باب: اسلام سے بری ہو جانے یا غیر مسلم ہونے کی قسم کھانا
)
Abu-Daud:
Oaths and Vows (Kitab Al-Aiman Wa Al-Nudhur)
(Chapter: What Has Been Reported About Swearing That One Has Nothing To Do With Islam Or That One Belongs To Another Religion)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3257.
سیدنا ثابت بن ضحاک ؓ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ( حدیبیہ میں ) درخت کے نیچے بیعت کی تھی ۔ بیشک رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” جس نے ملت اسلام کے سوا کسی اور ملت میں ہو جانے کی قسم کھائی خواہ وہ جھوٹا ہی کیوں نہ ہو ‘ تو وہ اسی طرح ہے جیسا کہ اس نے کہا ۔ اور جس نے جس چیز سے اپنے آپ کو قتل کیا اسے قیامت کے دن اسی سے عذاب دیا جائے گا ۔ اور جو چیز انسان کی اپنی ملکیت میں نہ ہو ‘ اس کی نذر بھی نہیں ہے ۔ “
٭قسم کی اہمیت اور اس کی اقسام: کسی معاملے کو اللہ کے نام یا اس کی صفات کا ذکر کر کے یقینی بنانے کو حلف اٹھانا یا قسم کھانا کہتے ہیں ۔چونکہ عرب لوگ ایسے مواقع پر با ہم مصافحہ بھی کرتے تھے اس لیے اسے (يمين) اس کی تین قسمیں ہیں:ایک حقیقی اور سچی قسم ‘جو بالعزم اٹھائی جاتی ہے ‘اسے ’’یمین مُعَقَّد‘‘ کہتے ہیں اور اس کے مطابق عمل کرنا حتی الامکان لازم ہوتا ہے ‘ورنہ کفارہ واجب ہوتا ہے ۔ دوسری ’’یمین لغو‘‘ ہے ۔یعنی بلا عزم بات بات پر قسمیں اٹھانا جیسے کہ بعض لوگوں کا تکیہ کلام ہوتا ہے ‘اسے معاف قرار دیا گیا ہے ۔تا ہم اسے معمولی نہیں جاننا چاہیے بلکہ اپنی عادت بدلے کی بھر پور کوشش کرنی چاہیے اور تیسری جھوٹی قسم ‘اسے ’’یمین غموس‘‘ کہتے ہیں یعنی گناہ‘ عتاب اور ہلاکت میں ڈبو دینے والی اسے اکبر الکبائر میں شمار کیا گیا ہے قرآن مجید میں ہے (وَلَا تَنْقُضُوا الْأَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيدِهَا)(النخل :91) ’’اپنی قسموں کو پختہ کرنے کے بعد مت توڑو۔‘‘( لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَكِنْ يُؤَاخِذُكُمْ بِمَا كَسَبَتْ قُلُوبُكُمْ)(القرۃ :225)’’ اللہ تمہیں تمہاری ان قسموں پر نہیں پکڑے گا جو پختہ نہ ہوں ‘ہاں اس چیز پر پکڑے گا جو تمہارے دلوں کا فعل ہو۔‘‘
٭نذر کی لغوی اور اصطلاحی تعریف: لغت میں نذر کے معنی ہیں (اَلْوعدُ بخيرٍ أوْشَرٍّ)’’اچھا یا برا وعدہ‘‘۔ شرع میں نذر کا مطلب ہے(هوَ الْتزامُ قُرْبَةٍ غَيْرِ لاَزِمَةٍ)’’ اللہ تعالیٰ کے قرب کے حصول کے لیے کسی چیز کو اپنے اوپر لازم قرار دے لینا نذر کہلاتا ہے۔‘‘
٭نذر کی مشروعیت: نذر گزشتہ ادیان میں بھی مشروع تھی اور زمانہ جاہلیت میں بھی اس کا رواج عام تھا مشرکین بتوں کے نام پر نذر مانتے تھے تا کہ ان کا قرب حاصل ہو اپنی حاجات طلبی کے لیے نذر و نیاز ان کے ہاں مقبول عام عمل تھا۔ اسلام نے نذر کو مشروع رکھا ہے لیکن اس کے لیے قواعد و ضوابط رکھے ہیں تا کہ یہ اللہ کی رضا کے حصول کا باعث بنے اور غیر اللہ کے ساتھ اس کا تعلق ختم ہو جائے۔قرآن مجید میں اس کی مشروعیت کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(وَمَا أَنْفَقْتُمْ مِنْ نَفَقَةٍ أَوْ نَذَرْتُمْ مِنْ نَذْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُهُ)(ال بقرۃ:270)
’’تم جتنا کچھ خرچ کرو یعنی خیرات کرو اور جو کچھ نذر مانو اسے اللہ بخوبی جانتا ہے ۔‘‘
«مَنْ نَذَرَ أَنْ يُطِيعَ اللَّهَ فَلْيُطِعْهُ، وَمَنْ نَذَرَ أَنْ يَعْصِيَهُ فَلاَ يَعْصِهِ» (صحیح البخاری‘ الایمان والنذور‘ حدیث:6696)
’’جس شخص نے اللہ کی اطاعت کی نذر مانی تو وہ اس کی اطاعت کرے (نذر پوری کرے) اور حس نے اس کی معصیت کی نذر مانی وہ اس کی نافرمانی نہ کرے۔‘‘
سیدنا ثابت بن ضحاک ؓ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ( حدیبیہ میں ) درخت کے نیچے بیعت کی تھی ۔ بیشک رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” جس نے ملت اسلام کے سوا کسی اور ملت میں ہو جانے کی قسم کھائی خواہ وہ جھوٹا ہی کیوں نہ ہو ‘ تو وہ اسی طرح ہے جیسا کہ اس نے کہا ۔ اور جس نے جس چیز سے اپنے آپ کو قتل کیا اسے قیامت کے دن اسی سے عذاب دیا جائے گا ۔ اور جو چیز انسان کی اپنی ملکیت میں نہ ہو ‘ اس کی نذر بھی نہیں ہے ۔ “
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ثابت بن ضحاک ؓ نے خبر دی کہ انہوں نے درخت کے نیچے رسول اللہ ﷺ سے بیعت کی ۱؎ ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” جو شخص ملت اسلام کے سوا کسی اور ملت میں ہونے کی جھوٹی قسم کھائے تو وہ ویسے ہی ہو جائے گا جیسا اس نے کہا ہے ، اور جو شخص اپنے آپ کو کسی چیز سے ہلاک کر ڈالے ( یعنی خودکشی کر لے ) تو قیامت میں اس کو اسی چیز سے عذاب دیا جائے گا ، اور اس آدمی کی نذر نہیں مانی جائے گی جو کسی ایسی چیز کی نذر مانے جو اس کے اختیار میں نہ ہو ۲؎ “ ۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : بیعت سے مراد بیعت رضوان ہے، جو صلح حدیببہ کے موقع پر لی گئی۔ ¤ ۲؎ : مثلا یوں کہتے ہیں کہ اگر میں یہ کروں تو یہودی ہو جاؤں، مثلاً دوسرے کے غلام یا لونڈی کو آزاد کرنے کی نذر مانے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Thabit bin Adh-Dahhak:
That he took oath of allegiance to the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) under the tree. The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) said: If anyone swears by religion other than Islam falsely, he is like what has has said. If anyone kills himself with something, he will be punished with it on the Day of Resurrection. A vow over which a man has no control is not binding on him.