باب: قسم کھانے میں مخفی طور پر اشارتاً کوئی اور مفہوم مراد لے لینا
)
Abu-Daud:
Oaths and Vows (Kitab Al-Aiman Wa Al-Nudhur)
(Chapter: Ambiguity In Oaths)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3255.
سیدنا ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” تیری قسم اسی بات پر ہے جس پر تیرا ساتھی تجھ سے تصدیق کرا رہا ہے ۔ “ جناب مسدد ؓ نے اس سند میں ( «عن عباد بن أبي صالح» کے بجائے ) «أخبرني عبد الله بن أبي صالح» کہا ہے ۔ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں : یہ دونوں عبداللہ بن ابی صالح اور عباد بن ابی صالح ایک ہی شخصیت ہیں ۔
تشریح:
مسلمانوں کے درمیان آپس میں تنازعات کے فیصلوں کے لئے اشارات وتعریضآات(توریے)سے قسم اٹھانا کسی طرح مفید مطلب نہیں۔بلکہ ناجائز ہے۔ البتہ کفار یا ظالموں سے آویزش ہو تو رخصت ہے۔
٭قسم کی اہمیت اور اس کی اقسام: کسی معاملے کو اللہ کے نام یا اس کی صفات کا ذکر کر کے یقینی بنانے کو حلف اٹھانا یا قسم کھانا کہتے ہیں ۔چونکہ عرب لوگ ایسے مواقع پر با ہم مصافحہ بھی کرتے تھے اس لیے اسے (يمين) اس کی تین قسمیں ہیں:ایک حقیقی اور سچی قسم ‘جو بالعزم اٹھائی جاتی ہے ‘اسے ’’یمین مُعَقَّد‘‘ کہتے ہیں اور اس کے مطابق عمل کرنا حتی الامکان لازم ہوتا ہے ‘ورنہ کفارہ واجب ہوتا ہے ۔ دوسری ’’یمین لغو‘‘ ہے ۔یعنی بلا عزم بات بات پر قسمیں اٹھانا جیسے کہ بعض لوگوں کا تکیہ کلام ہوتا ہے ‘اسے معاف قرار دیا گیا ہے ۔تا ہم اسے معمولی نہیں جاننا چاہیے بلکہ اپنی عادت بدلے کی بھر پور کوشش کرنی چاہیے اور تیسری جھوٹی قسم ‘اسے ’’یمین غموس‘‘ کہتے ہیں یعنی گناہ‘ عتاب اور ہلاکت میں ڈبو دینے والی اسے اکبر الکبائر میں شمار کیا گیا ہے قرآن مجید میں ہے (وَلَا تَنْقُضُوا الْأَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيدِهَا)(النخل :91) ’’اپنی قسموں کو پختہ کرنے کے بعد مت توڑو۔‘‘( لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَكِنْ يُؤَاخِذُكُمْ بِمَا كَسَبَتْ قُلُوبُكُمْ)(القرۃ :225)’’ اللہ تمہیں تمہاری ان قسموں پر نہیں پکڑے گا جو پختہ نہ ہوں ‘ہاں اس چیز پر پکڑے گا جو تمہارے دلوں کا فعل ہو۔‘‘
٭نذر کی لغوی اور اصطلاحی تعریف: لغت میں نذر کے معنی ہیں (اَلْوعدُ بخيرٍ أوْشَرٍّ)’’اچھا یا برا وعدہ‘‘۔ شرع میں نذر کا مطلب ہے(هوَ الْتزامُ قُرْبَةٍ غَيْرِ لاَزِمَةٍ)’’ اللہ تعالیٰ کے قرب کے حصول کے لیے کسی چیز کو اپنے اوپر لازم قرار دے لینا نذر کہلاتا ہے۔‘‘
٭نذر کی مشروعیت: نذر گزشتہ ادیان میں بھی مشروع تھی اور زمانہ جاہلیت میں بھی اس کا رواج عام تھا مشرکین بتوں کے نام پر نذر مانتے تھے تا کہ ان کا قرب حاصل ہو اپنی حاجات طلبی کے لیے نذر و نیاز ان کے ہاں مقبول عام عمل تھا۔ اسلام نے نذر کو مشروع رکھا ہے لیکن اس کے لیے قواعد و ضوابط رکھے ہیں تا کہ یہ اللہ کی رضا کے حصول کا باعث بنے اور غیر اللہ کے ساتھ اس کا تعلق ختم ہو جائے۔قرآن مجید میں اس کی مشروعیت کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(وَمَا أَنْفَقْتُمْ مِنْ نَفَقَةٍ أَوْ نَذَرْتُمْ مِنْ نَذْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُهُ)(ال بقرۃ:270)
’’تم جتنا کچھ خرچ کرو یعنی خیرات کرو اور جو کچھ نذر مانو اسے اللہ بخوبی جانتا ہے ۔‘‘
«مَنْ نَذَرَ أَنْ يُطِيعَ اللَّهَ فَلْيُطِعْهُ، وَمَنْ نَذَرَ أَنْ يَعْصِيَهُ فَلاَ يَعْصِهِ» (صحیح البخاری‘ الایمان والنذور‘ حدیث:6696)
’’جس شخص نے اللہ کی اطاعت کی نذر مانی تو وہ اس کی اطاعت کرے (نذر پوری کرے) اور حس نے اس کی معصیت کی نذر مانی وہ اس کی نافرمانی نہ کرے۔‘‘
سیدنا ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” تیری قسم اسی بات پر ہے جس پر تیرا ساتھی تجھ سے تصدیق کرا رہا ہے ۔ “ جناب مسدد ؓ نے اس سند میں ( «عن عباد بن أبي صالح» کے بجائے ) «أخبرني عبد الله بن أبي صالح» کہا ہے ۔ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں : یہ دونوں عبداللہ بن ابی صالح اور عباد بن ابی صالح ایک ہی شخصیت ہیں ۔
حدیث حاشیہ:
مسلمانوں کے درمیان آپس میں تنازعات کے فیصلوں کے لئے اشارات وتعریضآات(توریے)سے قسم اٹھانا کسی طرح مفید مطلب نہیں۔بلکہ ناجائز ہے۔ البتہ کفار یا ظالموں سے آویزش ہو تو رخصت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” تمہاری قسم کا اعتبار اسی چیز پر ہو گا جس پر تمہارا ساتھی تمہاری تصدیق کرے “ ۔ مسدد کی روایت میں : «أخبرني عبد الله بن أبي صالح» ہے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : عباد بن ابی صالح اور عبداللہ بن ابی صالح دونوں ایک ہی ہیں ۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA):
The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) as saying: Your oath should be about something regarding which your companion will believe you.
Musaddad said: 'Abd Allah b. Abi Salih narrated to me.
Abu Dawud رحمۃ اللہ علیہ said: Both of them refer to the same person: 'Abbad b. Abu Salih and 'Abd Allah b. Abi Salih.