کتاب: محصورات اراضی اور امارت سے متعلق احکام و مسائل
(
باب: حاکم کا مشرکوں سے ہدیہ قبول کرنا
)
Abu-Daud:
Tribute, Spoils, and Rulership (Kitab Al-Kharaj, Wal-Fai' Wal-Imarah)
(Chapter: Regarding The Imam Accepting Gifts From Idolaters)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3057.
سیدنا عیاض بن حماد ؓ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ علیہ وسلم کی خدمت میں بطور ہدیہ ایک اونٹنی پیش کی تو آپ ﷺ نے پوچھا ” کیا تم نے اسلام قبول کر لیا ہے ؟ “ میں کہا : نہیں تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا ” مجھے مشرکین کے عطایا قبول کرنے سے روکا گیا ہے ۔ “
تشریح:
چونکہ ہدیہ لینا دینا دلوں میں قربت اورمحبت پیدا کرتا ہے۔اس لئے کافروں اور مشرکوں سے آذادانہ طور پر ہدیہ کے تبادلے سے پرہیز کرنا چاہیے۔تاہم جہاں کوئی شرعی اور سیاسی مصلحت ہو تو ہدیہ لینے میں کوئ حرج نہیں۔ مثلاکوئی کافرمسلمانوں کےلئے اپنے خضوع کا اظہار کرنا چاہتا ہو یا امید ہو کہ اس کے ساتھ موانست سے وہ اسلام کے قریب ہوگا۔یا اسلام لے آئے گا وغیرہ۔امام بخاری نے صحیح بخاری کتاب لہبہ باب قبول الہدیہ من المشرکین اور باب الہدیۃ للمشرکین میں یہی ثابت کیا ہے۔2۔ حضرت عیاض بن حمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہدیہ قبول نہ کرنے کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ انہیں اسلام لانے پر ابھارنا مقصود تھا۔آپﷺ نے اکیدر دومہ اورنجاشی کا ہدیہ قبول کیاہے۔کیونکہ ان کے ایمان لانے کی قوی امید تھی۔3۔حضرت عیاض بن حماد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بعد میں اسلام قبول کرلیا۔اور رسول اللہ ﷺ کی صحبت اختیار کی۔
[خراج كى معنى] لغت میں اس کے لیے[دخل]’’آمدنی‘‘ اور [خرج]’’وہ حصہ جو کوئی شخص اپنی کمائی سے نکال کر دوسرے کو دیتا ہے۔‘‘ دونوں لفظ استعمال ہوتے ہیں حصہ دینے والے کے حوالے سے خرج اور وہی حصہ لینے والے کے حوالے سے دخل ہوگا خرج اور خراج دونوں لفظ قرآن مجید میں استعمال ہوئے ہیں ‘ارشاد باری تعالیٰ ہے(أَمْ تَسْأَلُهُمْ خَرْجًا فَخَرَاجُ رَبِّكَ خَيْرٌ وَهُوَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ) المؤمنون:72)’’ کیا آپ ان سے اپنی آمدنیوں میں سے کچھ حصہ نکال کر دینے کا مطالبہ کرتے ہیں ‘وہ حصہ جو آپ کے رب نے (آپ کیلئے) مقرر کر رکھا ہے بہتر ہے‘ وہ سب اچھا رزق دینے والا ہے۔‘‘ مبردنجوی کے نزدیک خرج مصدر ہے اور خراج اسم ہے۔ دیکھیے:(الجامع الأحكام القرآن للقرطبى:المومنون:72) امام بخاری نے خراج کا لفظ اجرت کے لیے اور اس حصے کے لیے جو آقاکسی غلام کی آمدنی سے اپنے لیے مقرر کرتا ہے ‘ دونوں کے لیے استعمال کیا ہے۔ (کتاب الاجارۃ‘باب:18‘19) حضرت عائشہ سے مروی صحیح بخاری کی یہ روایت (كان لأبى بكر غلام يخرج له الخراج وكان ابو بكر يأكل من خراجه)’’حضرت ابوبکر کا ایک غلام تھا جو آپ کے لیے اپنی آمدنی سے ایک حصہ نکالتا تھا اور ابوبکر اس حصے میں سے کھاتے تھے ۔‘‘(صحيح البخارى ~مناقب الانصار~باب أيام الجاهلية~حديث:3842) خراج کے مفہوم کی وضاحت کر دیتی ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فتح خیبر کے موقع پر حاصل ہونے والی فَی کی زمین اور باغات یہود کو اس شرط پر دیے کہ وہ ان کی آمدنی کا نصف حصہ بیت المال میں جمع کرائیں گے- یہاں سے لفظ خراج زمین وغیرہ سے حاصل ہوتے والے محصولات کے لیے رائج ہوگیا۔ بعدازاں اس میں وسعت آگئی اور خراج سے مراد تمام ذرائع سے حاصل ہونے والی حکومت کی آمدنی لی جانے لگی ۔
’’فَی‘‘ ان زمینوں یا اموال کو کہتے ہیں جو غیر مسلم دشمن خوفزدہ ہو کر جھوڑ جاتے ہیں اور وہ مسلمان حکومت کے قبضے میں آ جاتے ہیں اس کی وضاحت خود قرآن مجید میں ان الفاظ میں آتی ہے (وَمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلَا رِكَابٍ وَلَكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلَى مَنْ يَشَاءُ)(الحشر:6) ’’ اور اللہ نے ان سے اپنے رسول کی طرف جو مال لوٹایا تو اس کے لیے تم نے گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے ‘لیکن اللہ اپنے رسولوں کو جس پر چاہتا ہے غلبہ دیتا ہے ۔‘‘ بعد میں جب ایسی زمینوں کا متقل انتظام کیا جاتا ہے تو اس سے حاصل ہوتے والے محصولات بھی خراج کہلاتے ہیں۔[الإمارة]امر سے ہے معاملات کا انچارج ‘ولی الامر یا امیر کہلاتا ہے۔ قرآن مجید نے اس کا طریق کار اس طرح مقرر فرمایا ہے (وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ) ان کے معاملات چلانا‘ان کے باہم مشورے سے ہے ۔ ان کے باہم مشورے سے ہے ۔ان’’ اہل شوریٰ‘‘ سے مراد کون لوگ ہیں ؟ ظاہر ہے جن کا امیر چنا جا رہا ہے یا جن کے معاملات چلائے جا رہے ہیں انہی کے درمیان مشاورت ہوگی ۔اگر قرآن مجید کی ان آیات کو سامنے رکھا جائے تو مسلمانوں کے اندر شوریٰ ان سب کے درمیان ہوگی جن کی صفات قرآن مجید کی ان آیات کو سامنے رکھا جائے تو مسلمانوں کے اندر شوریٰ ان سب کے درمیان ہوگی جن کی صفات قرآن مجید کی ان آیات کو سامنے رکھا جائے تو مسلمانوں کے اندر شوریٰ ان سب کے درمیان ہو گی جن کی صفات قرآن مجید نے بیان فرما دی ہیں ۔ وہ قرآنی آیات یہ ہیں(لِلَّذِينَ آمَنُوا وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ (36) وَالَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ وَإِذَا مَا غَضِبُوا هُمْ يَغْفِرُونَ (37) وَالَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ (38) وَالَّذِينَ إِذَا أَصَابَهُمُ الْبَغْيُ هُمْ يَنْتَصِرُونَ)(الشوریٰ:36۔39) ’’جو لوگ ایمان لائے اور وہ اپنے رب ہی پر تو کلت کرتے ہیں اور جو کبیرہ گناہوں اور فواحش سے بچتے ہیں اور جب غصے میں آتے ہیں تو معاف کر دیتے ہیں ۔اور جنہوں نے اپنے رب کے حکم پر لبیک کہا ۔نماز قائم کی ‘ان کے تمام معاملات باہم مشورے سے طے ہوتے ہیں اور ہم نے ان کو جو رزق دیا اس میں سے خرچ کرتے ہیں اور جب ان پر ظلم ہوتا ہے تو اس کے ازالے کے لیے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔‘‘
ان آیات کی روشنی میں شوریٰ میں وہ تمام لوگ شریک ہوں گے جو 1 مومن ہوں 2 اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہوں۔ (دنیاوی معاملات کی آسانیوں کے لیے کسی غیر سے مدد یا تعاون حاصل کرنے کے قائل نہ ہوں۔3 کبائر اور فواحش سے بچتے ہوں اور بردبار غیر منتقم مزاج ہوں۔4 اپنے رب کی طرف سے عائد ذمہ درایاں پور ی کریں اللہ کے ساتھ عبادت کے ذریعے سے قریبی رابطہ ہو‘ہر دائر کا رمیں تمام معاملات شوریٰ کے ذریعے سے طے کرنا ان کا طریق کار ہو اور مال اللہ کی رضا کے لیے ضرورت مندوں پر خرچ کریں۔ 5 کسی بھی قسم کے ظلم کو سہنے کی بجائے اس کے خاتمے کے لیے کھڑے ہو جائیں ۔ عام لوگوں کی تعداد چاہے کروڑوں میں ہو۔ لیکن ان میں سے اہل شوریٰ وہی ہو ں گے جو مذکورہ صفات کے حامل ہوں گے اور ان سب کا حق ہے کہ حکومت کا انتخاب اور انتظام و انصرام ان کے مشورے سے ہو ۔اللہ اور اس کے رسول کا احکامات کے بعد یہ شوریٰ ہی اصل اختیارات کی مالک اور تمام فیصلے کرنے کی مجاز ہے۔
رسول اللہ ﷺ کے بعد حضرت ابوبکر ولی الامر تھے۔ انہیں خلیفہ رسول اللہ کہا جاتا تھا۔پھر حضرت عمر ولی الامر ہوئے تو انہوں نے خلیفہ رسول اللہ کے بجائے اس منصب کو امیر المومنین کا عنوان دیا۔ امام الوداود نے اس کتاب میں امارت کی ذمہ داریوں ‘لوگوں کے حقوق منصب کی طلب گاری اس کی اہلیت اس کی معاونت اس کی ہیبت ‘ عمال حکومت اور ان کی تنخواہوں ‘ ان کی امانت داری وغیرہ کےحوالے سے مختلف احادیث درج کی ہیں جن سے سرکاری انتظامیہ (ایڈمنسٹریشن) کا بنیادی ڈھانچہ سامنے آتا ہے اس کے علاوہ انہوں نے خراج اور فے کے مسائل سے متعلق احادیث بھ اس حصے میں جمع کر دی ہیں یہ دونوں سرکاری ایڈمنسڑیشن کے بنیادی اور اہم شعبے ہیں جو عموماً براہِ راست ولی الامر کے تحت ہوتے ہیں۔
سیدنا عیاض بن حماد ؓ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ علیہ وسلم کی خدمت میں بطور ہدیہ ایک اونٹنی پیش کی تو آپ ﷺ نے پوچھا ” کیا تم نے اسلام قبول کر لیا ہے ؟ “ میں کہا : نہیں تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا ” مجھے مشرکین کے عطایا قبول کرنے سے روکا گیا ہے ۔ “
حدیث حاشیہ:
چونکہ ہدیہ لینا دینا دلوں میں قربت اورمحبت پیدا کرتا ہے۔اس لئے کافروں اور مشرکوں سے آذادانہ طور پر ہدیہ کے تبادلے سے پرہیز کرنا چاہیے۔تاہم جہاں کوئی شرعی اور سیاسی مصلحت ہو تو ہدیہ لینے میں کوئ حرج نہیں۔ مثلاکوئی کافرمسلمانوں کےلئے اپنے خضوع کا اظہار کرنا چاہتا ہو یا امید ہو کہ اس کے ساتھ موانست سے وہ اسلام کے قریب ہوگا۔یا اسلام لے آئے گا وغیرہ۔امام بخاری نے صحیح بخاری کتاب لہبہ باب قبول الہدیہ من المشرکین اور باب الہدیۃ للمشرکین میں یہی ثابت کیا ہے۔2۔ حضرت عیاض بن حمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہدیہ قبول نہ کرنے کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ انہیں اسلام لانے پر ابھارنا مقصود تھا۔آپﷺ نے اکیدر دومہ اورنجاشی کا ہدیہ قبول کیاہے۔کیونکہ ان کے ایمان لانے کی قوی امید تھی۔3۔حضرت عیاض بن حماد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بعد میں اسلام قبول کرلیا۔اور رسول اللہ ﷺ کی صحبت اختیار کی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عیاض بن حمار ؓ کہتے ہیں میں نے نبی اکرم ﷺ کو ایک اونٹنی ہدیہ میں دی ، تو رسول اللہ ﷺ نے پوچھا : ” کیا تم مسلمان ہو گئے ہو ؟ “ میں نے کہا : نہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا : ” مجھے مشرکوں سے تحفہ لینے کی ممانعت کر دی گئی ہے ۱؎ “ ۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : بعض روایات میں آتا ہے کہ اللہ کے رسول صلی+اللہ+علیہ+وسلم نے نجاشی، مقوقس، اکیدر دومہ اور رئیس فدک کے ہدایا قبول کئے تو یہ «إني نهيت عن زبد المشركين» کے خلاف نہیں ہے کیونکہ مذکورہ سب کے سب ہدایا اہل کتاب کے تھے نہ کہ مشرکین کے، گویا اہل کتاب کے ہدایا لینے درست ہیں نہ کہ مشرکین کے ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Iyad ibn Himar (RA):
I presented a she-camel to the Prophet (ﷺ). He asked: Have you embraced Islam? I replied: No. The Prophet (ﷺ) said: I have been prohibited to accept the present of polytheists.