Abu-Daud:
Funerals (Kitab Al-Jana'iz)
(Chapter: Preparing Food For The Family Of The Deceased)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3132.
سیدنا عبداللہ بن جعفر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا: ”آل جعفر کے لیے کھانا تیار کرو بلاشبہ انہیں ایک ایسا معاملہ درپیش ہے جس نے انہیں مشغول کر دیا ہے۔“ (ان کے پاس سیدنا جعفر ؓ کی شہادت کی خبر آئی تھی۔)
تشریح:
اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے کچھ لوگ کہتے ہیں۔ کہ اہل میت کے گھر میں تین دن تک کھانا پکانا جائز نہیں۔ لیکن نبی کریمﷺ کا یہ فرمان تو عین وقت کےلئے تھا۔ اسے تین دن تک لمبا کرنا تو شرعا صحیح معلوم نہیں ہوتا۔ علاوہ ازیں اس سے اصل مقصود اہل میت سے اظہار ہمدردی تھا۔ محض کھانا پکانے کی ممانعت نہیں۔ اس لئے اس سے استدلال کرکے اہل میت کے گھر کھانا پکانے کو یکسر ممنوع قرار دینا بھی صحیح نہیں۔ البتہ ایک اور رواج جوعام ہوگیا ہے۔ شرعا محل نظر ہے۔ اور وہ ہے جنازے میں شریک ہونے والوں کے لئے کھانا پکانا او دعوت عام کا اہتمام کرنا۔ جنازے میں شریک ہونے والے دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایک تو قریبی اعزہ۔ جو دوردراز کے علاقوں میں۔ (مختلف شہروں) سےآتے ہیں۔ وہ فورا ً واپس نہیں جا سکتے۔ اور میت سے خصوصی تعلق کی وجہ سے ان کا فورا واپس چلے جانا مناسب بھی نہیں ہوتا۔ دوسری قسم کے لوگ جو تعداد میں عام طور پر قریبی اعزہ سے زیادہ ہوتے ہیں۔ جو دوست احباب اہل محلہ واہل مسلک پر مشتمل ہوتے ہیں۔ ان کی شرکت نماز جنازہ یا زیادہ سے زیادہ تدفین تک ہوتی ہے۔ اس کے بعد یہ اپنے اپنے گھروں کو چلے جاتے ہیں۔ اول الزکر قسم کے لوگوں کے لئے کھانا تیارکرنا تو یقینا جائز ہے۔ کیوکہ وہ میت کے نہایت قریبی ہوتے ہیں۔ اور ان کا قیام بھی اہل میت کے پاس ہوتا ہے۔ لیکن ثانی الذکر لوگوں کےلئے بھی کھانا تیار کرنا ان کو دعوتوں کی طرح کھانا کھلانا یا انہیں کھانے پر مجبور کرنا یا دعوت عام کی منادی کرنا تکلیف مالایطاق ہے۔ جو شرعا محل نظر ہے۔ یہ طریقہ اصحاب ثروت نے شروع کیا ہے جن کے لئے چند دیگیں پکا لینا کوئی مشکل امرنہیں۔ لیکن اس رواج نے کم وسائل والے لوگوں کےلئے مشکلات پیدا کردی ہیں۔ بنا بریں اس موقع پر تمام شرکائے جنازہ کےلئے دعوت عام کا اہمتام کرنا قابل اصلاح ہے، کھانے کا یہ اہتمام صرف قریبی اعزہ کےلئے ہونا چاہیے۔ دوسرو ں کےلئے اس کا اہتمام کیا جائے۔ نہ دوسرے لوگ اس میں شریک ہوں۔
انسانی زندگی کی ابتدا اور انتہا دونوں ہی دور رس اثرات کی حامل ہیں ‘جب کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو خاندان بھر میں خوشی و مسرت کا عجیب سماں پیدا ہو جاتا ہے ۔ ہر طرف مبارکباد اور خوشیوں کا بتادلہ ہوتا ہے ‘پھر وقت مقررہ پر اس کے رخصت ہوتے کا وقت آتا ہے تو ہر طرف غم کی فضا پھیل جاتی ہے اس نازک وقت میں اکثر و بیشتر لوگ کم علمی ‘جہالت اور شرکیہ معاشرتی فضا کی وجہ سے الیسے افعال میں مبتلا ہو جاتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب بنتے ہیں ‘یہ سلسلہ ہائے بدعات و شرک موت کے بعد بھی طویل عرصہ تک جاری رہتا ہے اور شکم پر ور جہلاء کی خوب چاندی رہتی ہے ۔
انسان جب بستر مرگ پر ہوتا ہے تو لواحقین بے بسی کی کیفیت سے دو چار ہوتے ہیں ‘حتی المقدار دوا دارو کرنے کے باوجود مریض لمحہ بہ لمحہ موت کے قریب ہوتا جاتا ہے تیمار داری کرنے والے دبے لفظوں میں مایوسی کا اظہار کرنے لگتے ہیں ‘لواحقین ہر حکیم ‘ ڈاکٹر حتی کہ شرکیہ دم جھاڑ اور مزاروں سے خاک شفا تک حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ شائد ہمارا مریض بچ جائے مگر جو وقت مقرر ہو چکا ‘ وہ آکے رہتا ہے (وَلِكُلِّ أُمَّةٍ أَجَلٌ فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ لَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ)(اعراف:34) ’’ اور ہر گروہ کی ایک میعاد مقرر ہے سو جس وقت ان کی میعاد ِمعین آ جائے گی اس وقت ایک ساعت نہ پیچھے ہٹ سکیں گے اور نہ آ گے بڑھ سکیں گے۔‘‘
٭تیمار داری کی فضیلت: اسلام نے انسانوں کو باہمی محبت و مودت اور ہمدردی کا درس دیا ہے ‘ اس لیے جب کو ئی مسلمان بیمار ہو جائے تو اس کی تیمار داری کرنا مسلمان پر واجب ہے تیمار داری کرنے والا جہاں اپنے بھائی سے محبت اور الفت کا اظہار کرتا ہے اور باہمی تعلقات کو مضبوط بناتا ہے وہاں اپنے رب سے اجر عظیم کا حقدار بھی بنتا ہے ۔
رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے :’’ جب کوئی مسلمان شا م کے وقت کسی بھائی کی عیادت کے لیے نکلتا ہے تو ستر ہزار فرشتے بھی اس کے ساتھ نکلتے ہیں جو اس کے لیے صبح تک بخشش طلب کرتے رہتے ہیں اور جو کوئی صبح کے وقت عیادت کے لیے نکلے تو اس کے ساتھ ستر ہزار فرشتے نکلتے ہیں جو اس کے لیے بخشش مانگتے رہتے ہیں۔‘‘(سنن ابی داود ‘الجنائز‘حدیث:3098‘3099)
٭جنازہ میں شرکت کی فضیلت: مسلمان فوت ہوئے تو اس کے کفن و دفن کا انتظام کرنا ضروری ہے ۔ اس کا یہ عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک نہایت مقبول اور اعلیٰ اجر و ثواب کا حامل ہے ۔ جبکہ دوسری طرف موحد مسلمانوں کی التجا و دعا کو قبول کرتے ہوئے رب العالمین فوت ہوتے والے کی مغفرت فرما دیتا ہے ۔ اسی طرح یہ عمل طرفین کے لیے باعث رحمت بن جاتا ہے ۔ارشاد نبوی ہے:( «مَنْ شَهِدَ الجَنَازَةَ حَتَّى يُصَلِّيَ، فَلَهُ قِيرَاطٌ، وَمَنْ شَهِدَ حَتَّى تُدْفَنَ كَانَ لَهُ قِيرَاطَانِ»، قِيلَ: وَمَا القِيرَاطَانِ؟ قَالَ: «مِثْلُ الجَبَلَيْنِ العَظِيمَيْنِ»)(صحيح البخارى ~الجنائز~باب من انتظر حتى يدفن~حديث:1325)’’ جو شخص جنازے میں شامل ہوا نماز پڑھے اسے ایک قیراط ثواب ملتا ہے اور جو شخص میت کو دفن کرنے تک موجود رہتا ہے اسے دو قیراط ملتے ہیں ۔‘‘صحابہ نے عرض کیا : اللہ کے حکم رسول! قیراطان کا مطلب کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا:’’دوقیراط کا ثواب دد عظیم پہاڑوں کے برابر ہے۔‘‘
٭میت کو نفع دینے والے چند امور: ہمارے معاشرے میں ایصال ثواب کے متعدد طریقے رائج ہیں جو اکثر و بیشتر شکم پروو‘ نیم خواندہ مذہبی رہنماؤں کی ایجاد ہیں ‘ طریقوں پر عمل کرنا بجائےثواب کے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا قوی سبب ہے ۔ سنت رسول ﷺ میں ایصال ثواب کے لیے درج امو ر بیان ہوئے ہیں(" إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَةٍ: إِلَّا مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ، أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ، أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَهُ ")(صحيح مسلم ~ الوصية~ باب ما يلحق الإنسان من الثواب بعدوفاته~حديث:1631)مرنے کے بعد انسان کے اعمال (کے ثواب کا سلسلہ) منقطع و جاتا ہے لیکن تین چیزوں کا ثواب اسے پہنچتا رہتا ہے صدقۂ جاریہ ‘لوگوں کو فائدہ دینے والا علم اور نیک اولاد جو میت کے لیے دعا کرے۔‘‘
٭چند ایسے امور جو شریعت اسلامیہ میں ثابت نہیں ہیں:
٭مرنے والے کے سرہانے قرآن مجید‘ ادعیہ کا مجموعہ‘ یادیگر اور اد و وظائف رکھنا۔
٭چار پائی کے گرد ذکر و اذکار یا نعت خوانی کرنا۔
٭جنازے پر پھول ڈالنا‘مزین چادر ڈالنا یا قرآنی آیات والی چادر ڈالنا۔
٭جنازے لے جاتے ہوئے کلمہ شہادت وغیرہ کا ورد کرنا ، کرانا۔
٭میت کو بلا وجہ ایک شہر سے دوسرے شہر منتقل کرنا۔
٭قبر کو مزین بنانا اور آرائشی پتھروں سے آراستہ کرنا، یا قبر پر قرآنی آیات ،کلمہ یانام وغیرہ لکھنا۔
٭تدفین کے بعد قبرپر اذان دینا یا سورۂ بقرہ کی تلاوت کرنا۔
٭سوموار‘جمعرات یا دس محرم کو قبروں کی زیارت کے لیے خاص کرنا۔
٭قبروں پر نعت خوانی اور قوالی کرنا یا چراغ وغیرہ جلانا۔
٭ایصال ثواب کے لیے تیجہ‘ساتواں دسواں یا چالیسواں کرنا اور کھانے کا اہتمام کرنا۔
٭دوسرے یا تیسرے دن کل کروانا۔
٭اجرتی قاریوں سے قرآن خوانی کروانا اور سالانہ ختم دلوانا۔
سیدنا عبداللہ بن جعفر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا: ”آل جعفر کے لیے کھانا تیار کرو بلاشبہ انہیں ایک ایسا معاملہ درپیش ہے جس نے انہیں مشغول کر دیا ہے۔“ (ان کے پاس سیدنا جعفر ؓ کی شہادت کی خبر آئی تھی۔)
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے کچھ لوگ کہتے ہیں۔ کہ اہل میت کے گھر میں تین دن تک کھانا پکانا جائز نہیں۔ لیکن نبی کریمﷺ کا یہ فرمان تو عین وقت کےلئے تھا۔ اسے تین دن تک لمبا کرنا تو شرعا صحیح معلوم نہیں ہوتا۔ علاوہ ازیں اس سے اصل مقصود اہل میت سے اظہار ہمدردی تھا۔ محض کھانا پکانے کی ممانعت نہیں۔ اس لئے اس سے استدلال کرکے اہل میت کے گھر کھانا پکانے کو یکسر ممنوع قرار دینا بھی صحیح نہیں۔ البتہ ایک اور رواج جوعام ہوگیا ہے۔ شرعا محل نظر ہے۔ اور وہ ہے جنازے میں شریک ہونے والوں کے لئے کھانا پکانا او دعوت عام کا اہتمام کرنا۔ جنازے میں شریک ہونے والے دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایک تو قریبی اعزہ۔ جو دوردراز کے علاقوں میں۔ (مختلف شہروں) سےآتے ہیں۔ وہ فورا ً واپس نہیں جا سکتے۔ اور میت سے خصوصی تعلق کی وجہ سے ان کا فورا واپس چلے جانا مناسب بھی نہیں ہوتا۔ دوسری قسم کے لوگ جو تعداد میں عام طور پر قریبی اعزہ سے زیادہ ہوتے ہیں۔ جو دوست احباب اہل محلہ واہل مسلک پر مشتمل ہوتے ہیں۔ ان کی شرکت نماز جنازہ یا زیادہ سے زیادہ تدفین تک ہوتی ہے۔ اس کے بعد یہ اپنے اپنے گھروں کو چلے جاتے ہیں۔ اول الزکر قسم کے لوگوں کے لئے کھانا تیارکرنا تو یقینا جائز ہے۔ کیوکہ وہ میت کے نہایت قریبی ہوتے ہیں۔ اور ان کا قیام بھی اہل میت کے پاس ہوتا ہے۔ لیکن ثانی الذکر لوگوں کےلئے بھی کھانا تیار کرنا ان کو دعوتوں کی طرح کھانا کھلانا یا انہیں کھانے پر مجبور کرنا یا دعوت عام کی منادی کرنا تکلیف مالایطاق ہے۔ جو شرعا محل نظر ہے۔ یہ طریقہ اصحاب ثروت نے شروع کیا ہے جن کے لئے چند دیگیں پکا لینا کوئی مشکل امرنہیں۔ لیکن اس رواج نے کم وسائل والے لوگوں کےلئے مشکلات پیدا کردی ہیں۔ بنا بریں اس موقع پر تمام شرکائے جنازہ کےلئے دعوت عام کا اہمتام کرنا قابل اصلاح ہے، کھانے کا یہ اہتمام صرف قریبی اعزہ کےلئے ہونا چاہیے۔ دوسرو ں کےلئے اس کا اہتمام کیا جائے۔ نہ دوسرے لوگ اس میں شریک ہوں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن جعفر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جعفر کے گھر والوں کے لیے کھانا تیار کرو کیونکہ ان پر ایک ایسا امر (حادثہ و سانحہ) پیش آ گیا ہے جس نے انہیں اس کا موقع نہیں دیا ہے۱؎۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎: اس سے معلوم ہوا کہ رشتہ داروں کو میت کے گھر والوں کے پاس کھانا پکوا کر بھجوانا چاہئے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah ibn Ja'far (RA): The Apostle of Allah (ﷺ) said: Prepare food for the family of Ja'far for there came upon them an incident which has engaged them.