Abu-Daud:
Wills (Kitab Al-Wasaya)
(Chapter: What Has Been Related About The Severity Of Consuming The Wealth Of An Orphan)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2875.
جناب عبید بن عمیر اپنے والد سے بیان کرتے ہیں جو کہ صحابی تھے انہوں نے کہا کہ ایک شخص نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! کبیرہ گناہ کیا ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”وہ نو ہیں۔“ اور مذکورہ بالا کے ہم معنی بیان کیا اور مزید کہا: ”مسلمان ماں باپ کی نافرمانی کرنا اور بیت اللہ الحرام کی بےحرمتی کرنا جو جیتے مرتے تمہارا قبلہ ہے۔“
تشریح:
1۔ کبیرہ گناہ کی معروف تعریفات میں سے یہ ہے کہ ہر وہ عمل جس سے اللہ عزوجل نے منع فرمایا ہو کبیرہ ہوتا ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ ہر وہ گناہ جس پردوزخ کی وعید اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی لعنت یا دنیا میں کوئی حد لازم کی گئی ہو کبیرہ ہوتا ہے۔ اسی طرح کسی چھوٹے گناہ پر ہمیشگی اخیتار کرنے سے بھی وہ کبیرہ گناہ بن جاتا ہے۔ اس قسم کے گناہ خاص توبہ استغفار کے بغیر معاف نہیں ہوتے۔ جبکہ دیگر چھوٹے گناہ عام فرائض ونوافل اوراذکار سے معاف ہوتے رہتے ہیں۔ 2۔ بیت اللہ مرنے پر بھی مسلمانوں کا قبلہ ہے۔ یعنی موت کے وقت اور قبر میں میت کا میت کا منہ قبلہ کی طرف کردینا مسنون ہے۔ (نیل الأوطار، باب من کان آخر قوله لا إله إلا اللہ:23/4، 24)
[وصيّت] کے لغوی معنی ہیں ’’ تاکیدی حکم کرنا‘‘ جیسے کہ اس آیت میں ہے (وَوَصَّى بِهَا إِبْرَاهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ)(البقرۃ:132)’’حضرت ابراہیم اور یعقوب نے اپنی اپنی اولاد کو اس با ت کی وصیت کی ۔‘‘ (اسلام پر ثابت قدم رہنے کی تاکید کی ۔) اور اصطلاح شرع میں اس سے مراد وہ خاص عہد ہوتا ہے جو کوئی شخص اپنے عزیزوں کو کرتا ہے کہ اس کے مرنے کے بعد اس پر عمل کیا جائے ‘خواہ وہ کسی مال کی بابت ہو یا کسی قول و قرار کے متعلق۔
٭وصیت کا حکم:وصیت کرنا مشروع ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے (كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِنْ تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ)(البقرۃ:180) ’’تم پر فرض کر دیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کو موت آنے لگے ‘اگر وہ مال چھوڑے جا رہا ہو تو اپنے ماں باپ اور قرابت داروں کے لیے اچھائی کے ساتھ وصیت کر جائے‘پرہیز گاروں پر یہ حق اور ثابت ہے۔‘‘
رسول اللہ ﷺ نے بھی وصیت کرنے کی تلقین فرمائی ہے اور اسے تہائی مال تک محدود رکھنے کا حکم دیا ہے ۔ البتہ وارث کے حق میں وصیت کرنےسے منع فرمایا ہے۔ ارشاد گرامی ہے: «إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَعْطَى كُلَّ ذِي حَقٍّ حَقَّهُ فَلَا وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ»’’اللہ تعالیٰ نے ہر صاحب حق کو اس کا حق دے دیا ہے ‘لہذا وارث کے لیے وصیت نہیں ہے‘‘(سنن ابن ماجه ~الواصايا~ باب لاوصية لوارث~ حديث:2713)اس لیے وصیت کرنا غرباء اور رشتہ داروں کے لیے جہاں باعث تقویت ہے وہاں وصیت کرنے والے کے لیے باعث اجر و ثواب بھی ہے لیکن اگر ورثاء کو نقصان پہچانے کی غرض سے وصیت کی گئی تو یہ حرام ہوگی ۔ اسی طرح اگر کسی نا جائز کام کے لیے مال خرچ کرنے کی وصیت کی تو یہ بھی نا جائز اور منع ہو گی۔ البتہ حقوق کی ادائیگی مثلاً قرض کی ادائیگی ‘امانت کی سپردگی ‘کفارہ کی ادائیگی وغیرہ وغیرہ ضروری ہوگی ۔
٭وصیت کے چند آداب: وصیت کرتے وقت شرعی احکام کو مد نظر رکھنا لازمی ہے ‘مثلا ایک تہائی سے زائد یا وارث کے حق میں وصیت نہیں کر سکتا۔
٭وصیت کرنے والا اپنی وصیت میں تبدیلی کر سکتا ہے ۔
٭وصیت کا اطلاق قرض کی ادائیگی کے بعد ہوگا۔
٭اگر کسی خاص چیز کی وصیت کی گئی اور وہ چیز ضائع ہوگئی تو وصیت باطل ہو جائے گی۔
٭ورثاء کی طرف سے وصیت میں ردوبدل کرنا حرام ہے۔
جناب عبید بن عمیر اپنے والد سے بیان کرتے ہیں جو کہ صحابی تھے انہوں نے کہا کہ ایک شخص نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! کبیرہ گناہ کیا ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”وہ نو ہیں۔“ اور مذکورہ بالا کے ہم معنی بیان کیا اور مزید کہا: ”مسلمان ماں باپ کی نافرمانی کرنا اور بیت اللہ الحرام کی بےحرمتی کرنا جو جیتے مرتے تمہارا قبلہ ہے۔“
حدیث حاشیہ:
1۔ کبیرہ گناہ کی معروف تعریفات میں سے یہ ہے کہ ہر وہ عمل جس سے اللہ عزوجل نے منع فرمایا ہو کبیرہ ہوتا ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ ہر وہ گناہ جس پردوزخ کی وعید اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی لعنت یا دنیا میں کوئی حد لازم کی گئی ہو کبیرہ ہوتا ہے۔ اسی طرح کسی چھوٹے گناہ پر ہمیشگی اخیتار کرنے سے بھی وہ کبیرہ گناہ بن جاتا ہے۔ اس قسم کے گناہ خاص توبہ استغفار کے بغیر معاف نہیں ہوتے۔ جبکہ دیگر چھوٹے گناہ عام فرائض ونوافل اوراذکار سے معاف ہوتے رہتے ہیں۔ 2۔ بیت اللہ مرنے پر بھی مسلمانوں کا قبلہ ہے۔ یعنی موت کے وقت اور قبر میں میت کا میت کا منہ قبلہ کی طرف کردینا مسنون ہے۔ (نیل الأوطار، باب من کان آخر قوله لا إله إلا اللہ:23/4، 24)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عمیر بن قتادۃ لیثی ؓ (جنہیں شرف صحبت حاصل ہے) کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا: اللہ کے رسول! کبیرہ گناہ کیا کیا ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”وہ نو ہیں۱؎۔“ پھر انہوں نے اسی مفہوم کی حدیث ذکر کی جو اوپر بیان ہوئی، اور اس میں: ”مسلمان ماں باپ کی نافرمانی، اور بیت اللہ جو کہ زندگی اور موت میں تمہارا قبلہ ہے کی حرمت کو حلال سمجھ لینے۔“ کا اضافہ ہے۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: یہاں حصر اور استقصاء مقصود نہیں ان کے علاوہ اور بھی متعدد کبیرہ گناہ ہیں، جن سے اجتناب ضروری ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'Umair (RA), A Companion of the Prophet (ﷺ) said: A man asked him (the Prophet ﷺ): Messenger of Allah, what are the grave sins? He replied: They are nine. He then mentioned the tradition to the same effect. This version adds: "And disobedience to the Muslim parents, and to violate the sacred House, your qiblah (direction of prayer), in your life and after death.