کتاب: محصورات اراضی اور امارت سے متعلق احکام و مسائل
(
باب: خراجی زمین خریدنے کا مسئلہ
)
Abu-Daud:
Tribute, Spoils, and Rulership (Kitab Al-Kharaj, Wal-Fai' Wal-Imarah)
(Chapter: What Has Been Related About Entering Kharaj Lands)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3081.
سیدنا معاذ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ جس نے اپنی گردن میں جزیے کا قلادہ ڈالا وہ رسول اللہ ﷺ کے طریقے سے بری ہو گیا۔
تشریح:
کفار اپنی زیرکاشت زمینوں سے جو حصہ ادا کرتے ہیں۔ خراج کہلاتا ہے۔ اور علماء نے ایسی زمینوں کی کئی قسمیں لکھی ہیں۔ 1۔ مسلمانوں نے کسی زمین کو بذور قوت فتح کیا ہو۔ امام نے اسے مجاہدین میں تقسیم کردیا ہو۔ پھر امام اسے قیمت دے کر ان سے خرید لے اور عام مسلمانوں کے لئے وقف کردے۔ اور کفار کو خراج (ٹھیکے) پر دے دے جیسے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عراق کے دہیاتوں میں کیا تھا۔ 2۔ کسی زمین کو صلح سے فتح کیا گیا ہو۔ اس شرط پر کے زمین مسلمانوں کی ہوگی۔ مگر کفار اس میں رہیں گے۔ اور خراج دیں گے۔ یہ زمین مال فے ہوگی۔ اور خراج اس کا کرایہ اجرت یا ٹھیکہ ہوگا۔ جو ان لوگوں کے مسلمان ہوجانے سے ساقط نہیں ہوگا۔ 3۔ کوئی علاقہ اس شرط کے ساتھ صلح سے فتح ہوا ہو کہ زمین کفار کی رہے گی۔ مگر وہ خراج ادا کر کے وہاں مقیم رہیں گے۔ ایسے خراج کو جزیہ پر قیاس کیا جائے گا۔ اور ان لوگوں کے مسلمان ہوجانے پر ختم ہوجائے گا۔
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده ضعيف؛ لجهالة أبي عبد الله. وأشار البيهقي إلى تضعيفه) . إسناده: حدثنا هارون بن محمد بن بكار بن بلال: أخبرنا محمد بن عيسى - يعني: ابن سُميْع-: ثنا زيد بن واقد: حدثني أبو عبد الله...
قلت: وهذا إسناد ضعيف، رجاله ثقات؛ غير أبي عبد الله- واسمه: مسلم الخزاعي-، لم يرْوِ عنه غير زيد هذا، وعبد الله بن العلاء، ولم يوثقه أحد حتى ولا ابن حبان! ولذا قال الحافظ في التقريب : مقبول . أي: عند المتابعة، ولين الحديث عند التفرد. وأشار البيهقي إلى تضعيف الحديث هذا والذي بعده بقوله: هذان الحديثان إسنادهما إسْنادٌ شامي، والبخاري ومسلم لم يحْتجا بمثلهما .والحديث أخرجه البيهقي (9/139) ، وابن عساكر في تاريخ دمشق (16/494- مصورة الدار) من طريق المؤلف.
[خراج كى معنى] لغت میں اس کے لیے[دخل]’’آمدنی‘‘ اور [خرج]’’وہ حصہ جو کوئی شخص اپنی کمائی سے نکال کر دوسرے کو دیتا ہے۔‘‘ دونوں لفظ استعمال ہوتے ہیں حصہ دینے والے کے حوالے سے خرج اور وہی حصہ لینے والے کے حوالے سے دخل ہوگا خرج اور خراج دونوں لفظ قرآن مجید میں استعمال ہوئے ہیں ‘ارشاد باری تعالیٰ ہے(أَمْ تَسْأَلُهُمْ خَرْجًا فَخَرَاجُ رَبِّكَ خَيْرٌ وَهُوَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ) المؤمنون:72)’’ کیا آپ ان سے اپنی آمدنیوں میں سے کچھ حصہ نکال کر دینے کا مطالبہ کرتے ہیں ‘وہ حصہ جو آپ کے رب نے (آپ کیلئے) مقرر کر رکھا ہے بہتر ہے‘ وہ سب اچھا رزق دینے والا ہے۔‘‘ مبردنجوی کے نزدیک خرج مصدر ہے اور خراج اسم ہے۔ دیکھیے:(الجامع الأحكام القرآن للقرطبى:المومنون:72) امام بخاری نے خراج کا لفظ اجرت کے لیے اور اس حصے کے لیے جو آقاکسی غلام کی آمدنی سے اپنے لیے مقرر کرتا ہے ‘ دونوں کے لیے استعمال کیا ہے۔ (کتاب الاجارۃ‘باب:18‘19) حضرت عائشہ سے مروی صحیح بخاری کی یہ روایت (كان لأبى بكر غلام يخرج له الخراج وكان ابو بكر يأكل من خراجه)’’حضرت ابوبکر کا ایک غلام تھا جو آپ کے لیے اپنی آمدنی سے ایک حصہ نکالتا تھا اور ابوبکر اس حصے میں سے کھاتے تھے ۔‘‘(صحيح البخارى ~مناقب الانصار~باب أيام الجاهلية~حديث:3842) خراج کے مفہوم کی وضاحت کر دیتی ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فتح خیبر کے موقع پر حاصل ہونے والی فَی کی زمین اور باغات یہود کو اس شرط پر دیے کہ وہ ان کی آمدنی کا نصف حصہ بیت المال میں جمع کرائیں گے- یہاں سے لفظ خراج زمین وغیرہ سے حاصل ہوتے والے محصولات کے لیے رائج ہوگیا۔ بعدازاں اس میں وسعت آگئی اور خراج سے مراد تمام ذرائع سے حاصل ہونے والی حکومت کی آمدنی لی جانے لگی ۔
’’فَی‘‘ ان زمینوں یا اموال کو کہتے ہیں جو غیر مسلم دشمن خوفزدہ ہو کر جھوڑ جاتے ہیں اور وہ مسلمان حکومت کے قبضے میں آ جاتے ہیں اس کی وضاحت خود قرآن مجید میں ان الفاظ میں آتی ہے (وَمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلَا رِكَابٍ وَلَكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلَى مَنْ يَشَاءُ)(الحشر:6) ’’ اور اللہ نے ان سے اپنے رسول کی طرف جو مال لوٹایا تو اس کے لیے تم نے گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے ‘لیکن اللہ اپنے رسولوں کو جس پر چاہتا ہے غلبہ دیتا ہے ۔‘‘ بعد میں جب ایسی زمینوں کا متقل انتظام کیا جاتا ہے تو اس سے حاصل ہوتے والے محصولات بھی خراج کہلاتے ہیں۔[الإمارة]امر سے ہے معاملات کا انچارج ‘ولی الامر یا امیر کہلاتا ہے۔ قرآن مجید نے اس کا طریق کار اس طرح مقرر فرمایا ہے (وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ) ان کے معاملات چلانا‘ان کے باہم مشورے سے ہے ۔ ان کے باہم مشورے سے ہے ۔ان’’ اہل شوریٰ‘‘ سے مراد کون لوگ ہیں ؟ ظاہر ہے جن کا امیر چنا جا رہا ہے یا جن کے معاملات چلائے جا رہے ہیں انہی کے درمیان مشاورت ہوگی ۔اگر قرآن مجید کی ان آیات کو سامنے رکھا جائے تو مسلمانوں کے اندر شوریٰ ان سب کے درمیان ہوگی جن کی صفات قرآن مجید کی ان آیات کو سامنے رکھا جائے تو مسلمانوں کے اندر شوریٰ ان سب کے درمیان ہوگی جن کی صفات قرآن مجید کی ان آیات کو سامنے رکھا جائے تو مسلمانوں کے اندر شوریٰ ان سب کے درمیان ہو گی جن کی صفات قرآن مجید نے بیان فرما دی ہیں ۔ وہ قرآنی آیات یہ ہیں(لِلَّذِينَ آمَنُوا وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ (36) وَالَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ وَإِذَا مَا غَضِبُوا هُمْ يَغْفِرُونَ (37) وَالَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ (38) وَالَّذِينَ إِذَا أَصَابَهُمُ الْبَغْيُ هُمْ يَنْتَصِرُونَ)(الشوریٰ:36۔39) ’’جو لوگ ایمان لائے اور وہ اپنے رب ہی پر تو کلت کرتے ہیں اور جو کبیرہ گناہوں اور فواحش سے بچتے ہیں اور جب غصے میں آتے ہیں تو معاف کر دیتے ہیں ۔اور جنہوں نے اپنے رب کے حکم پر لبیک کہا ۔نماز قائم کی ‘ان کے تمام معاملات باہم مشورے سے طے ہوتے ہیں اور ہم نے ان کو جو رزق دیا اس میں سے خرچ کرتے ہیں اور جب ان پر ظلم ہوتا ہے تو اس کے ازالے کے لیے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔‘‘
ان آیات کی روشنی میں شوریٰ میں وہ تمام لوگ شریک ہوں گے جو 1 مومن ہوں 2 اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہوں۔ (دنیاوی معاملات کی آسانیوں کے لیے کسی غیر سے مدد یا تعاون حاصل کرنے کے قائل نہ ہوں۔3 کبائر اور فواحش سے بچتے ہوں اور بردبار غیر منتقم مزاج ہوں۔4 اپنے رب کی طرف سے عائد ذمہ درایاں پور ی کریں اللہ کے ساتھ عبادت کے ذریعے سے قریبی رابطہ ہو‘ہر دائر کا رمیں تمام معاملات شوریٰ کے ذریعے سے طے کرنا ان کا طریق کار ہو اور مال اللہ کی رضا کے لیے ضرورت مندوں پر خرچ کریں۔ 5 کسی بھی قسم کے ظلم کو سہنے کی بجائے اس کے خاتمے کے لیے کھڑے ہو جائیں ۔ عام لوگوں کی تعداد چاہے کروڑوں میں ہو۔ لیکن ان میں سے اہل شوریٰ وہی ہو ں گے جو مذکورہ صفات کے حامل ہوں گے اور ان سب کا حق ہے کہ حکومت کا انتخاب اور انتظام و انصرام ان کے مشورے سے ہو ۔اللہ اور اس کے رسول کا احکامات کے بعد یہ شوریٰ ہی اصل اختیارات کی مالک اور تمام فیصلے کرنے کی مجاز ہے۔
رسول اللہ ﷺ کے بعد حضرت ابوبکر ولی الامر تھے۔ انہیں خلیفہ رسول اللہ کہا جاتا تھا۔پھر حضرت عمر ولی الامر ہوئے تو انہوں نے خلیفہ رسول اللہ کے بجائے اس منصب کو امیر المومنین کا عنوان دیا۔ امام الوداود نے اس کتاب میں امارت کی ذمہ داریوں ‘لوگوں کے حقوق منصب کی طلب گاری اس کی اہلیت اس کی معاونت اس کی ہیبت ‘ عمال حکومت اور ان کی تنخواہوں ‘ ان کی امانت داری وغیرہ کےحوالے سے مختلف احادیث درج کی ہیں جن سے سرکاری انتظامیہ (ایڈمنسٹریشن) کا بنیادی ڈھانچہ سامنے آتا ہے اس کے علاوہ انہوں نے خراج اور فے کے مسائل سے متعلق احادیث بھ اس حصے میں جمع کر دی ہیں یہ دونوں سرکاری ایڈمنسڑیشن کے بنیادی اور اہم شعبے ہیں جو عموماً براہِ راست ولی الامر کے تحت ہوتے ہیں۔
سیدنا معاذ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ جس نے اپنی گردن میں جزیے کا قلادہ ڈالا وہ رسول اللہ ﷺ کے طریقے سے بری ہو گیا۔
حدیث حاشیہ:
کفار اپنی زیرکاشت زمینوں سے جو حصہ ادا کرتے ہیں۔ خراج کہلاتا ہے۔ اور علماء نے ایسی زمینوں کی کئی قسمیں لکھی ہیں۔ 1۔ مسلمانوں نے کسی زمین کو بذور قوت فتح کیا ہو۔ امام نے اسے مجاہدین میں تقسیم کردیا ہو۔ پھر امام اسے قیمت دے کر ان سے خرید لے اور عام مسلمانوں کے لئے وقف کردے۔ اور کفار کو خراج (ٹھیکے) پر دے دے جیسے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عراق کے دہیاتوں میں کیا تھا۔ 2۔ کسی زمین کو صلح سے فتح کیا گیا ہو۔ اس شرط پر کے زمین مسلمانوں کی ہوگی۔ مگر کفار اس میں رہیں گے۔ اور خراج دیں گے۔ یہ زمین مال فے ہوگی۔ اور خراج اس کا کرایہ اجرت یا ٹھیکہ ہوگا۔ جو ان لوگوں کے مسلمان ہوجانے سے ساقط نہیں ہوگا۔ 3۔ کوئی علاقہ اس شرط کے ساتھ صلح سے فتح ہوا ہو کہ زمین کفار کی رہے گی۔ مگر وہ خراج ادا کر کے وہاں مقیم رہیں گے۔ ایسے خراج کو جزیہ پر قیاس کیا جائے گا۔ اور ان لوگوں کے مسلمان ہوجانے پر ختم ہوجائے گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
معاذ ؓ کہتے ہیں جس نے اپنی گردن میں جزیہ کا قلادہ ڈالا (یعنی اپنے اوپر جزیہ مقرر کرایا) تو وہ رسول اللہ ﷺ کے طریقے سے بری ہو گیا (یعنی اس نے اچھا نہ کیا)۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Mu'adh ibn Jabal (RA): He who put the necklace of jizyah in his neck abandoned the way followed by the Apostle of Allah (ﷺ) .