Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: What Should Be Said When A Person Exits The Toilet In Which He Relieved Himself)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
30.
ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ جب بیت الخلاء سے فارغ ہو کر نکلتے تو کہتے «غُفْرَانَكَ» اے اللہ ! میں تیری بخشش چاہتا ہوں۔
تشریح:
فائدہ: علاوہ ازیں اور بھی دعائیں آئی ہیں مگر یہ حدیث اور دعا دیگر دعاؤں کے مقابلےمیں سند کے اعتبار سے زیادہ قوی ہے۔ علامہ خطابی اس دعا کی حکمت یہ بتاتے ہیں کہ چونکہ یہ وقت اللہ کے ذکر کے بغیر گزرتا ہے اس لیے اس پر استغفار کی تعلیم دی گئی ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح، وصححه أبو حاتم وابن خزيمة وابن حبان وابن الجارود والحاكم والنووي والذهبي) .
إسناده: حدثنا عمرو بن محمد الناقد: ثنا هاشم بن القاسم: ثنا إسرائيل عن يوسف بن أبي بُردة عن أبيه: حدثتني عائشة.
وهذ إسناد صحيح، رجاله كلهم ثقات رجال الشيخين، غير يوسف هذا؛ وقد وثقه ابن حبان والعجلي والحاكم.
والحديث أخرجه البخاري في الأدب المفرد (100) ، وعنه الترمذي والدارمي وابن ماجه، وابن السني (رقم 22) من طريق النسائي، وابن خزيمة (1/15/1) ، والحاكم (1/158) ، والبيهقي من طرق عن إسرائيل بن يونس به.
وقال الترمذي: حديث حسن . والحاكم: حديث صحيح؛ فإن يوسف بن أبي بردة من ثقات آل أبي موسى ؛ ووافقه الذهبي. وقال الحافظ في البلوغ : وصححه أبو حاتم ! قلت: ونقل ابنه في العلل (1/43/رقم 93) أنه:
أصح حديث في هذا الباب . وهذا لا يفيد صحة الحديث، كما هو مقرر في المصطلح، وإنما يفيد صحة نسبيَة. وقال المناوي: وصححه ابن خزيمة وابن حبان وابن الجارود والنووي في مجموعه ... . قلت: وعزاه النووي فيه (2/75) للنسائي في اليوم والليلة ، وصححه أيضا في الأذكار (ص 35) . وعزاه المنذري (رقم 28) إلى النسائي أيضا، ولكنه أطلق ولم يقيد! فاعترض عليه صاحب العون بقوله: ما أخرجه النسائي في السنن المجتبى ، بل أخرجه في كتاب عمل اليوم والليلة ، فإطلاقه من غير تقييد لا يناسب . وقد أصاب. وعزاه الحافظ في التلخيص (1/530) إلى السنن ، وذكر أنه أشهر ما في الباب. ورواه أحمد أيضا (6/155) .
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ جب بیت الخلاء سے فارغ ہو کر نکلتے تو کہتے «غُفْرَانَكَ» اے اللہ ! میں تیری بخشش چاہتا ہوں۔
حدیث حاشیہ:
فائدہ: علاوہ ازیں اور بھی دعائیں آئی ہیں مگر یہ حدیث اور دعا دیگر دعاؤں کے مقابلےمیں سند کے اعتبار سے زیادہ قوی ہے۔ علامہ خطابی اس دعا کی حکمت یہ بتاتے ہیں کہ چونکہ یہ وقت اللہ کے ذکر کے بغیر گزرتا ہے اس لیے اس پر استغفار کی تعلیم دی گئی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوبردہ کہتے ہیں کہ مجھ سے ام المؤمنین عائشہ ؓ نے بیان کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب بیت الخلاء (پاخانہ) سے نکلتے تو فرماتے تھے: «غُفْرَانَكَ» ’’اے اللہ! میں تیری بخشش چاہتا ہوں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Aishah, Ummul Mu'minin (RA): When the Prophet (ﷺ) came out of the privy, he used to say: "Grant me Thy forgiveness".