باب: ان لوگوں کی دلیل جو (مستحاضہ کوعلاوہ خون کے) کسی حدث کے لاحق ہونے...
)
Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: Those Who Did Not Mention The Wudu' Except If It Was Nullified)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
306.
ربیعہ (ربیعہ بن عبدالرحمٰن، المعروف ربیعہ الرای، تابعی) سے منقول ہے کہ وہ مستحاضہ پر ہر نماز کے لیے تجدید وضو کے قائل نہ تھے، الا یہ کہ اسے خون کے علاوہ کوئی اور حدث لاحق ہو تو وضو کرے۔ امام ابوداؤد ؓ بیان کرتے ہیں کہ جناب مالک بن انس کا بھی یہی قول ہے۔
تشریح:
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط مسلم) . قال أبو داود: وهذ ا قول مالك- يعني: ابن أنس (فال في عون المعبود : هذه العبارة في النسختين، وليست في أكثر النسخ. قال ابن عبد البر: لشى في حديث مالك في الموطأً ذكر الوضوء لكل صلاة على المستحاضة، وذكر في حديث غيره ، فلذلك كان مالك يستحبه لها ولا يوجبه؛ كما لا يوجبه على صاحب التسلسل. ذكره الزرقاني . قلت: لكن الحديث بوجوب الوضوء لكل صلاة؛ قد صح عند البخاري وغيره كما سبق؛ فوجب الأخذ به، ولا عذر بعد ذلك لن يصر على تقليد غير المعصوم إ!) (قلت: وهو قول باطل؛ لخالفته لحديث الباب، ولحديث عائشة المشار إليه في الباب قبله) . إسناده: حدثنا عبد الملك بن شعيب: ثني عبد الله بن وهب: ثني الليث عن ربيعة. قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله كلهم ثقات رجال مسلم.
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
ربیعہ (ربیعہ بن عبدالرحمٰن، المعروف ربیعہ الرای، تابعی) سے منقول ہے کہ وہ مستحاضہ پر ہر نماز کے لیے تجدید وضو کے قائل نہ تھے، الا یہ کہ اسے خون کے علاوہ کوئی اور حدث لاحق ہو تو وضو کرے۔ امام ابوداؤد ؓ بیان کرتے ہیں کہ جناب مالک بن انس کا بھی یہی قول ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ربیعہ سے روایت ہے کہ وہ مستحاضہ کے لیے ہر نماز کے وقت وضو ضروری نہیں سمجھتے تھے سوائے اس کے کہ اسے خون کے علاوہ کوئی اور حدث لاحق ہو تو وہ وضو کرے گی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہی مالک بن انس کا قول ہے۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Rabi'ah said: Umm Habibah (RA) daughter of Jahsh had a prolonged flow of blood. The Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) commander her to refrain (from prayer) during her menstrual period; then she should wash and pray. If she sees anything (which renders ablution void) she should perform ablution and pray. Abu Dawud رحمۃ اللہ علیہ said: This is the view held by Malik (RA) b. Anas.