مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2933.
سیدنا مقدام بن معدیکرب ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس کے کندھے پر ہاتھ مارا، پھر فرمایا: ”اے قدیم! (قاف کی پیش اور دال پر زبر کے ساتھ) تو کامیاب ہوا اگر اس حال میں فوت ہوا کہ نہ امیر بنا، نہ اس کا سیکرٹری اور نہ عریف (اپنی قوم کا سردار)۔“
تشریح:
اس باب کی دونوں حدیثیں سنداً ضعیف ہیں۔ لیکن اس حدیث سے اور اس سے اگلی حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے۔ کہ عریف یا گاؤں کے چودھری ملک اور وڈیرے کا دستور قدیم سے موجود تھا۔ اور یہ لوگ ماضی کی روایات کے تحت معاشرے کی ایک اہم ضرورت پوری کرتے تھے۔ لیکن بہت سی ناروا باتیں نمائندگی میں عدم توازن لوگوں کے بعض حقوق سے اغماض جیسی غلطیاں بھی ان سے سر زد ہوتی تھیں۔ اس قدیم طریق کے مطابق چل کر ذمہ داریاں نبھانا اسلام کے تصور عدل کے مطابق تو نہ تھا لیکن جب تک ایماندار تربیت یافتہ عملہ حاصل نہ ہوجاتا۔ اور ان کو ہر جگہ متعین نہ کر دیا جاتا۔ انہیں لوگوں سے کام لینا ناگزیر تھا۔ رسول اللہ ﷺ اور آپﷺ کے خلفاء نے مختلف آبادیوں کی نمائندگی اور انتظام اور انصرام کےلئے متعدد طریق اختیار فرمائے۔ بعض اوقات قبائل میں سے مسلمان ہونے والے لوگوں کی دینی تربیت کرکے یہ ذمہ داریاں ان کے سپرد کر دیں۔ بعض اوقات سابقہ عریفوں کو ہی نئی ہدایات کے ساتھ اپنے منصب پر برقرار رکھا۔ بعض اوقات اپنی تربیت یافتہ ٹیم سے لوگ بھیج دیے۔ بعض دفعہ تربیت دینے والے بھیجے۔ جو مقامی افراد کو تیار کرکے وہاں کے معاملات ان کے سپرد کرکے واپس آجاتے۔ یہ تمام طریقے صحیح احادیث میں مذکور ہیں۔ علاوہ ازیں حکومتی مناصب کی ذمہ داریاں دنیا اور آخرت کے لحاظ سے بڑی سخت ہیں۔ لیکن اگر ایمان اور دیانت سے یہ فرائض نبھائے جاییں تو اس کا اجر بھی بہت زیادہ ہے۔
[خراج كى معنى] لغت میں اس کے لیے[دخل]’’آمدنی‘‘ اور [خرج]’’وہ حصہ جو کوئی شخص اپنی کمائی سے نکال کر دوسرے کو دیتا ہے۔‘‘ دونوں لفظ استعمال ہوتے ہیں حصہ دینے والے کے حوالے سے خرج اور وہی حصہ لینے والے کے حوالے سے دخل ہوگا خرج اور خراج دونوں لفظ قرآن مجید میں استعمال ہوئے ہیں ‘ارشاد باری تعالیٰ ہے(أَمْ تَسْأَلُهُمْ خَرْجًا فَخَرَاجُ رَبِّكَ خَيْرٌ وَهُوَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ) المؤمنون:72)’’ کیا آپ ان سے اپنی آمدنیوں میں سے کچھ حصہ نکال کر دینے کا مطالبہ کرتے ہیں ‘وہ حصہ جو آپ کے رب نے (آپ کیلئے) مقرر کر رکھا ہے بہتر ہے‘ وہ سب اچھا رزق دینے والا ہے۔‘‘ مبردنجوی کے نزدیک خرج مصدر ہے اور خراج اسم ہے۔ دیکھیے:(الجامع الأحكام القرآن للقرطبى:المومنون:72) امام بخاری نے خراج کا لفظ اجرت کے لیے اور اس حصے کے لیے جو آقاکسی غلام کی آمدنی سے اپنے لیے مقرر کرتا ہے ‘ دونوں کے لیے استعمال کیا ہے۔ (کتاب الاجارۃ‘باب:18‘19) حضرت عائشہ سے مروی صحیح بخاری کی یہ روایت (كان لأبى بكر غلام يخرج له الخراج وكان ابو بكر يأكل من خراجه)’’حضرت ابوبکر کا ایک غلام تھا جو آپ کے لیے اپنی آمدنی سے ایک حصہ نکالتا تھا اور ابوبکر اس حصے میں سے کھاتے تھے ۔‘‘(صحيح البخارى ~مناقب الانصار~باب أيام الجاهلية~حديث:3842) خراج کے مفہوم کی وضاحت کر دیتی ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فتح خیبر کے موقع پر حاصل ہونے والی فَی کی زمین اور باغات یہود کو اس شرط پر دیے کہ وہ ان کی آمدنی کا نصف حصہ بیت المال میں جمع کرائیں گے- یہاں سے لفظ خراج زمین وغیرہ سے حاصل ہوتے والے محصولات کے لیے رائج ہوگیا۔ بعدازاں اس میں وسعت آگئی اور خراج سے مراد تمام ذرائع سے حاصل ہونے والی حکومت کی آمدنی لی جانے لگی ۔
’’فَی‘‘ ان زمینوں یا اموال کو کہتے ہیں جو غیر مسلم دشمن خوفزدہ ہو کر جھوڑ جاتے ہیں اور وہ مسلمان حکومت کے قبضے میں آ جاتے ہیں اس کی وضاحت خود قرآن مجید میں ان الفاظ میں آتی ہے (وَمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلَا رِكَابٍ وَلَكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلَى مَنْ يَشَاءُ)(الحشر:6) ’’ اور اللہ نے ان سے اپنے رسول کی طرف جو مال لوٹایا تو اس کے لیے تم نے گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے ‘لیکن اللہ اپنے رسولوں کو جس پر چاہتا ہے غلبہ دیتا ہے ۔‘‘ بعد میں جب ایسی زمینوں کا متقل انتظام کیا جاتا ہے تو اس سے حاصل ہوتے والے محصولات بھی خراج کہلاتے ہیں۔[الإمارة]امر سے ہے معاملات کا انچارج ‘ولی الامر یا امیر کہلاتا ہے۔ قرآن مجید نے اس کا طریق کار اس طرح مقرر فرمایا ہے (وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ) ان کے معاملات چلانا‘ان کے باہم مشورے سے ہے ۔ ان کے باہم مشورے سے ہے ۔ان’’ اہل شوریٰ‘‘ سے مراد کون لوگ ہیں ؟ ظاہر ہے جن کا امیر چنا جا رہا ہے یا جن کے معاملات چلائے جا رہے ہیں انہی کے درمیان مشاورت ہوگی ۔اگر قرآن مجید کی ان آیات کو سامنے رکھا جائے تو مسلمانوں کے اندر شوریٰ ان سب کے درمیان ہوگی جن کی صفات قرآن مجید کی ان آیات کو سامنے رکھا جائے تو مسلمانوں کے اندر شوریٰ ان سب کے درمیان ہوگی جن کی صفات قرآن مجید کی ان آیات کو سامنے رکھا جائے تو مسلمانوں کے اندر شوریٰ ان سب کے درمیان ہو گی جن کی صفات قرآن مجید نے بیان فرما دی ہیں ۔ وہ قرآنی آیات یہ ہیں(لِلَّذِينَ آمَنُوا وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ (36) وَالَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ وَإِذَا مَا غَضِبُوا هُمْ يَغْفِرُونَ (37) وَالَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ (38) وَالَّذِينَ إِذَا أَصَابَهُمُ الْبَغْيُ هُمْ يَنْتَصِرُونَ)(الشوریٰ:36۔39) ’’جو لوگ ایمان لائے اور وہ اپنے رب ہی پر تو کلت کرتے ہیں اور جو کبیرہ گناہوں اور فواحش سے بچتے ہیں اور جب غصے میں آتے ہیں تو معاف کر دیتے ہیں ۔اور جنہوں نے اپنے رب کے حکم پر لبیک کہا ۔نماز قائم کی ‘ان کے تمام معاملات باہم مشورے سے طے ہوتے ہیں اور ہم نے ان کو جو رزق دیا اس میں سے خرچ کرتے ہیں اور جب ان پر ظلم ہوتا ہے تو اس کے ازالے کے لیے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔‘‘
ان آیات کی روشنی میں شوریٰ میں وہ تمام لوگ شریک ہوں گے جو 1 مومن ہوں 2 اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہوں۔ (دنیاوی معاملات کی آسانیوں کے لیے کسی غیر سے مدد یا تعاون حاصل کرنے کے قائل نہ ہوں۔3 کبائر اور فواحش سے بچتے ہوں اور بردبار غیر منتقم مزاج ہوں۔4 اپنے رب کی طرف سے عائد ذمہ درایاں پور ی کریں اللہ کے ساتھ عبادت کے ذریعے سے قریبی رابطہ ہو‘ہر دائر کا رمیں تمام معاملات شوریٰ کے ذریعے سے طے کرنا ان کا طریق کار ہو اور مال اللہ کی رضا کے لیے ضرورت مندوں پر خرچ کریں۔ 5 کسی بھی قسم کے ظلم کو سہنے کی بجائے اس کے خاتمے کے لیے کھڑے ہو جائیں ۔ عام لوگوں کی تعداد چاہے کروڑوں میں ہو۔ لیکن ان میں سے اہل شوریٰ وہی ہو ں گے جو مذکورہ صفات کے حامل ہوں گے اور ان سب کا حق ہے کہ حکومت کا انتخاب اور انتظام و انصرام ان کے مشورے سے ہو ۔اللہ اور اس کے رسول کا احکامات کے بعد یہ شوریٰ ہی اصل اختیارات کی مالک اور تمام فیصلے کرنے کی مجاز ہے۔
رسول اللہ ﷺ کے بعد حضرت ابوبکر ولی الامر تھے۔ انہیں خلیفہ رسول اللہ کہا جاتا تھا۔پھر حضرت عمر ولی الامر ہوئے تو انہوں نے خلیفہ رسول اللہ کے بجائے اس منصب کو امیر المومنین کا عنوان دیا۔ امام الوداود نے اس کتاب میں امارت کی ذمہ داریوں ‘لوگوں کے حقوق منصب کی طلب گاری اس کی اہلیت اس کی معاونت اس کی ہیبت ‘ عمال حکومت اور ان کی تنخواہوں ‘ ان کی امانت داری وغیرہ کےحوالے سے مختلف احادیث درج کی ہیں جن سے سرکاری انتظامیہ (ایڈمنسٹریشن) کا بنیادی ڈھانچہ سامنے آتا ہے اس کے علاوہ انہوں نے خراج اور فے کے مسائل سے متعلق احادیث بھ اس حصے میں جمع کر دی ہیں یہ دونوں سرکاری ایڈمنسڑیشن کے بنیادی اور اہم شعبے ہیں جو عموماً براہِ راست ولی الامر کے تحت ہوتے ہیں۔
تمہید باب
قوم قبیلے کی سطح کے سردار اور نمائندے کوعربی میں ''عریف '' کہاجاتاہے۔جو ان کے احوال سے باخبر رہتا ہے۔اورلوگ بھی اسے حاکم اعلیٰ کے سامنے اپنا نمائندہ سمجھتے ہیں۔ بادشاہ کوان کے ذریعے سے برے بھلے کی خبر ملتی رہتی اور اسی طرح نظم و انتطام کو سنبھالنا اور چلانا بہت آسان ہوجاتا ہے۔یہ عُرفاء لوگوں کی مرضی سے قبائلی رسم ورواج کے مطابق مقرر ہوتے تھے۔
سیدنا مقدام بن معدیکرب ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس کے کندھے پر ہاتھ مارا، پھر فرمایا: ”اے قدیم! (قاف کی پیش اور دال پر زبر کے ساتھ) تو کامیاب ہوا اگر اس حال میں فوت ہوا کہ نہ امیر بنا، نہ اس کا سیکرٹری اور نہ عریف (اپنی قوم کا سردار)۔“
حدیث حاشیہ:
اس باب کی دونوں حدیثیں سنداً ضعیف ہیں۔ لیکن اس حدیث سے اور اس سے اگلی حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے۔ کہ عریف یا گاؤں کے چودھری ملک اور وڈیرے کا دستور قدیم سے موجود تھا۔ اور یہ لوگ ماضی کی روایات کے تحت معاشرے کی ایک اہم ضرورت پوری کرتے تھے۔ لیکن بہت سی ناروا باتیں نمائندگی میں عدم توازن لوگوں کے بعض حقوق سے اغماض جیسی غلطیاں بھی ان سے سر زد ہوتی تھیں۔ اس قدیم طریق کے مطابق چل کر ذمہ داریاں نبھانا اسلام کے تصور عدل کے مطابق تو نہ تھا لیکن جب تک ایماندار تربیت یافتہ عملہ حاصل نہ ہوجاتا۔ اور ان کو ہر جگہ متعین نہ کر دیا جاتا۔ انہیں لوگوں سے کام لینا ناگزیر تھا۔ رسول اللہ ﷺ اور آپﷺ کے خلفاء نے مختلف آبادیوں کی نمائندگی اور انتظام اور انصرام کےلئے متعدد طریق اختیار فرمائے۔ بعض اوقات قبائل میں سے مسلمان ہونے والے لوگوں کی دینی تربیت کرکے یہ ذمہ داریاں ان کے سپرد کر دیں۔ بعض اوقات سابقہ عریفوں کو ہی نئی ہدایات کے ساتھ اپنے منصب پر برقرار رکھا۔ بعض اوقات اپنی تربیت یافتہ ٹیم سے لوگ بھیج دیے۔ بعض دفعہ تربیت دینے والے بھیجے۔ جو مقامی افراد کو تیار کرکے وہاں کے معاملات ان کے سپرد کرکے واپس آجاتے۔ یہ تمام طریقے صحیح احادیث میں مذکور ہیں۔ علاوہ ازیں حکومتی مناصب کی ذمہ داریاں دنیا اور آخرت کے لحاظ سے بڑی سخت ہیں۔ لیکن اگر ایمان اور دیانت سے یہ فرائض نبھائے جاییں تو اس کا اجر بھی بہت زیادہ ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مقدام بن معد یکرب ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کے کندھے پر مارا پھر ان سے فرمایا: ”قدیم! (مقدام کی تصغیر ہے) اگر تم امیر، منشی اور عریف ہوئے بغیر مر گئے تو تم نے نجات پا لی۲؎۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎: عریف: اپنے ساتھیوں کا تعارف کرانے والا، قوم کے معاملات کی دیکھ بھال کرنے والا، نقیب، یہ حاکم سے کم مرتبے کا ہوتا ہے، اور اپنی قوم کے ہر ایک شخص کا رویہ اور چال چلن حاکم سے بیان کرتا ہے اور اسے برے بھلے کی خبر دیتا ہے۔ ۲؎: اس لئے کہ ہر سرکاری کام میں مواخذہ اور تقصیر خدمت کا ڈر لگا رہتا ہے، اسی وجہ سے سلف نے زراعت اور تجارت کو نوکری سے بہتر جانا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Al-Miqdam ibn Ma'dikarib: The Apostle of Allah (ﷺ) struck him on his shoulders and then said: You will attain success, Qudaym, if you die without having been a ruler, a secretary, or a chief.