باب: نسب کی میراث نے مواخات اور خلف کی وراثت کو منسوخ کر دیا ہے
)
Abu-Daud:
Shares of Inheritance (Kitab Al-Fara'id)
(Chapter: The Abrogation Of Inheritance Due To Alliances By Inheritance Due To Relations)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2921.
سیدنا ابن عباس ؓ نے آیت کریمہ: (وَالَّذِينَ عَاقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ فَآتُوهُمْ نَصِيبَهُمْ) کی تفسیر میں بیان کیا کہ ایک آدمی دوسرے کا حلیف بن جاتا تھا، جبکہ ان میں کوئی نسبی قرابت نہ ہوتی تھی، پھر ہر ایک دوسرے کا وارث بھی ہوتا تھا، تو اس حکم کو سورۃ الانفال نے منسوخ کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَى بِبَعْضٍ) ”رشتے ناتے والے ایک دوسرے سے زیادہ نزدیک ہیں۔“
تشریح:
فائدہ: ابتدائے ایام ہجرت میں جب مملکت اسلام مدینہ منورہ میں اپنا وجود پکڑ رہی تھی۔ تو رسول اللہ ﷺ نے مہاجرین اور انصار کے مابین مواخات (بھائی چارے) کا نظام قائم فرمایا تھا۔ یعنی ایک ایک مہاجر کو ایک ایک انصاری کا بھائی بنا دیا۔ تاریخی اعتبار سے یہ ایک منفرد اور فقید المثال تجربہ تھا۔ جو نہ اس سے پہلے کبھی سننے میں آیا اور نہ شائد آئندہ کبھی ہو۔ اس مواخات کی بناء پریہ منہ بولے بھائی دوسرے نسبی قرابت داروں کی بجائے ایک دوسرے کے وارث بننے لگے۔ سورہ نساء میں اس کا ذکر اس طرح ہے۔ (وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ ۚ وَالَّذِينَ عَقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ فَآتُوهُمْ نَصِيبَهُمْ) (النساء:33) ماں باپ یا قرابت دار جو کچھ چھوڑ جایئں، اس سے ہر ایک کے ہم نے وارث مقرر کر دیے ہیں اور جن سے تم نے اپنے معاہدہ کیا ہے۔ پس ان سب کو ان کا حصہ دو، مگر وراثت کا یہ حکم تھوڑے عرصے کے بعدمنسوخ کردیا گیا۔اور سورۃ الانفال میں فرمایا گیا۔ (وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَىٰ بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللَّـهِ ۗ)(الأنفال:75) اور رشتے ناطے والے اللہ کی کتاب کے اندر ایک دوسرے کے زیادہ نزدیک ہیں۔ اسی طرح حلف کی وراثت کا ایک طریقہ یہ رائج تھا کہ اسلام سے قبل دو اشخاص یا دو قبیلوں کے درمیان ایک دوسرے کی مدد کےلئے معاہدہ اور حلف ہوتا تھا۔ اور اسلام کے بعد بھی یہ سلسلہ اسی طرح چلا آ رہا تھا۔ اسی آیت سے یہ طریقہ بھی منسوخ کر دیا گیا۔ مگر عمومی نصرت واخوت اسلامی اور وصیت کے ذریعے سے مدد کرنا باقی ہے۔ اور اس سے بھی بڑھ کرجب کوئی رشتہ دار موجود نہ ہو تو حلیف وارث ہوگا۔ بعض نے کہا کہ حلیف نہیں، بلکہ ایسے آدمی کی وراثت بیت المال میں جائے گی۔ قراءت حفص مفص میں جس کے مطابق اس وقت قرآن پڑھا جاتا ہے (عقدتْ ہے) لیکن بعض روایات میں (عاقدتْ پڑھا جاتا ہے) اس حدیث میں بھی یہ لفظ عاقدتْ ہے۔
٭فرائض کی لغوی اور اصطلاحی تعریف:[فرائض ‘ فريضة] کی جمع ہے جس کے معنی ہیں‘مقرر کیا ہوا‘اندازاہ لگایا ہوا‘حساب کیا ہوا۔اصطلاح میں ’’ فرائض ‘‘ کی تعریف اس طرح کی گئی ہے :(عِلْمٌ يُعْرَفُ بِهِ مَنْ يَّرِثُ مَنْ لًأ يَرِثُ وَ مِقْدَارُ مَا لِكُلِّ وَارِثٍ )’’ فرائض سے مراد وہ علم ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کون وارث ہے ‘ کون نہیں اور ہر وارث کا کیا حق ہے۔‘‘
وراثت کی تقسیم کو ’’فرائض‘‘ کا نا اس دیا جاتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ اور رسول اکرم ﷺ نے اسے فرائض کہا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے(فَرِضَةً مِّنَ اللهِ) اور ارشاد نبوی ہے:[تَعًلِّمُوا الفَرَائضَ] يا اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دیگر احکامات مثلاً نماز ‘روزہ‘حج یا زکوٰۃ وغیرہ کے بر عکس وراثت کے احکام میں تفصیلات خود بیان فرمائی ہیں‘ ہر حقدار کا حصہ مقرر فرما دیا ہے اس لیے اسے فرائض یعنی مقدر اور مقرر کیے ہوئے حقوق کہا جاتا ہے۔
٭وراثت کی مشروعیت :اسلام کے انسانیت پر بے شمار احسانات میں سے ایک وراثت کی تقسیم کے عادلانہ قوائد و ضوابط بھی ہیں ‘ اسلام سے قبل طاقت اور قوت ہی سکہ ٔرائج الوقت تھا۔ لہذا طاقت ور تمام آبائی جائیداد کے وارث بنتے جبکہ کمزور و ناتواں افراد خصوصا عورتیں اس سے بالکل محروم رکھے جاتے۔جیسا کہ ابتدائے اسلام میں بھی ایسے واقعات رونما ہوئے پھر پروردگار عالم نے انسانیت پر خصوصی رحمت کرتے ہوئے وراثت کی تقسیم کے قوانین نازل فرما کر اس قدیم ظلم کا خاتمہ فر ما دیا چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے(لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَفْرُوضًا)(النساء:4/7)’’ جو ماں باپ اور رشتہ دار چھوڑ مریں ‘وہ تھوڑا ہو یا زیادہ اس میں مردوں کا بھی حصہ ہے اور عورتوں کابھی ‘ یہ اللہ کے مقرر کیے ہوئے حصے ہیں ۔‘‘ نیز ضعیف و کمزور بچوں کے بارے میں فرمایا(يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ)(النساء4/11)’’ اللہ تعالیٰ تمھیں تمھاری اولاد کے بارے میں وصیت کرتا ہے کہ ایک مرد کا حصہ دو عورتوں کے حصے کے برابر ہے۔‘‘
٭وراثت کی شرائط ‘اسباب اور موانع : اللہ تعالیٰ نے ہر حقدار کو اس کا حق دے دیا ہے ‘اپنے حق کے حصول کیلئے چند شرائط ہیں جن کا پایا جانا ضروری ہے ‘ چند اسباب ہیں جن کے بغیر حقدار بننے کا دعوی نہیں کر سکتا اور چند رکاوٹیں ہیں جو کسی حقدار کو اس کے حق کی وصولی میں مانع ہیں ‘ان کی تفصیل اس طرح ہے
شرائط: 1میت (مورث) کی موت کا یقینی علم ہونا۔2 وارث کا اپنے مورث کی موت کے وقت زندہ ہونا ۔3 وراثت کے موانع کا نہ پایا جانا۔
اسباب:وراثت کے حصول کے لیے درج ذیل تین اسباب ہیں:
نسبی قرابت :جیسے باپ‘ دادا ‘بیٹا‘ پوتا وغیرہ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے(وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ) (النساء) 4/33) ’’ہر مال میں جو والدین اور قریبی رشتہ دار چھوڑ جائیں ‘ہم نے حقدار مقرر کر دیے ہیں۔‘‘
٭مسنون نکاح:کسی عورت اور مرد کا مسنون نکاح بھی ان کے ایک دوسرے کے وارث بننے کا سبب ہے ، خواہ اس نکاح کے بعد عورت کی رخصتی اور مرد سے خلوت ِصحیحہ ہو یا نہ ہو۔ارشاد باری تعالی ہے (وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُنَّ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِينَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ)(النساء :4/14)
٭ولاء:غلام کو آزاد کرنے والا اپنے غلام کا وارث بنتا ہے اور اگر آزاد کرنے والے کا کوئی وارث نہ ہو تو آزاد ہونے والا غلام اس کا وارث بنتا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا «إِنَّمَا الوَلاَءُ لِمَنْ أَعْتَقَ»’’یقیناً ولاء (وراثت کا حق) اس کے لیے ہے جس نے آزاد کیا۔‘‘ (صحيح البخارى ~الفرائض~ باب الولاء لمن أعتق وميراث اللقيط~ حديث:6756)
موانع:درج ذیل امور وارث کو اس کے حق سے محروم کر دیتے ہیں:
٭قتل : اگر وارث اپنے مورث کو ظلماً قتل کر دے تو وہ محروم کر دیتے ہیں:
٭کفر:کافر مسلمان کا اور مسلمان کافر رشتہ دار کا وارث نہیں بنتا۔
٭غلامی:غلام وارث نہیں ہوتا کیونکہ وہ خود کسی کی ملکیت ہوتا ہے۔
٭زنا:حرامی اولاد اپنے زانی باپ کی وارث نہیں بنتی۔
٭لعان:لعان کی صورت میں جدائی کے بعد میاں بیوی ایک دوسرے کے وارث نہیں بنتے۔
٭وہ بچہ جو پیدائش کے وقت چیخ وغیرہ نہ مارے یعنی اس میں زندگی کے آثار نہ ہوں تو وہ بھی وارث نہیں بنتا۔
تمہید باب
ابتدائے ایام ہجرت میں جب مملکت اسلام مدینہ منورہ میں اپنا وجود پکڑ رہی تھی۔تو رسول اللہ ﷺ نے مہاجرین اور انصار کے مابین مواخات (بھائی چارے)کانظام قائمفرمایاتھا۔یعنی ایک ایک مہاجر کو ایک ایک انصاری کا بھائی بنادیا۔تاریخی اعتبار سے یہ ایک منفرد اورفقید المثال تجربہ تھا۔جو نہ اس سے پہلے کبھی سننے میں آیا اور نہ شائد آئندہ کبھی ہو۔اس مواخات کی بناء پریہ منہ بولے بھائی دوسرےنسبی قرابت داروں کی بجائے ایک دوسرے کے وارث بننے لگے۔سورہ نساء میں اس کا ذکر اس طرح ہے۔(وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ ۚ وَالَّذِينَ عَقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ فَآتُوهُمْ نَصِيبَهُمْ)(النساء ۔33)''ماں باپ یاقرابت دارجو کچھ چھوڑ جایئں اس سے ہر ایک کے ہم نے وارث مقرر کردیے ہیں اور جن سے تم نے اپنے ہاتھوں معاہدہ کیاہے۔پس ان سب کو ان کا حصہ دو''مگر وراثت کا یہ حکم تھوڑے عرصے کے بعدمنسوخ کردیا گیا۔اور سورۃ الانفال میں فرمایا گیا۔(وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَىٰ بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللَّـهِۗ)(الانفال۔75)''اور رشتے ناطے والے اللہ کی کتاب کے اندر ایک دوسرے کے زیادہ نذدیک ہیں۔''اسی طرح حلف کی وراثت کا ایک طریقہ یہ رائج تھا کہ اسلام سے قبل دو اشخاص یادو قبیلوں کے درمیان ایک دوسرے کی مدد کےلئے معاہدہ اور حلف ہوتا تھا۔اور اسلام کے بعد بھی یہ سلسلہ اسیطرح چلا آرہا تھا۔اسی آیت سے یہ طریقہ بھی منسوخ کردیا گیا۔مگر عمومی نصرت واخوت اسلامی اور وصیت کے زریعے سے مدد کرنا باقی ہے۔اور اس سے بھی بڑھ کرجب کوئیرشتہ دار موجود نہ ہو تو حلیف وارث ہوگا۔بعض نے کہا کہ حلیف نہیں بلکہ ایسے آدمی کی وراثت بیت المال میں جائے گی۔
سیدنا ابن عباس ؓ نے آیت کریمہ: (وَالَّذِينَ عَاقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ فَآتُوهُمْ نَصِيبَهُمْ) کی تفسیر میں بیان کیا کہ ایک آدمی دوسرے کا حلیف بن جاتا تھا، جبکہ ان میں کوئی نسبی قرابت نہ ہوتی تھی، پھر ہر ایک دوسرے کا وارث بھی ہوتا تھا، تو اس حکم کو سورۃ الانفال نے منسوخ کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَى بِبَعْضٍ) ”رشتے ناتے والے ایک دوسرے سے زیادہ نزدیک ہیں۔“
حدیث حاشیہ:
فائدہ: ابتدائے ایام ہجرت میں جب مملکت اسلام مدینہ منورہ میں اپنا وجود پکڑ رہی تھی۔ تو رسول اللہ ﷺ نے مہاجرین اور انصار کے مابین مواخات (بھائی چارے) کا نظام قائم فرمایا تھا۔ یعنی ایک ایک مہاجر کو ایک ایک انصاری کا بھائی بنا دیا۔ تاریخی اعتبار سے یہ ایک منفرد اور فقید المثال تجربہ تھا۔ جو نہ اس سے پہلے کبھی سننے میں آیا اور نہ شائد آئندہ کبھی ہو۔ اس مواخات کی بناء پریہ منہ بولے بھائی دوسرے نسبی قرابت داروں کی بجائے ایک دوسرے کے وارث بننے لگے۔ سورہ نساء میں اس کا ذکر اس طرح ہے۔ (وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ ۚ وَالَّذِينَ عَقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ فَآتُوهُمْ نَصِيبَهُمْ) (النساء:33) ماں باپ یا قرابت دار جو کچھ چھوڑ جایئں، اس سے ہر ایک کے ہم نے وارث مقرر کر دیے ہیں اور جن سے تم نے اپنے معاہدہ کیا ہے۔ پس ان سب کو ان کا حصہ دو، مگر وراثت کا یہ حکم تھوڑے عرصے کے بعدمنسوخ کردیا گیا۔اور سورۃ الانفال میں فرمایا گیا۔ (وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَىٰ بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللَّـهِ ۗ)(الأنفال:75) اور رشتے ناطے والے اللہ کی کتاب کے اندر ایک دوسرے کے زیادہ نزدیک ہیں۔ اسی طرح حلف کی وراثت کا ایک طریقہ یہ رائج تھا کہ اسلام سے قبل دو اشخاص یا دو قبیلوں کے درمیان ایک دوسرے کی مدد کےلئے معاہدہ اور حلف ہوتا تھا۔ اور اسلام کے بعد بھی یہ سلسلہ اسی طرح چلا آ رہا تھا۔ اسی آیت سے یہ طریقہ بھی منسوخ کر دیا گیا۔ مگر عمومی نصرت واخوت اسلامی اور وصیت کے ذریعے سے مدد کرنا باقی ہے۔ اور اس سے بھی بڑھ کرجب کوئی رشتہ دار موجود نہ ہو تو حلیف وارث ہوگا۔ بعض نے کہا کہ حلیف نہیں، بلکہ ایسے آدمی کی وراثت بیت المال میں جائے گی۔ قراءت حفص مفص میں جس کے مطابق اس وقت قرآن پڑھا جاتا ہے (عقدتْ ہے) لیکن بعض روایات میں (عاقدتْ پڑھا جاتا ہے) اس حدیث میں بھی یہ لفظ عاقدتْ ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں اللہ تعالیٰ کے فرمان: (وَالَّذِينَ عَاقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ فَآتُوهُمْ نَصِيبَهُمْ) ”جن لوگوں سے تم نے قسمیں کھائی ہیں، ان کو ان کا حصہ دے دو۔“ (سورة النساء: ۳۳) کے مطابق پہلے ایک شخص دوسرے شخص سے جس سے قرابت نہ ہوتی، باہمی اخوت اور ایک دوسرے کے وارث ہونے کا عہد و پیمان کرتا، پھر ایک دوسرے کا وارث ہوتا، پھر یہ حکم سورۃ الانفال کی آیت: (وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَى بِبَعْضٍ) ”اور رشتے ناتے والے ان میں سے بعض بعض سے زیادہ نزدیک ہیں۔“ (سورة الأنفال: ۷۵) سے منسوخ ہو گیا۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Abbas (RA): To those also, to whom your right hand was pledged, give their due portion. A man made an agreement with another man (in early days of Islam), and there was no relationship between the ; one of them inherited from the other. The following verse of Surat Al-Anfal abrogated it: "But kindred by blood have prior right against each other".