کتاب: محصورات اراضی اور امارت سے متعلق احکام و مسائل
(
باب: بنجر لاوارث زمین کو آباد کرنا
)
Abu-Daud:
Tribute, Spoils, and Rulership (Kitab Al-Kharaj, Wal-Fai' Wal-Imarah)
(Chapter: Reviving Dead Land)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3080.
ام المؤمنین سیدہ زینب ؓ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کا سر صاف کر رہی تھیں اور آپ ﷺ کے ہاں سیدنا عثمان بن عفان ؓ کی اہلیہ اور دیگر مہاجر خواتین بھی بیٹھی تھیں، عورتوں نے اپنے گھروں کی تنگی کا شکوہ کیا اور یہ کہ انہیں (شوہر کی وفات کے بعد) گھروں سے نکال دیا جاتا ہے، تو رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا: ”مہاجرین کے گھر ان کی بیویوں کو وراثت میں دیے جائیں۔“ چنانچہ سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ فوت ہوئے تو ان کی زوجہ مدینہ میں ایک گھر کی وارث بنی تھیں۔
تشریح:
1۔ یہ روایت بعض محققین کے نزدیک صحیح ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے مہاجرین کو مدینہ منورہ میں زمین کے قطعات دئے تھے۔ تا کہ یہ لوگ ان میں اپنا گھر بنا لیں۔ چونکہ یہ قطعات احیاء الموات کے معنی میں تھے کہ ان لوگوں نے انہیں آباد کیا تھا۔ تو وہ انہی کی ملکیت گردانے گئے۔ اس باب کے ساتھ اس حدیث کی یہی مناسبت ہے۔ 2۔ بیویوں کو وراثت میں گھر دینے کا مسئلہ مہاجرین کی خواتین کے ساتھ خاص تھا۔ کیونکہ یہ لوگ مدینہ منورہ میں ایک نئے وطن میں تھے۔ اور عزیزواقارب سے دور ہوگئے تھے۔ تو یہ حکم دیا گیا تاکہ شوہر کی وفات کے بعد انہیں تحفظ حاصل رہے۔ یا یہ مفہوم بھی ہوسکتا ہے۔ کہ ترکہ کی تقسیم میں ان کے حصے کے مطابق انہیں زمین باغ اور دیگراموال کی بجائے گھر دیا جائے۔ تاکہ وہ رہائش کے مسئلے میں مطمین رہیں۔ (بذل المجهود ۔عون المعبود)
[خراج كى معنى] لغت میں اس کے لیے[دخل]’’آمدنی‘‘ اور [خرج]’’وہ حصہ جو کوئی شخص اپنی کمائی سے نکال کر دوسرے کو دیتا ہے۔‘‘ دونوں لفظ استعمال ہوتے ہیں حصہ دینے والے کے حوالے سے خرج اور وہی حصہ لینے والے کے حوالے سے دخل ہوگا خرج اور خراج دونوں لفظ قرآن مجید میں استعمال ہوئے ہیں ‘ارشاد باری تعالیٰ ہے(أَمْ تَسْأَلُهُمْ خَرْجًا فَخَرَاجُ رَبِّكَ خَيْرٌ وَهُوَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ) المؤمنون:72)’’ کیا آپ ان سے اپنی آمدنیوں میں سے کچھ حصہ نکال کر دینے کا مطالبہ کرتے ہیں ‘وہ حصہ جو آپ کے رب نے (آپ کیلئے) مقرر کر رکھا ہے بہتر ہے‘ وہ سب اچھا رزق دینے والا ہے۔‘‘ مبردنجوی کے نزدیک خرج مصدر ہے اور خراج اسم ہے۔ دیکھیے:(الجامع الأحكام القرآن للقرطبى:المومنون:72) امام بخاری نے خراج کا لفظ اجرت کے لیے اور اس حصے کے لیے جو آقاکسی غلام کی آمدنی سے اپنے لیے مقرر کرتا ہے ‘ دونوں کے لیے استعمال کیا ہے۔ (کتاب الاجارۃ‘باب:18‘19) حضرت عائشہ سے مروی صحیح بخاری کی یہ روایت (كان لأبى بكر غلام يخرج له الخراج وكان ابو بكر يأكل من خراجه)’’حضرت ابوبکر کا ایک غلام تھا جو آپ کے لیے اپنی آمدنی سے ایک حصہ نکالتا تھا اور ابوبکر اس حصے میں سے کھاتے تھے ۔‘‘(صحيح البخارى ~مناقب الانصار~باب أيام الجاهلية~حديث:3842) خراج کے مفہوم کی وضاحت کر دیتی ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فتح خیبر کے موقع پر حاصل ہونے والی فَی کی زمین اور باغات یہود کو اس شرط پر دیے کہ وہ ان کی آمدنی کا نصف حصہ بیت المال میں جمع کرائیں گے- یہاں سے لفظ خراج زمین وغیرہ سے حاصل ہوتے والے محصولات کے لیے رائج ہوگیا۔ بعدازاں اس میں وسعت آگئی اور خراج سے مراد تمام ذرائع سے حاصل ہونے والی حکومت کی آمدنی لی جانے لگی ۔
’’فَی‘‘ ان زمینوں یا اموال کو کہتے ہیں جو غیر مسلم دشمن خوفزدہ ہو کر جھوڑ جاتے ہیں اور وہ مسلمان حکومت کے قبضے میں آ جاتے ہیں اس کی وضاحت خود قرآن مجید میں ان الفاظ میں آتی ہے (وَمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلَا رِكَابٍ وَلَكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلَى مَنْ يَشَاءُ)(الحشر:6) ’’ اور اللہ نے ان سے اپنے رسول کی طرف جو مال لوٹایا تو اس کے لیے تم نے گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے ‘لیکن اللہ اپنے رسولوں کو جس پر چاہتا ہے غلبہ دیتا ہے ۔‘‘ بعد میں جب ایسی زمینوں کا متقل انتظام کیا جاتا ہے تو اس سے حاصل ہوتے والے محصولات بھی خراج کہلاتے ہیں۔[الإمارة]امر سے ہے معاملات کا انچارج ‘ولی الامر یا امیر کہلاتا ہے۔ قرآن مجید نے اس کا طریق کار اس طرح مقرر فرمایا ہے (وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ) ان کے معاملات چلانا‘ان کے باہم مشورے سے ہے ۔ ان کے باہم مشورے سے ہے ۔ان’’ اہل شوریٰ‘‘ سے مراد کون لوگ ہیں ؟ ظاہر ہے جن کا امیر چنا جا رہا ہے یا جن کے معاملات چلائے جا رہے ہیں انہی کے درمیان مشاورت ہوگی ۔اگر قرآن مجید کی ان آیات کو سامنے رکھا جائے تو مسلمانوں کے اندر شوریٰ ان سب کے درمیان ہوگی جن کی صفات قرآن مجید کی ان آیات کو سامنے رکھا جائے تو مسلمانوں کے اندر شوریٰ ان سب کے درمیان ہوگی جن کی صفات قرآن مجید کی ان آیات کو سامنے رکھا جائے تو مسلمانوں کے اندر شوریٰ ان سب کے درمیان ہو گی جن کی صفات قرآن مجید نے بیان فرما دی ہیں ۔ وہ قرآنی آیات یہ ہیں(لِلَّذِينَ آمَنُوا وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ (36) وَالَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ وَإِذَا مَا غَضِبُوا هُمْ يَغْفِرُونَ (37) وَالَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ (38) وَالَّذِينَ إِذَا أَصَابَهُمُ الْبَغْيُ هُمْ يَنْتَصِرُونَ)(الشوریٰ:36۔39) ’’جو لوگ ایمان لائے اور وہ اپنے رب ہی پر تو کلت کرتے ہیں اور جو کبیرہ گناہوں اور فواحش سے بچتے ہیں اور جب غصے میں آتے ہیں تو معاف کر دیتے ہیں ۔اور جنہوں نے اپنے رب کے حکم پر لبیک کہا ۔نماز قائم کی ‘ان کے تمام معاملات باہم مشورے سے طے ہوتے ہیں اور ہم نے ان کو جو رزق دیا اس میں سے خرچ کرتے ہیں اور جب ان پر ظلم ہوتا ہے تو اس کے ازالے کے لیے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔‘‘
ان آیات کی روشنی میں شوریٰ میں وہ تمام لوگ شریک ہوں گے جو 1 مومن ہوں 2 اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہوں۔ (دنیاوی معاملات کی آسانیوں کے لیے کسی غیر سے مدد یا تعاون حاصل کرنے کے قائل نہ ہوں۔3 کبائر اور فواحش سے بچتے ہوں اور بردبار غیر منتقم مزاج ہوں۔4 اپنے رب کی طرف سے عائد ذمہ درایاں پور ی کریں اللہ کے ساتھ عبادت کے ذریعے سے قریبی رابطہ ہو‘ہر دائر کا رمیں تمام معاملات شوریٰ کے ذریعے سے طے کرنا ان کا طریق کار ہو اور مال اللہ کی رضا کے لیے ضرورت مندوں پر خرچ کریں۔ 5 کسی بھی قسم کے ظلم کو سہنے کی بجائے اس کے خاتمے کے لیے کھڑے ہو جائیں ۔ عام لوگوں کی تعداد چاہے کروڑوں میں ہو۔ لیکن ان میں سے اہل شوریٰ وہی ہو ں گے جو مذکورہ صفات کے حامل ہوں گے اور ان سب کا حق ہے کہ حکومت کا انتخاب اور انتظام و انصرام ان کے مشورے سے ہو ۔اللہ اور اس کے رسول کا احکامات کے بعد یہ شوریٰ ہی اصل اختیارات کی مالک اور تمام فیصلے کرنے کی مجاز ہے۔
رسول اللہ ﷺ کے بعد حضرت ابوبکر ولی الامر تھے۔ انہیں خلیفہ رسول اللہ کہا جاتا تھا۔پھر حضرت عمر ولی الامر ہوئے تو انہوں نے خلیفہ رسول اللہ کے بجائے اس منصب کو امیر المومنین کا عنوان دیا۔ امام الوداود نے اس کتاب میں امارت کی ذمہ داریوں ‘لوگوں کے حقوق منصب کی طلب گاری اس کی اہلیت اس کی معاونت اس کی ہیبت ‘ عمال حکومت اور ان کی تنخواہوں ‘ ان کی امانت داری وغیرہ کےحوالے سے مختلف احادیث درج کی ہیں جن سے سرکاری انتظامیہ (ایڈمنسٹریشن) کا بنیادی ڈھانچہ سامنے آتا ہے اس کے علاوہ انہوں نے خراج اور فے کے مسائل سے متعلق احادیث بھ اس حصے میں جمع کر دی ہیں یہ دونوں سرکاری ایڈمنسڑیشن کے بنیادی اور اہم شعبے ہیں جو عموماً براہِ راست ولی الامر کے تحت ہوتے ہیں۔
ام المؤمنین سیدہ زینب ؓ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کا سر صاف کر رہی تھیں اور آپ ﷺ کے ہاں سیدنا عثمان بن عفان ؓ کی اہلیہ اور دیگر مہاجر خواتین بھی بیٹھی تھیں، عورتوں نے اپنے گھروں کی تنگی کا شکوہ کیا اور یہ کہ انہیں (شوہر کی وفات کے بعد) گھروں سے نکال دیا جاتا ہے، تو رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا: ”مہاجرین کے گھر ان کی بیویوں کو وراثت میں دیے جائیں۔“ چنانچہ سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ فوت ہوئے تو ان کی زوجہ مدینہ میں ایک گھر کی وارث بنی تھیں۔
حدیث حاشیہ:
1۔ یہ روایت بعض محققین کے نزدیک صحیح ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے مہاجرین کو مدینہ منورہ میں زمین کے قطعات دئے تھے۔ تا کہ یہ لوگ ان میں اپنا گھر بنا لیں۔ چونکہ یہ قطعات احیاء الموات کے معنی میں تھے کہ ان لوگوں نے انہیں آباد کیا تھا۔ تو وہ انہی کی ملکیت گردانے گئے۔ اس باب کے ساتھ اس حدیث کی یہی مناسبت ہے۔ 2۔ بیویوں کو وراثت میں گھر دینے کا مسئلہ مہاجرین کی خواتین کے ساتھ خاص تھا۔ کیونکہ یہ لوگ مدینہ منورہ میں ایک نئے وطن میں تھے۔ اور عزیزواقارب سے دور ہوگئے تھے۔ تو یہ حکم دیا گیا تاکہ شوہر کی وفات کے بعد انہیں تحفظ حاصل رہے۔ یا یہ مفہوم بھی ہوسکتا ہے۔ کہ ترکہ کی تقسیم میں ان کے حصے کے مطابق انہیں زمین باغ اور دیگراموال کی بجائے گھر دیا جائے۔ تاکہ وہ رہائش کے مسئلے میں مطمین رہیں۔ (بذل المجهود ۔عون المعبود)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
زینب ؓ فرماتی ہیں کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے سر مبارک سے جوئیں نکال رہی تھیں، اس وقت عثمان ؓ کی بیوی اور کچھ دوسرے مہاجرین کی عورتیں آپ کے پاس بیٹھیں تھیں اور اپنے گھروں کی شکایت کر رہی تھیں کہ ان کے گھر ان پر تنگ ہو جاتے ہیں، وہ گھروں سے نکال دی جاتی ہیں، تو رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ مہاجرین کی عورتیں ان کے مرنے پر ان کے گھروں کی وارث بنا دی جائیں، تو جب عبداللہ بن مسعود ؓ کا انتقال ہوا تو ان کی عورت مدینہ میں ایک گھر کی وارث ہوئی (شاید یہ حکم مہاجرین کے ساتھ خاص ہو)۱؎۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: مہاجر عورتیں پردیس میں تھیں اور جب ان کے شوہر کے ورثاء شوہر کے گھر سے ان کو نکال دیتے تھے تو ان کو پردیس میں سخت پریشانیوں کا سامنا ہوتا تھا اس لئے گھروں کو ان کے لئے الاٹ کر دیا گیا یہ ان کے لئے خاص حکم تھا، تمام حالات میں گھروں میں بھی حسب حصص ترکہ تقسیم ہو گا، اور باب سے تعلق یہ ہے کہ ان کے شوہروں نے خالی جگہوں پر ہی یہ گھر بنائے تھے، اس لئے ان کے لئے یہ گھر بطور مردہ زمین کو زندہ کرنے کے حق کے ہو گئے تھے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Zaynab (RA): She was picking lice from the head of the Apostle of Allah (ﷺ) while the wife of 'Uthman ibn 'Affan and the immigrant women were with him. They complained about their houses that they had been narrowed down to them and they were evicted from them. The Apostle of Allah (ﷺ) ordered that the houses of the Immigrants should be given to their wives. Thereafter 'Abdullah ibn Mas'ud died, and his wife inherited his house in Madinah.