٭وصیت کا حکم:وصیت کرنا مشروع ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے (كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِنْ تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ)(البقرۃ:180) ’’تم پر فرض کر دیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کو موت آنے لگے ‘اگر وہ مال چھوڑے جا رہا ہو تو اپنے ماں باپ اور قرابت داروں کے لیے اچھائی کے ساتھ وصیت کر جائے‘پرہیز گاروں پر یہ حق اور ثابت ہے۔‘‘
رسول اللہ ﷺ نے بھی وصیت کرنے کی تلقین فرمائی ہے اور اسے تہائی مال تک محدود رکھنے کا حکم دیا ہے ۔ البتہ وارث کے حق میں وصیت کرنےسے منع فرمایا ہے۔ ارشاد گرامی ہے: «إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَعْطَى كُلَّ ذِي حَقٍّ حَقَّهُ فَلَا وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ»’’اللہ تعالیٰ نے ہر صاحب حق کو اس کا حق دے دیا ہے ‘لہذا وارث کے لیے وصیت نہیں ہے‘‘(سنن ابن ماجه ~الواصايا~ باب لاوصية لوارث~ حديث:2713)اس لیے وصیت کرنا غرباء اور رشتہ داروں کے لیے جہاں باعث تقویت ہے وہاں وصیت کرنے والے کے لیے باعث اجر و ثواب بھی ہے لیکن اگر ورثاء کو نقصان پہچانے کی غرض سے وصیت کی گئی تو یہ حرام ہوگی ۔ اسی طرح اگر کسی نا جائز کام کے لیے مال خرچ کرنے کی وصیت کی تو یہ بھی نا جائز اور منع ہو گی۔ البتہ حقوق کی ادائیگی مثلاً قرض کی ادائیگی ‘امانت کی سپردگی ‘کفارہ کی ادائیگی وغیرہ وغیرہ ضروری ہوگی ۔
٭وصیت کے چند آداب: وصیت کرتے وقت شرعی احکام کو مد نظر رکھنا لازمی ہے ‘مثلا ایک تہائی سے زائد یا وارث کے حق میں وصیت نہیں کر سکتا۔
٭وصیت کرنے والا اپنی وصیت میں تبدیلی کر سکتا ہے ۔
٭وصیت کا اطلاق قرض کی ادائیگی کے بعد ہوگا۔
٭اگر کسی خاص چیز کی وصیت کی گئی اور وہ چیز ضائع ہوگئی تو وصیت باطل ہو جائے گی۔
٭ورثاء کی طرف سے وصیت میں ردوبدل کرنا حرام ہے۔
سیدنا علی بن ابی طالب ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے یہ بات یاد رکھی ہے ” بلوغت کے بعد یتیمی نہیں اور صبح سے رات تک خاموش رہنا نہیں ۔ “
حدیث حاشیہ:
یتیم بچہ بالغ ہونے کے بعد اپنے امور کا خود ذمہ داار ہوجاتاہے۔اور اس سے یتیمی کے احکام اٹھ جاتے ہیں۔اگر وہ فی الواقع دانا اور سمجھ دار ہو تو خریدوفروخت اور نکاح وغیرہ کے معاملات میں اس کا اپنا فیصلہ راحج ہوگا۔لیکن اگر ثابت نہ ہو کہ ان معاملات میں وہ دانا نہیں ہے تو ولی ہی اس کا نگران رہے گا۔جیسے کہ سورۃ النساء میں ہے۔
( وَابْتَلُوا الْيَتَامَىٰ حَتَّىٰ إِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ فَإِنْ آنَسْتُم مِّنْهُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوا إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ)(النساء۔6/4)
اور یتیموں کو آذماتے رہو۔پھر تم اگر ان میں ہوشیاری اور حسن تدبیر پائو تو ان کے مال ان کے حوالے کردو اور دوسرا مسئلہ چپ کا روزہ قبل ازاسلام لوگوں کامعمول تھا۔اسلام میں اس س منع کردیا گیا ہے۔اور اللہ کا ذکر کرنے اور خیر کے ساتھ بولنے کا حکم دیاگیاہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
علی بن ابی طالب ؓ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ سے یہ بات سن کر یاد رکھی ہے کہ احتلام کے بعد یتیمی نہیں ( یعنی جب جوان ہو گیا تو یتیم نہیں رہا ) اور نہ دن بھر رات کے آنے تک خاموشی ہے ۱؎ ۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : زمانہ جاہلیت کے لوگوں کی عبادت کا ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ وہ خاموشی کا روزہ رکھتے اور دوران خاموشی کسی سے بات نہیں کرتے تھے ، اسلام نے اس طریقہ عبادت سے منع کر دیا ہے ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Ali ibn Abu Talib (RA):
I memorised (a tradition) from the Apostle of Allah (ﷺ): There is no orphanhood after puberty, and there is no silence for the whole day till the night.