کتاب: محصورات اراضی اور امارت سے متعلق احکام و مسائل
(
باب: نابینے کو عامل بنانا جائز ہے
)
Abu-Daud:
Tribute, Spoils, and Rulership (Kitab Al-Kharaj, Wal-Fai' Wal-Imarah)
(Chapter: Regarding A Blind Man Being Given A Position Of Leadership)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2931.
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے حضرت ابن ام مکتومؓ کو دو بار مدینے کا والی بنایا تھا۔
تشریح:
اسلام کے سوا باقی معاشرے بہت عرصہ تک نابیناؤں اور خصوصی افراد کے ساتھ امتیازی برتائو کرتے رہے۔ ان کو اہم ذمہ داریوں پر فائز کرنے کا تو تصور تک نہیں تھا۔ اسلام نے نہ صرف ان کے حقوق باقی انسانوں کے برابر کئے بلکہ ان کو انتہائی زمہ داریاں دینے کا بھی آغاز کیا۔ ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہکو مدینہ کی ایک اہم ترین ذمہ داری یعنی اذان دینا تو ہمہ وقت حاصل تھی۔ حالانکہ وہ اذان کے صحیح وقت کے تعین کےلئے دوسروں کی مدد کے محتاج تھے۔ اذان صبح کے وقت لوگ ان کو بتاتے تھے کہ (أصحبت أصبحت) آپ نے صبح کر دی ہے، صبح کردی ہے۔ اس کے علاوہ رسول اللہ ﷺ نے انھیں دوبارہ مدینے کا قائم مقام گورنر بھی بنایا۔ اس معاملے میں بھی اپنی ذمہ داریوں کی ادایئگی کےلئے یقینا انھیں بروقت دوسروں کی مدد کی ضرورت ہوتی ہوگی۔ اور دیکھا جائے تو ہر حاکم کو کسی نہ کسی صورت میں دوسروں کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ کسی کو ایک صورت میں کسی کو دوسری صورت میں نابینا آدمی اگر علم وعمل تقویٰ اور دانائی کے اعلیٰ معیار پر پورا اترتا ہو تو اسے حکومتی منصب دے دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اور کچھ لوگوں کا یہ کہنا کہ ایسا آدمی فیصلے کرنے کا اہل نہیں ہوسکتا۔ کہ وہ افراد کے پہچاننے اور شخصیات کی تعین وغیرہ کرنے سے قاصر ہوتا ہے۔ رسول اللہ کی حکمت کو نہ سمجھنے کیوجہ سے ہے۔ اگر نابینا صحیح اور بروقت فیصلہ کرنے اور دوسروں سےکام لینے کی صلاحیت رکھتا ہو تو اسے مناسب ذمہ داری دینے میں کوئی قباحت نہیں،بلکہ اس قسم کے خصوصی افراد کی حوصلہ افزائی کرنا اور ان سے ان کی اہلیت وصلاحیت کے مطابق کام لینا معاشرے کےلئے بہتر ہی ہے۔ مسلمان معاشروں میں ایسے افراد علم کی خدمت میں ہمیشہ ممتاز رہے۔ البتہ غیر اسلامی معاشروں کے ساتھ اختلاط کے سبب ایسے افراد کے بارے میں نامناسب رویہ شروع ہوا۔ واللہ أعلم۔
[خراج كى معنى] لغت میں اس کے لیے[دخل]’’آمدنی‘‘ اور [خرج]’’وہ حصہ جو کوئی شخص اپنی کمائی سے نکال کر دوسرے کو دیتا ہے۔‘‘ دونوں لفظ استعمال ہوتے ہیں حصہ دینے والے کے حوالے سے خرج اور وہی حصہ لینے والے کے حوالے سے دخل ہوگا خرج اور خراج دونوں لفظ قرآن مجید میں استعمال ہوئے ہیں ‘ارشاد باری تعالیٰ ہے(أَمْ تَسْأَلُهُمْ خَرْجًا فَخَرَاجُ رَبِّكَ خَيْرٌ وَهُوَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ) المؤمنون:72)’’ کیا آپ ان سے اپنی آمدنیوں میں سے کچھ حصہ نکال کر دینے کا مطالبہ کرتے ہیں ‘وہ حصہ جو آپ کے رب نے (آپ کیلئے) مقرر کر رکھا ہے بہتر ہے‘ وہ سب اچھا رزق دینے والا ہے۔‘‘ مبردنجوی کے نزدیک خرج مصدر ہے اور خراج اسم ہے۔ دیکھیے:(الجامع الأحكام القرآن للقرطبى:المومنون:72) امام بخاری نے خراج کا لفظ اجرت کے لیے اور اس حصے کے لیے جو آقاکسی غلام کی آمدنی سے اپنے لیے مقرر کرتا ہے ‘ دونوں کے لیے استعمال کیا ہے۔ (کتاب الاجارۃ‘باب:18‘19) حضرت عائشہ سے مروی صحیح بخاری کی یہ روایت (كان لأبى بكر غلام يخرج له الخراج وكان ابو بكر يأكل من خراجه)’’حضرت ابوبکر کا ایک غلام تھا جو آپ کے لیے اپنی آمدنی سے ایک حصہ نکالتا تھا اور ابوبکر اس حصے میں سے کھاتے تھے ۔‘‘(صحيح البخارى ~مناقب الانصار~باب أيام الجاهلية~حديث:3842) خراج کے مفہوم کی وضاحت کر دیتی ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فتح خیبر کے موقع پر حاصل ہونے والی فَی کی زمین اور باغات یہود کو اس شرط پر دیے کہ وہ ان کی آمدنی کا نصف حصہ بیت المال میں جمع کرائیں گے- یہاں سے لفظ خراج زمین وغیرہ سے حاصل ہوتے والے محصولات کے لیے رائج ہوگیا۔ بعدازاں اس میں وسعت آگئی اور خراج سے مراد تمام ذرائع سے حاصل ہونے والی حکومت کی آمدنی لی جانے لگی ۔
’’فَی‘‘ ان زمینوں یا اموال کو کہتے ہیں جو غیر مسلم دشمن خوفزدہ ہو کر جھوڑ جاتے ہیں اور وہ مسلمان حکومت کے قبضے میں آ جاتے ہیں اس کی وضاحت خود قرآن مجید میں ان الفاظ میں آتی ہے (وَمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلَا رِكَابٍ وَلَكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلَى مَنْ يَشَاءُ)(الحشر:6) ’’ اور اللہ نے ان سے اپنے رسول کی طرف جو مال لوٹایا تو اس کے لیے تم نے گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے ‘لیکن اللہ اپنے رسولوں کو جس پر چاہتا ہے غلبہ دیتا ہے ۔‘‘ بعد میں جب ایسی زمینوں کا متقل انتظام کیا جاتا ہے تو اس سے حاصل ہوتے والے محصولات بھی خراج کہلاتے ہیں۔[الإمارة]امر سے ہے معاملات کا انچارج ‘ولی الامر یا امیر کہلاتا ہے۔ قرآن مجید نے اس کا طریق کار اس طرح مقرر فرمایا ہے (وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ) ان کے معاملات چلانا‘ان کے باہم مشورے سے ہے ۔ ان کے باہم مشورے سے ہے ۔ان’’ اہل شوریٰ‘‘ سے مراد کون لوگ ہیں ؟ ظاہر ہے جن کا امیر چنا جا رہا ہے یا جن کے معاملات چلائے جا رہے ہیں انہی کے درمیان مشاورت ہوگی ۔اگر قرآن مجید کی ان آیات کو سامنے رکھا جائے تو مسلمانوں کے اندر شوریٰ ان سب کے درمیان ہوگی جن کی صفات قرآن مجید کی ان آیات کو سامنے رکھا جائے تو مسلمانوں کے اندر شوریٰ ان سب کے درمیان ہوگی جن کی صفات قرآن مجید کی ان آیات کو سامنے رکھا جائے تو مسلمانوں کے اندر شوریٰ ان سب کے درمیان ہو گی جن کی صفات قرآن مجید نے بیان فرما دی ہیں ۔ وہ قرآنی آیات یہ ہیں(لِلَّذِينَ آمَنُوا وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ (36) وَالَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ وَإِذَا مَا غَضِبُوا هُمْ يَغْفِرُونَ (37) وَالَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ (38) وَالَّذِينَ إِذَا أَصَابَهُمُ الْبَغْيُ هُمْ يَنْتَصِرُونَ)(الشوریٰ:36۔39) ’’جو لوگ ایمان لائے اور وہ اپنے رب ہی پر تو کلت کرتے ہیں اور جو کبیرہ گناہوں اور فواحش سے بچتے ہیں اور جب غصے میں آتے ہیں تو معاف کر دیتے ہیں ۔اور جنہوں نے اپنے رب کے حکم پر لبیک کہا ۔نماز قائم کی ‘ان کے تمام معاملات باہم مشورے سے طے ہوتے ہیں اور ہم نے ان کو جو رزق دیا اس میں سے خرچ کرتے ہیں اور جب ان پر ظلم ہوتا ہے تو اس کے ازالے کے لیے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔‘‘
ان آیات کی روشنی میں شوریٰ میں وہ تمام لوگ شریک ہوں گے جو 1 مومن ہوں 2 اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہوں۔ (دنیاوی معاملات کی آسانیوں کے لیے کسی غیر سے مدد یا تعاون حاصل کرنے کے قائل نہ ہوں۔3 کبائر اور فواحش سے بچتے ہوں اور بردبار غیر منتقم مزاج ہوں۔4 اپنے رب کی طرف سے عائد ذمہ درایاں پور ی کریں اللہ کے ساتھ عبادت کے ذریعے سے قریبی رابطہ ہو‘ہر دائر کا رمیں تمام معاملات شوریٰ کے ذریعے سے طے کرنا ان کا طریق کار ہو اور مال اللہ کی رضا کے لیے ضرورت مندوں پر خرچ کریں۔ 5 کسی بھی قسم کے ظلم کو سہنے کی بجائے اس کے خاتمے کے لیے کھڑے ہو جائیں ۔ عام لوگوں کی تعداد چاہے کروڑوں میں ہو۔ لیکن ان میں سے اہل شوریٰ وہی ہو ں گے جو مذکورہ صفات کے حامل ہوں گے اور ان سب کا حق ہے کہ حکومت کا انتخاب اور انتظام و انصرام ان کے مشورے سے ہو ۔اللہ اور اس کے رسول کا احکامات کے بعد یہ شوریٰ ہی اصل اختیارات کی مالک اور تمام فیصلے کرنے کی مجاز ہے۔
رسول اللہ ﷺ کے بعد حضرت ابوبکر ولی الامر تھے۔ انہیں خلیفہ رسول اللہ کہا جاتا تھا۔پھر حضرت عمر ولی الامر ہوئے تو انہوں نے خلیفہ رسول اللہ کے بجائے اس منصب کو امیر المومنین کا عنوان دیا۔ امام الوداود نے اس کتاب میں امارت کی ذمہ داریوں ‘لوگوں کے حقوق منصب کی طلب گاری اس کی اہلیت اس کی معاونت اس کی ہیبت ‘ عمال حکومت اور ان کی تنخواہوں ‘ ان کی امانت داری وغیرہ کےحوالے سے مختلف احادیث درج کی ہیں جن سے سرکاری انتظامیہ (ایڈمنسٹریشن) کا بنیادی ڈھانچہ سامنے آتا ہے اس کے علاوہ انہوں نے خراج اور فے کے مسائل سے متعلق احادیث بھ اس حصے میں جمع کر دی ہیں یہ دونوں سرکاری ایڈمنسڑیشن کے بنیادی اور اہم شعبے ہیں جو عموماً براہِ راست ولی الامر کے تحت ہوتے ہیں۔
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے حضرت ابن ام مکتومؓ کو دو بار مدینے کا والی بنایا تھا۔
حدیث حاشیہ:
اسلام کے سوا باقی معاشرے بہت عرصہ تک نابیناؤں اور خصوصی افراد کے ساتھ امتیازی برتائو کرتے رہے۔ ان کو اہم ذمہ داریوں پر فائز کرنے کا تو تصور تک نہیں تھا۔ اسلام نے نہ صرف ان کے حقوق باقی انسانوں کے برابر کئے بلکہ ان کو انتہائی زمہ داریاں دینے کا بھی آغاز کیا۔ ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہکو مدینہ کی ایک اہم ترین ذمہ داری یعنی اذان دینا تو ہمہ وقت حاصل تھی۔ حالانکہ وہ اذان کے صحیح وقت کے تعین کےلئے دوسروں کی مدد کے محتاج تھے۔ اذان صبح کے وقت لوگ ان کو بتاتے تھے کہ (أصحبت أصبحت) آپ نے صبح کر دی ہے، صبح کردی ہے۔ اس کے علاوہ رسول اللہ ﷺ نے انھیں دوبارہ مدینے کا قائم مقام گورنر بھی بنایا۔ اس معاملے میں بھی اپنی ذمہ داریوں کی ادایئگی کےلئے یقینا انھیں بروقت دوسروں کی مدد کی ضرورت ہوتی ہوگی۔ اور دیکھا جائے تو ہر حاکم کو کسی نہ کسی صورت میں دوسروں کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ کسی کو ایک صورت میں کسی کو دوسری صورت میں نابینا آدمی اگر علم وعمل تقویٰ اور دانائی کے اعلیٰ معیار پر پورا اترتا ہو تو اسے حکومتی منصب دے دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اور کچھ لوگوں کا یہ کہنا کہ ایسا آدمی فیصلے کرنے کا اہل نہیں ہوسکتا۔ کہ وہ افراد کے پہچاننے اور شخصیات کی تعین وغیرہ کرنے سے قاصر ہوتا ہے۔ رسول اللہ کی حکمت کو نہ سمجھنے کیوجہ سے ہے۔ اگر نابینا صحیح اور بروقت فیصلہ کرنے اور دوسروں سےکام لینے کی صلاحیت رکھتا ہو تو اسے مناسب ذمہ داری دینے میں کوئی قباحت نہیں،بلکہ اس قسم کے خصوصی افراد کی حوصلہ افزائی کرنا اور ان سے ان کی اہلیت وصلاحیت کے مطابق کام لینا معاشرے کےلئے بہتر ہی ہے۔ مسلمان معاشروں میں ایسے افراد علم کی خدمت میں ہمیشہ ممتاز رہے۔ البتہ غیر اسلامی معاشروں کے ساتھ اختلاط کے سبب ایسے افراد کے بارے میں نامناسب رویہ شروع ہوا۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
انس ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے عبداللہ بن ام مکتوم ؓ کو مدینہ میں دو مرتبہ (جب جہاد کو جانے لگے) اپنا قائم مقام (خلیفہ) بنایا۱؎۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: حافظ ابن عبدالبر کہتے ہیں کہ نسب اور سیر کے علماء کی ایک جماعت نے روایت کی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے غزوات میں ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو تیرہ مرتبہ اپنا جانشین مقرر کیا ہے، اور قتادہ کے اس قول کی توجیہ یہ کی جاتی ہے کہ ان تک وہ روایتیں نہیں پہنچ سکی ہیں جو دوسروں تک پہنچی ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas (RA): The Prophet (ﷺ) appointed Ibn Umm Makthum as a governor of Madinah (in his absence) twice.