Abu-Daud:
Oaths and Vows (Kitab Al-Aiman Wa Al-Nudhur)
(Chapter: How The Prophet (saws) Swore An Oath)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3266.
عاصم بن لقیط کہتے ہیں کہ سیدنا لقیط بن عامر ؓ ایک وفد لے کہ نبی کریم ﷺ کے پاس آئے ۔ لقیط کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ اور اس سلسلے میں حدیث ذکر کی ‘ تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا ” تیرے الہٰ کی بقا کی قسم ۔ “
تشریح:
صحیح بخاری میں بھی اس قسم کے الفاظ کے ساتھ یہ روایت ہے۔(لعمرالله لنقتلنه)(صحیح بخاری۔ کتاب لایمان والنذور۔باب قول الرجل لعمر اللہ۔حدیث 6662) حافظ ابن حجر نے کہا ہے کہ عمر یہاں حیات کے معنی میں ہے۔اس لفظ کے ساتھ قسم کھانے والا اللہ کی بقا کے ساتھ قسم کھاتا ہے۔ اور بقا اللہ کی ذاتی صفت ہے۔ اس لئے اس طرح قسم کھانا صحیح ہے۔(فتح الباری۔باب مذکور)
٭قسم کی اہمیت اور اس کی اقسام: کسی معاملے کو اللہ کے نام یا اس کی صفات کا ذکر کر کے یقینی بنانے کو حلف اٹھانا یا قسم کھانا کہتے ہیں ۔چونکہ عرب لوگ ایسے مواقع پر با ہم مصافحہ بھی کرتے تھے اس لیے اسے (يمين) اس کی تین قسمیں ہیں:ایک حقیقی اور سچی قسم ‘جو بالعزم اٹھائی جاتی ہے ‘اسے ’’یمین مُعَقَّد‘‘ کہتے ہیں اور اس کے مطابق عمل کرنا حتی الامکان لازم ہوتا ہے ‘ورنہ کفارہ واجب ہوتا ہے ۔ دوسری ’’یمین لغو‘‘ ہے ۔یعنی بلا عزم بات بات پر قسمیں اٹھانا جیسے کہ بعض لوگوں کا تکیہ کلام ہوتا ہے ‘اسے معاف قرار دیا گیا ہے ۔تا ہم اسے معمولی نہیں جاننا چاہیے بلکہ اپنی عادت بدلے کی بھر پور کوشش کرنی چاہیے اور تیسری جھوٹی قسم ‘اسے ’’یمین غموس‘‘ کہتے ہیں یعنی گناہ‘ عتاب اور ہلاکت میں ڈبو دینے والی اسے اکبر الکبائر میں شمار کیا گیا ہے قرآن مجید میں ہے (وَلَا تَنْقُضُوا الْأَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيدِهَا)(النخل :91) ’’اپنی قسموں کو پختہ کرنے کے بعد مت توڑو۔‘‘( لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَكِنْ يُؤَاخِذُكُمْ بِمَا كَسَبَتْ قُلُوبُكُمْ)(القرۃ :225)’’ اللہ تمہیں تمہاری ان قسموں پر نہیں پکڑے گا جو پختہ نہ ہوں ‘ہاں اس چیز پر پکڑے گا جو تمہارے دلوں کا فعل ہو۔‘‘
٭نذر کی لغوی اور اصطلاحی تعریف: لغت میں نذر کے معنی ہیں (اَلْوعدُ بخيرٍ أوْشَرٍّ)’’اچھا یا برا وعدہ‘‘۔ شرع میں نذر کا مطلب ہے(هوَ الْتزامُ قُرْبَةٍ غَيْرِ لاَزِمَةٍ)’’ اللہ تعالیٰ کے قرب کے حصول کے لیے کسی چیز کو اپنے اوپر لازم قرار دے لینا نذر کہلاتا ہے۔‘‘
٭نذر کی مشروعیت: نذر گزشتہ ادیان میں بھی مشروع تھی اور زمانہ جاہلیت میں بھی اس کا رواج عام تھا مشرکین بتوں کے نام پر نذر مانتے تھے تا کہ ان کا قرب حاصل ہو اپنی حاجات طلبی کے لیے نذر و نیاز ان کے ہاں مقبول عام عمل تھا۔ اسلام نے نذر کو مشروع رکھا ہے لیکن اس کے لیے قواعد و ضوابط رکھے ہیں تا کہ یہ اللہ کی رضا کے حصول کا باعث بنے اور غیر اللہ کے ساتھ اس کا تعلق ختم ہو جائے۔قرآن مجید میں اس کی مشروعیت کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(وَمَا أَنْفَقْتُمْ مِنْ نَفَقَةٍ أَوْ نَذَرْتُمْ مِنْ نَذْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُهُ)(ال بقرۃ:270)
’’تم جتنا کچھ خرچ کرو یعنی خیرات کرو اور جو کچھ نذر مانو اسے اللہ بخوبی جانتا ہے ۔‘‘
«مَنْ نَذَرَ أَنْ يُطِيعَ اللَّهَ فَلْيُطِعْهُ، وَمَنْ نَذَرَ أَنْ يَعْصِيَهُ فَلاَ يَعْصِهِ» (صحیح البخاری‘ الایمان والنذور‘ حدیث:6696)
’’جس شخص نے اللہ کی اطاعت کی نذر مانی تو وہ اس کی اطاعت کرے (نذر پوری کرے) اور حس نے اس کی معصیت کی نذر مانی وہ اس کی نافرمانی نہ کرے۔‘‘
عاصم بن لقیط کہتے ہیں کہ سیدنا لقیط بن عامر ؓ ایک وفد لے کہ نبی کریم ﷺ کے پاس آئے ۔ لقیط کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ اور اس سلسلے میں حدیث ذکر کی ‘ تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا ” تیرے الہٰ کی بقا کی قسم ۔ “
حدیث حاشیہ:
صحیح بخاری میں بھی اس قسم کے الفاظ کے ساتھ یہ روایت ہے۔(لعمرالله لنقتلنه)(صحیح بخاری۔ کتاب لایمان والنذور۔باب قول الرجل لعمر اللہ۔حدیث 6662) حافظ ابن حجر نے کہا ہے کہ عمر یہاں حیات کے معنی میں ہے۔اس لفظ کے ساتھ قسم کھانے والا اللہ کی بقا کے ساتھ قسم کھاتا ہے۔ اور بقا اللہ کی ذاتی صفت ہے۔ اس لئے اس طرح قسم کھانا صحیح ہے۔(فتح الباری۔باب مذکور)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عاصم بن لقیط کہتے ہیں کہ لقیط بن عامر ؓ نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک وفد لے کر گئے ، لقیط ؓ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے ، پھر راوی نے حدیث ذکر کی ، اس میں ہے تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ” قسم ہے تمہارے معبود کی “ ۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Laqit ibn 'Amir:
We came to the Apostle of Allah (ﷺ) in a delegation. The Prophet (ﷺ) then said: By the age of thy god.