باب: کوئی شخص مقروض فوت ہوا اور مال چھوڑ گیا تو وارث قرض خواہوں سے مہلت مانگے اور نرمی چاہے
)
Abu-Daud:
Wills (Kitab Al-Wasaya)
(Chapter: What Has Been Related About A Man Who Dies And Leaves Behind A Debt, And He Has What Will Fulfill The Debt, The Creditors Will Be Asked To Defer Repayment For A While, And The Heirs Should Be Treated With Leniency)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2884.
سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ نے بیان کیا کہ اس کے والد (سیدنا عبداللہ ؓ) فوت ہو گئے اور ان کے ذمے ایک یہودی کا تیس وسق قرض تھا۔ سیدنا جابر ؓ نے اس سے مہلت طلب کی، مگر اس نے انکار کر دیا۔ سیدنا جابر ؓ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے تاکہ یہودی کے ہاں اس کی سفارش فرما دیں، پس رسول اللہ ﷺ تشریف لائے اور یہودی سے بات کی کہ اس قرض کے بدلے کھجور کا پھل لے لو مگر وہ نہ مانا، رسول اللہ ﷺ نے اس سے کہا کہ مہلت دے دو تو بھی اس نے انکار کیا اور حدیث بیان کی۔
تشریح:
1۔ میت کا قرضہ اولین فرصت میں ادا کرنا چاہیے۔ مگر حسب احوال مہلت لینے میں کوئی حرج نہیں۔ اور مسلمان کو چاہیے کہ اپنے مسلمان بھائی کے ساتھ حتی الامکان نرمی کا معاملہ کرے۔ اور اس قسم کے معاملات میں سفارش کرنا بھی مستحب ہے۔ 2۔ صحیح بخاری میں اس حدیث کا مضمون کچھ اس طرح ہے۔ حضرت جابر بن عبد للہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں۔ کہ میرے والد احد میں شہید ہوگئے۔ اور چھ بیٹیوں کے ساتھ ساتھ بہت سا قرض بھی چھوڑ گئے۔ جب کھجوریں کاٹنے کا موسم آیا۔ تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں چاہتا ہوں۔ آپ تشریف لائیں تاکہ قرض خواہ آپ کو دیکھ لیں۔ (اور مطالبے میں سختی نہ کریں) آپ نے فرمایا: جاؤ اور اپنا تمام پھل ایک جانب ڈھیر کرو۔ چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا اور پھر آپ کو بلا لایا، جب ان لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو مجھے غضبناک تیز نظروں سے دیکھنے لگے، جب آپصلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے تیور دیکھے تو آپ نے سب سے بڑے ڈھیر کے گرد تین چکر لگائے اور پھر اس پر بیٹھ گئے اور فرمایا: اپنے قرض خواہوں کی بلائو، چنانچہ میں ان کےلئے کھجوریں بھرتا اور ناپتا رہا، حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے میرے والد کی امانت (قرض) ادا کردی۔ اور اللہ کی قسم میں اس بات پرراضی تھا۔ کہ اللہ میرے باپ کی امانت (قرض) پوری کرا دے۔ خواہ میں اپنی بہنوں کےلئے ایک دانہ بھی نہ لے جائوں۔ چنانچہ اللہ کی قسم وہ سب ڈھیر اسی طرح محفوظ رہے۔ اور گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ وہ ڈھیر جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے۔ ا س میں سے ایک دانہ بھی کم نہ ہوا تھا۔ (صحیح البخاري، الوصایا، حدیث: 2781) اس حدیث میں بیان ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین حقوق العباد کے معاملے میں انتہائی حساس تھے۔ اور پھر اللہ عزوجل بھی اپنے بندوں کی عزتوں کو کس پراسرارانداز میں محفوظ فرماتا ہے۔ اور ان کے رزق میں واضح برکت ڈال دیتا ہے۔ بشرط یہ کہ ایمان وعمل میں اخلاص ہو اور ایک اللہ ہی پر توکل ہو۔ جعلنا اللہ منھم، آمین۔ 3۔ وسق کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے۔ کہ ایک وسق ساٹھ صاع کا اور ایک صاع تقریبا ڈھائی کلو کا ہوتا ہے۔ اس حساب سے ایک وسق تقریباً 3 من اور 30 کلو ہو اور 30 وسق کا وزن تقریبا ً 112 من اور 20 کلو ہوا۔ واللہ اعلم
[وصيّت] کے لغوی معنی ہیں ’’ تاکیدی حکم کرنا‘‘ جیسے کہ اس آیت میں ہے (وَوَصَّى بِهَا إِبْرَاهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ)(البقرۃ:132)’’حضرت ابراہیم اور یعقوب نے اپنی اپنی اولاد کو اس با ت کی وصیت کی ۔‘‘ (اسلام پر ثابت قدم رہنے کی تاکید کی ۔) اور اصطلاح شرع میں اس سے مراد وہ خاص عہد ہوتا ہے جو کوئی شخص اپنے عزیزوں کو کرتا ہے کہ اس کے مرنے کے بعد اس پر عمل کیا جائے ‘خواہ وہ کسی مال کی بابت ہو یا کسی قول و قرار کے متعلق۔
٭وصیت کا حکم:وصیت کرنا مشروع ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے (كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِنْ تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ)(البقرۃ:180) ’’تم پر فرض کر دیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کو موت آنے لگے ‘اگر وہ مال چھوڑے جا رہا ہو تو اپنے ماں باپ اور قرابت داروں کے لیے اچھائی کے ساتھ وصیت کر جائے‘پرہیز گاروں پر یہ حق اور ثابت ہے۔‘‘
رسول اللہ ﷺ نے بھی وصیت کرنے کی تلقین فرمائی ہے اور اسے تہائی مال تک محدود رکھنے کا حکم دیا ہے ۔ البتہ وارث کے حق میں وصیت کرنےسے منع فرمایا ہے۔ ارشاد گرامی ہے: «إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَعْطَى كُلَّ ذِي حَقٍّ حَقَّهُ فَلَا وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ»’’اللہ تعالیٰ نے ہر صاحب حق کو اس کا حق دے دیا ہے ‘لہذا وارث کے لیے وصیت نہیں ہے‘‘(سنن ابن ماجه ~الواصايا~ باب لاوصية لوارث~ حديث:2713)اس لیے وصیت کرنا غرباء اور رشتہ داروں کے لیے جہاں باعث تقویت ہے وہاں وصیت کرنے والے کے لیے باعث اجر و ثواب بھی ہے لیکن اگر ورثاء کو نقصان پہچانے کی غرض سے وصیت کی گئی تو یہ حرام ہوگی ۔ اسی طرح اگر کسی نا جائز کام کے لیے مال خرچ کرنے کی وصیت کی تو یہ بھی نا جائز اور منع ہو گی۔ البتہ حقوق کی ادائیگی مثلاً قرض کی ادائیگی ‘امانت کی سپردگی ‘کفارہ کی ادائیگی وغیرہ وغیرہ ضروری ہوگی ۔
٭وصیت کے چند آداب: وصیت کرتے وقت شرعی احکام کو مد نظر رکھنا لازمی ہے ‘مثلا ایک تہائی سے زائد یا وارث کے حق میں وصیت نہیں کر سکتا۔
٭وصیت کرنے والا اپنی وصیت میں تبدیلی کر سکتا ہے ۔
٭وصیت کا اطلاق قرض کی ادائیگی کے بعد ہوگا۔
٭اگر کسی خاص چیز کی وصیت کی گئی اور وہ چیز ضائع ہوگئی تو وصیت باطل ہو جائے گی۔
٭ورثاء کی طرف سے وصیت میں ردوبدل کرنا حرام ہے۔
سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ نے بیان کیا کہ اس کے والد (سیدنا عبداللہ ؓ) فوت ہو گئے اور ان کے ذمے ایک یہودی کا تیس وسق قرض تھا۔ سیدنا جابر ؓ نے اس سے مہلت طلب کی، مگر اس نے انکار کر دیا۔ سیدنا جابر ؓ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے تاکہ یہودی کے ہاں اس کی سفارش فرما دیں، پس رسول اللہ ﷺ تشریف لائے اور یہودی سے بات کی کہ اس قرض کے بدلے کھجور کا پھل لے لو مگر وہ نہ مانا، رسول اللہ ﷺ نے اس سے کہا کہ مہلت دے دو تو بھی اس نے انکار کیا اور حدیث بیان کی۔
حدیث حاشیہ:
1۔ میت کا قرضہ اولین فرصت میں ادا کرنا چاہیے۔ مگر حسب احوال مہلت لینے میں کوئی حرج نہیں۔ اور مسلمان کو چاہیے کہ اپنے مسلمان بھائی کے ساتھ حتی الامکان نرمی کا معاملہ کرے۔ اور اس قسم کے معاملات میں سفارش کرنا بھی مستحب ہے۔ 2۔ صحیح بخاری میں اس حدیث کا مضمون کچھ اس طرح ہے۔ حضرت جابر بن عبد للہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں۔ کہ میرے والد احد میں شہید ہوگئے۔ اور چھ بیٹیوں کے ساتھ ساتھ بہت سا قرض بھی چھوڑ گئے۔ جب کھجوریں کاٹنے کا موسم آیا۔ تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں چاہتا ہوں۔ آپ تشریف لائیں تاکہ قرض خواہ آپ کو دیکھ لیں۔ (اور مطالبے میں سختی نہ کریں) آپ نے فرمایا: جاؤ اور اپنا تمام پھل ایک جانب ڈھیر کرو۔ چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا اور پھر آپ کو بلا لایا، جب ان لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو مجھے غضبناک تیز نظروں سے دیکھنے لگے، جب آپصلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے تیور دیکھے تو آپ نے سب سے بڑے ڈھیر کے گرد تین چکر لگائے اور پھر اس پر بیٹھ گئے اور فرمایا: اپنے قرض خواہوں کی بلائو، چنانچہ میں ان کےلئے کھجوریں بھرتا اور ناپتا رہا، حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے میرے والد کی امانت (قرض) ادا کردی۔ اور اللہ کی قسم میں اس بات پرراضی تھا۔ کہ اللہ میرے باپ کی امانت (قرض) پوری کرا دے۔ خواہ میں اپنی بہنوں کےلئے ایک دانہ بھی نہ لے جائوں۔ چنانچہ اللہ کی قسم وہ سب ڈھیر اسی طرح محفوظ رہے۔ اور گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ وہ ڈھیر جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے۔ ا س میں سے ایک دانہ بھی کم نہ ہوا تھا۔ (صحیح البخاري، الوصایا، حدیث: 2781) اس حدیث میں بیان ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین حقوق العباد کے معاملے میں انتہائی حساس تھے۔ اور پھر اللہ عزوجل بھی اپنے بندوں کی عزتوں کو کس پراسرارانداز میں محفوظ فرماتا ہے۔ اور ان کے رزق میں واضح برکت ڈال دیتا ہے۔ بشرط یہ کہ ایمان وعمل میں اخلاص ہو اور ایک اللہ ہی پر توکل ہو۔ جعلنا اللہ منھم، آمین۔ 3۔ وسق کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے۔ کہ ایک وسق ساٹھ صاع کا اور ایک صاع تقریبا ڈھائی کلو کا ہوتا ہے۔ اس حساب سے ایک وسق تقریباً 3 من اور 30 کلو ہو اور 30 وسق کا وزن تقریبا ً 112 من اور 20 کلو ہوا۔ واللہ اعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
جابر بن عبداللہ ؓ کہتے ہیں کہ ان کے والد انتقال کر گئے اور اپنے ذمہ ایک یہودی کا تیس وسق کھجور کا قرضہ چھوڑ گئے، جابر ؓ نے اس سے مہلت مانگی تو اس نے (مہلت دینے سے) انکار کر دیا، تو آپ نے نبی اکرم ﷺ سے بات کی کہ آپ چل کر اس سے سفارش کر دیں، رسول اللہ ﷺ اس کے پاس تشریف لائے اور یہودی سے بات کی کہ وہ (اپنے قرض کے بدلے میں) ان کے کھجور کے باغ میں جتنے پھل ہیں لے لے، لیکن اس نے انکار کیا پھر رسول اللہ ﷺ نے اس سے کہا: ”اچھا جابر کو مہلت دے دو۔“ اس نے اس سے بھی انکار کیا، اور راوی نے پوری حدیث بیان کی۱؎۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے مبارک ہاتھوں سے جابر رضی اللہ عنہ کے باغ کے کھجوروں کو قرض خواہوں کے مابین تقسیم کرنا شروع کر دیا، بفضل الٰہی سب کا قرضہ اداء ہو گیا اور کھجوروں کا ڈھیر ویسا ہی رہا، یہ آپ کا معجزہ تھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jabir bin ‘Abdullah (RA): That his father died and left a debt of thirty wasqs of a Jew on him. Jabir asked him to defer, but he refused. Jabir then spoke to the Messenger of Allah (ﷺ) asking him to mediate to him on his behalf. The Messenger of Allah (ﷺ) came to the Jew and spoke to him about taking fruit-dates in lieu of the debt that was on him. But he refused. The Messenger of Allah (ﷺ) asked him to defer (the debt) to him, but he refused. He then narrated the rest of the tradition.