مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3129.
سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”بلاشبہ میت کو اس کے گھر والوں کے رونے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے۔“ یہ حدیث سیدہ عائشہ ؓ کے سامنے بیان کی گئی، تو انہوں نے کہا: (سیدنا ابن عمر ؓ بھول گئے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ) نبی کریم ﷺ ایک قبر کے پاس سے گزرے تھے، تو فرمایا تھا: ”بیشک یہ قبر والا عذاب دیا جا رہا ہے اور اس کے گھر والے اس پر رو رہے ہیں۔“ پھر سیدہ عائشہ ؓ نے یہ آیت پڑھی (وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى) ”کوئی جان کسی دوسری جان کا بوجھ نہیں اٹھائے گی۔“ ہناد نے ابومعاویہ سے روایت کرتے ہوئے وضاحت کی کہ رسول اللہ ﷺ ایک یہودی کی قبر کے پاس سے گزرے تھے۔
تشریح:
مرنے والا کافر ہو یا بالفرض مسلما ن بھی ہو، مگر نوحہ کرنے کی وصیت کرگیا ہو یا اس عمل پر راضی ہوتو اہل خانہ کے نوحہ کرنے سے اسے عذاب ہوگا۔ اس صورت میں اسےعذاب دیا جانا۔ مذکورہ آیت کے خلاف نہیں۔ البتہ اگر وہ اس عمل سے بیزار رہا ہو اور منع کرگیا ہو۔ پھر پیچھے والے یہ غیر شرعی کام کریں۔ تو وہ اس سے بری ہوگا۔ لہذا مومنوں کو چاہیے کہ اپنے وارثوں کو نوحہ یا بین کرنے سے سختی کے ساتھ منع کرتے رہا کریں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس حدیث کواس آیت کے خلاف سمجھا۔ اس لئے اس کی مذکورہ تاویل کی جب کہ واقعہ یہ ہے کہ مذکورہ مفہوم کے مطابق اس حدیث اور آیت میں کوئی تخالف نہیں ہے۔ اس لئے یہ حدیث بھی اس طرح صحیح ہے۔ جس طرح حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے بیا ن کیا ہے۔
انسانی زندگی کی ابتدا اور انتہا دونوں ہی دور رس اثرات کی حامل ہیں ‘جب کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو خاندان بھر میں خوشی و مسرت کا عجیب سماں پیدا ہو جاتا ہے ۔ ہر طرف مبارکباد اور خوشیوں کا بتادلہ ہوتا ہے ‘پھر وقت مقررہ پر اس کے رخصت ہوتے کا وقت آتا ہے تو ہر طرف غم کی فضا پھیل جاتی ہے اس نازک وقت میں اکثر و بیشتر لوگ کم علمی ‘جہالت اور شرکیہ معاشرتی فضا کی وجہ سے الیسے افعال میں مبتلا ہو جاتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب بنتے ہیں ‘یہ سلسلہ ہائے بدعات و شرک موت کے بعد بھی طویل عرصہ تک جاری رہتا ہے اور شکم پر ور جہلاء کی خوب چاندی رہتی ہے ۔
انسان جب بستر مرگ پر ہوتا ہے تو لواحقین بے بسی کی کیفیت سے دو چار ہوتے ہیں ‘حتی المقدار دوا دارو کرنے کے باوجود مریض لمحہ بہ لمحہ موت کے قریب ہوتا جاتا ہے تیمار داری کرنے والے دبے لفظوں میں مایوسی کا اظہار کرنے لگتے ہیں ‘لواحقین ہر حکیم ‘ ڈاکٹر حتی کہ شرکیہ دم جھاڑ اور مزاروں سے خاک شفا تک حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ شائد ہمارا مریض بچ جائے مگر جو وقت مقرر ہو چکا ‘ وہ آکے رہتا ہے (وَلِكُلِّ أُمَّةٍ أَجَلٌ فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ لَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ)(اعراف:34) ’’ اور ہر گروہ کی ایک میعاد مقرر ہے سو جس وقت ان کی میعاد ِمعین آ جائے گی اس وقت ایک ساعت نہ پیچھے ہٹ سکیں گے اور نہ آ گے بڑھ سکیں گے۔‘‘
٭تیمار داری کی فضیلت: اسلام نے انسانوں کو باہمی محبت و مودت اور ہمدردی کا درس دیا ہے ‘ اس لیے جب کو ئی مسلمان بیمار ہو جائے تو اس کی تیمار داری کرنا مسلمان پر واجب ہے تیمار داری کرنے والا جہاں اپنے بھائی سے محبت اور الفت کا اظہار کرتا ہے اور باہمی تعلقات کو مضبوط بناتا ہے وہاں اپنے رب سے اجر عظیم کا حقدار بھی بنتا ہے ۔
رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے :’’ جب کوئی مسلمان شا م کے وقت کسی بھائی کی عیادت کے لیے نکلتا ہے تو ستر ہزار فرشتے بھی اس کے ساتھ نکلتے ہیں جو اس کے لیے صبح تک بخشش طلب کرتے رہتے ہیں اور جو کوئی صبح کے وقت عیادت کے لیے نکلے تو اس کے ساتھ ستر ہزار فرشتے نکلتے ہیں جو اس کے لیے بخشش مانگتے رہتے ہیں۔‘‘(سنن ابی داود ‘الجنائز‘حدیث:3098‘3099)
٭جنازہ میں شرکت کی فضیلت: مسلمان فوت ہوئے تو اس کے کفن و دفن کا انتظام کرنا ضروری ہے ۔ اس کا یہ عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک نہایت مقبول اور اعلیٰ اجر و ثواب کا حامل ہے ۔ جبکہ دوسری طرف موحد مسلمانوں کی التجا و دعا کو قبول کرتے ہوئے رب العالمین فوت ہوتے والے کی مغفرت فرما دیتا ہے ۔ اسی طرح یہ عمل طرفین کے لیے باعث رحمت بن جاتا ہے ۔ارشاد نبوی ہے:( «مَنْ شَهِدَ الجَنَازَةَ حَتَّى يُصَلِّيَ، فَلَهُ قِيرَاطٌ، وَمَنْ شَهِدَ حَتَّى تُدْفَنَ كَانَ لَهُ قِيرَاطَانِ»، قِيلَ: وَمَا القِيرَاطَانِ؟ قَالَ: «مِثْلُ الجَبَلَيْنِ العَظِيمَيْنِ»)(صحيح البخارى ~الجنائز~باب من انتظر حتى يدفن~حديث:1325)’’ جو شخص جنازے میں شامل ہوا نماز پڑھے اسے ایک قیراط ثواب ملتا ہے اور جو شخص میت کو دفن کرنے تک موجود رہتا ہے اسے دو قیراط ملتے ہیں ۔‘‘صحابہ نے عرض کیا : اللہ کے حکم رسول! قیراطان کا مطلب کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا:’’دوقیراط کا ثواب دد عظیم پہاڑوں کے برابر ہے۔‘‘
٭میت کو نفع دینے والے چند امور: ہمارے معاشرے میں ایصال ثواب کے متعدد طریقے رائج ہیں جو اکثر و بیشتر شکم پروو‘ نیم خواندہ مذہبی رہنماؤں کی ایجاد ہیں ‘ طریقوں پر عمل کرنا بجائےثواب کے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا قوی سبب ہے ۔ سنت رسول ﷺ میں ایصال ثواب کے لیے درج امو ر بیان ہوئے ہیں(" إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَةٍ: إِلَّا مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ، أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ، أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَهُ ")(صحيح مسلم ~ الوصية~ باب ما يلحق الإنسان من الثواب بعدوفاته~حديث:1631)مرنے کے بعد انسان کے اعمال (کے ثواب کا سلسلہ) منقطع و جاتا ہے لیکن تین چیزوں کا ثواب اسے پہنچتا رہتا ہے صدقۂ جاریہ ‘لوگوں کو فائدہ دینے والا علم اور نیک اولاد جو میت کے لیے دعا کرے۔‘‘
٭چند ایسے امور جو شریعت اسلامیہ میں ثابت نہیں ہیں:
٭مرنے والے کے سرہانے قرآن مجید‘ ادعیہ کا مجموعہ‘ یادیگر اور اد و وظائف رکھنا۔
٭چار پائی کے گرد ذکر و اذکار یا نعت خوانی کرنا۔
٭جنازے پر پھول ڈالنا‘مزین چادر ڈالنا یا قرآنی آیات والی چادر ڈالنا۔
٭جنازے لے جاتے ہوئے کلمہ شہادت وغیرہ کا ورد کرنا ، کرانا۔
٭میت کو بلا وجہ ایک شہر سے دوسرے شہر منتقل کرنا۔
٭قبر کو مزین بنانا اور آرائشی پتھروں سے آراستہ کرنا، یا قبر پر قرآنی آیات ،کلمہ یانام وغیرہ لکھنا۔
٭تدفین کے بعد قبرپر اذان دینا یا سورۂ بقرہ کی تلاوت کرنا۔
٭سوموار‘جمعرات یا دس محرم کو قبروں کی زیارت کے لیے خاص کرنا۔
٭قبروں پر نعت خوانی اور قوالی کرنا یا چراغ وغیرہ جلانا۔
٭ایصال ثواب کے لیے تیجہ‘ساتواں دسواں یا چالیسواں کرنا اور کھانے کا اہتمام کرنا۔
٭دوسرے یا تیسرے دن کل کروانا۔
٭اجرتی قاریوں سے قرآن خوانی کروانا اور سالانہ ختم دلوانا۔
سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”بلاشبہ میت کو اس کے گھر والوں کے رونے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے۔“ یہ حدیث سیدہ عائشہ ؓ کے سامنے بیان کی گئی، تو انہوں نے کہا: (سیدنا ابن عمر ؓ بھول گئے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ) نبی کریم ﷺ ایک قبر کے پاس سے گزرے تھے، تو فرمایا تھا: ”بیشک یہ قبر والا عذاب دیا جا رہا ہے اور اس کے گھر والے اس پر رو رہے ہیں۔“ پھر سیدہ عائشہ ؓ نے یہ آیت پڑھی (وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى) ”کوئی جان کسی دوسری جان کا بوجھ نہیں اٹھائے گی۔“ ہناد نے ابومعاویہ سے روایت کرتے ہوئے وضاحت کی کہ رسول اللہ ﷺ ایک یہودی کی قبر کے پاس سے گزرے تھے۔
حدیث حاشیہ:
مرنے والا کافر ہو یا بالفرض مسلما ن بھی ہو، مگر نوحہ کرنے کی وصیت کرگیا ہو یا اس عمل پر راضی ہوتو اہل خانہ کے نوحہ کرنے سے اسے عذاب ہوگا۔ اس صورت میں اسےعذاب دیا جانا۔ مذکورہ آیت کے خلاف نہیں۔ البتہ اگر وہ اس عمل سے بیزار رہا ہو اور منع کرگیا ہو۔ پھر پیچھے والے یہ غیر شرعی کام کریں۔ تو وہ اس سے بری ہوگا۔ لہذا مومنوں کو چاہیے کہ اپنے وارثوں کو نوحہ یا بین کرنے سے سختی کے ساتھ منع کرتے رہا کریں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس حدیث کواس آیت کے خلاف سمجھا۔ اس لئے اس کی مذکورہ تاویل کی جب کہ واقعہ یہ ہے کہ مذکورہ مفہوم کے مطابق اس حدیث اور آیت میں کوئی تخالف نہیں ہے۔ اس لئے یہ حدیث بھی اس طرح صحیح ہے۔ جس طرح حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے بیا ن کیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میت کو اس کے گھر والوں کے رونے سے عذاب دیا جاتا ہے“۱؎، ابن عمر ؓ کی اس بات کا ذکر ام المؤمنین عائشہ ؓ سے کیا گیا تو انہوں نے کہا: ان سے یعنی ابن عمر ؓ سے بھول ہوئی ہے، سچ یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ کا ایک قبر کے پاس سے گزر ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”اس قبر والے کو تو عذاب ہو رہا ہے اور اس کے گھر والے ہیں کہ اس پر رو رہے ہیں۔“ پھر ام المؤمنین عائشہ ؓ نے آیت (وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى) ”کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔“ (سورة الإسراء : ۱۵) پڑھی۔ ابومعاویہ کی روایت میں «على قبر» کے بجائے «على قبر يهودي» ہے، یعنی ایک یہودی کے قبر کے پاس سے گزر ہوا۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: «إِنَّ الْمَيِّتَ لَيُعَذَّبُ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ» میت کو اس کے گھر والوں کے رونے سے عذاب دیا جاتا ہے، حالاں کہ رونا یا نوحہ کرنا بذات خود میت کا عمل نہیں ہے، پھر غیر کے عمل پر اسے عذاب دیا جانا باعث تعجب ہے، جب کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے (وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى) ”کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔“ اس سلسلہ میں علماء کا کہنا ہے کہ مرنے والے کو اگر یہ معلوم ہے کہ میرے مرنے کے بعد میرے گھر والے مجھ پر نوحہ کریں گے اور اس نے قدرت رکھنے کے باوجود قبل از موت اس سے منع نہیں کیا تو نہ روکنا اس کے لئے باعث سزا ہو گا، اور اس کے گھر والے اگر آہ و بکا کئے بغیر آنسو بہا رہے ہیں تو یہ جائز ہے جیسا کہ ابراہیم اور ام کلثوم کے انتقال پر خود رسول اللہ ﷺکی آنکھوں سے آنسو جاری تھے، پوچھے جانے پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ تو رحمت ہے اللہ نے جس کے دل میں چاہا رکھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Umar (RA): The Messenger of Allah (ﷺ) as saying: The dead is punished because of his family's weeping for him. When this was mentioned to 'Aishah (RA), she said: Ibn 'Umar (RA) forgot and made a mistake. The Prophet (ﷺ) passed by grave and he said: The man in the grave is being punished while his family is weeping for him. She then recited: "No bearer of burdens can bear the burden of another". The narrator Abu Mu'awiyyah said: (The Prophet (ﷺ) passed) by the grave of a Jew.