باب: اگر کوئی قسم کھا لے کہ یہ کھانا نہیں کھاؤں گا
)
Abu-Daud:
Oaths and Vows (Kitab Al-Aiman Wa Al-Nudhur)
(Chapter: One Who Swears Not To Eat Food)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3271.
ابوعثمان نے سیدنا عبدالرحمٰن بن ابی بکر ؓ سے یہ حدیث مذکورہ بالا حدیث کی مانند روایت کی اور ابن مثنی نے سالم کی اس حدیث میں مزید کہا : مجھے یہ بات نہیں پہنچی کہ ( سیدنا ابوبکر ؓ نے ) کفارہ بھی دیا ۔
تشریح:
1۔یہ دلچسپ حدیث صحیح بخاری میں تفصیل سے پڑھنے کے لائق ہے۔(صحیح البخاری ۔مواقیت الصلواۃ حدیث 602) اس میں ہے کہ ایک کرامت ظاہر ہوئی کہ کھانا بڑھ گیا۔اور پھر وہ اسے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بھی لے گئے 2۔اس میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے اہل بیت کی بہت بڑی فضیلت کا بیان ہے۔ اوریہ کہ مہمان نوازی ایک اہم شرعی حق ہے۔3۔شرعی ضرورت کے تحت عشاء کے بعد ضروری امور سرانجام دینا جائز ہے۔4۔مہمانوں کے ساتھ مل کر کھانے میں ایکدوسرے کا اکرام ہے۔اور یہ ایک مستحب عمل ہے۔5۔شرعی حقوق کی کوتاہی میں بڑی عمرکی اولاد کو دوسروں کےسامنے بھی ڈانٹ ڈپٹ کی جاسکتی ہے۔6۔کسی بات پر قسم کھائی ہو لیکن اس کادوسرا پہلو زیادہ بہتر ہو تو قسم توڑ دینی چاہیے۔7۔ اولیاء اور صالحین کی کرامات حق ہیں۔8۔مذکورہ بالا صورت میں اگر کسی نے قسم توڑی ہو تو کفارہ لازم آتا ہے۔ اور حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قصے میں کفارے کا زکر ویسے ہی نہیں آیا۔کچھ نے کیا ہے کہ ممکن ہے یہ واقعہ وجوب کفارہ سے پہلے کا ہو اور کچھ نے اسے لغو قسم شمار کیا ہے۔مگر یہ متبادر نہیں ہے۔
٭قسم کی اہمیت اور اس کی اقسام: کسی معاملے کو اللہ کے نام یا اس کی صفات کا ذکر کر کے یقینی بنانے کو حلف اٹھانا یا قسم کھانا کہتے ہیں ۔چونکہ عرب لوگ ایسے مواقع پر با ہم مصافحہ بھی کرتے تھے اس لیے اسے (يمين) اس کی تین قسمیں ہیں:ایک حقیقی اور سچی قسم ‘جو بالعزم اٹھائی جاتی ہے ‘اسے ’’یمین مُعَقَّد‘‘ کہتے ہیں اور اس کے مطابق عمل کرنا حتی الامکان لازم ہوتا ہے ‘ورنہ کفارہ واجب ہوتا ہے ۔ دوسری ’’یمین لغو‘‘ ہے ۔یعنی بلا عزم بات بات پر قسمیں اٹھانا جیسے کہ بعض لوگوں کا تکیہ کلام ہوتا ہے ‘اسے معاف قرار دیا گیا ہے ۔تا ہم اسے معمولی نہیں جاننا چاہیے بلکہ اپنی عادت بدلے کی بھر پور کوشش کرنی چاہیے اور تیسری جھوٹی قسم ‘اسے ’’یمین غموس‘‘ کہتے ہیں یعنی گناہ‘ عتاب اور ہلاکت میں ڈبو دینے والی اسے اکبر الکبائر میں شمار کیا گیا ہے قرآن مجید میں ہے (وَلَا تَنْقُضُوا الْأَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيدِهَا)(النخل :91) ’’اپنی قسموں کو پختہ کرنے کے بعد مت توڑو۔‘‘( لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَكِنْ يُؤَاخِذُكُمْ بِمَا كَسَبَتْ قُلُوبُكُمْ)(القرۃ :225)’’ اللہ تمہیں تمہاری ان قسموں پر نہیں پکڑے گا جو پختہ نہ ہوں ‘ہاں اس چیز پر پکڑے گا جو تمہارے دلوں کا فعل ہو۔‘‘
٭نذر کی لغوی اور اصطلاحی تعریف: لغت میں نذر کے معنی ہیں (اَلْوعدُ بخيرٍ أوْشَرٍّ)’’اچھا یا برا وعدہ‘‘۔ شرع میں نذر کا مطلب ہے(هوَ الْتزامُ قُرْبَةٍ غَيْرِ لاَزِمَةٍ)’’ اللہ تعالیٰ کے قرب کے حصول کے لیے کسی چیز کو اپنے اوپر لازم قرار دے لینا نذر کہلاتا ہے۔‘‘
٭نذر کی مشروعیت: نذر گزشتہ ادیان میں بھی مشروع تھی اور زمانہ جاہلیت میں بھی اس کا رواج عام تھا مشرکین بتوں کے نام پر نذر مانتے تھے تا کہ ان کا قرب حاصل ہو اپنی حاجات طلبی کے لیے نذر و نیاز ان کے ہاں مقبول عام عمل تھا۔ اسلام نے نذر کو مشروع رکھا ہے لیکن اس کے لیے قواعد و ضوابط رکھے ہیں تا کہ یہ اللہ کی رضا کے حصول کا باعث بنے اور غیر اللہ کے ساتھ اس کا تعلق ختم ہو جائے۔قرآن مجید میں اس کی مشروعیت کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(وَمَا أَنْفَقْتُمْ مِنْ نَفَقَةٍ أَوْ نَذَرْتُمْ مِنْ نَذْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُهُ)(ال بقرۃ:270)
’’تم جتنا کچھ خرچ کرو یعنی خیرات کرو اور جو کچھ نذر مانو اسے اللہ بخوبی جانتا ہے ۔‘‘
«مَنْ نَذَرَ أَنْ يُطِيعَ اللَّهَ فَلْيُطِعْهُ، وَمَنْ نَذَرَ أَنْ يَعْصِيَهُ فَلاَ يَعْصِهِ» (صحیح البخاری‘ الایمان والنذور‘ حدیث:6696)
’’جس شخص نے اللہ کی اطاعت کی نذر مانی تو وہ اس کی اطاعت کرے (نذر پوری کرے) اور حس نے اس کی معصیت کی نذر مانی وہ اس کی نافرمانی نہ کرے۔‘‘
ابوعثمان نے سیدنا عبدالرحمٰن بن ابی بکر ؓ سے یہ حدیث مذکورہ بالا حدیث کی مانند روایت کی اور ابن مثنی نے سالم کی اس حدیث میں مزید کہا : مجھے یہ بات نہیں پہنچی کہ ( سیدنا ابوبکر ؓ نے ) کفارہ بھی دیا ۔
حدیث حاشیہ:
1۔یہ دلچسپ حدیث صحیح بخاری میں تفصیل سے پڑھنے کے لائق ہے۔(صحیح البخاری ۔مواقیت الصلواۃ حدیث 602) اس میں ہے کہ ایک کرامت ظاہر ہوئی کہ کھانا بڑھ گیا۔اور پھر وہ اسے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بھی لے گئے 2۔اس میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے اہل بیت کی بہت بڑی فضیلت کا بیان ہے۔ اوریہ کہ مہمان نوازی ایک اہم شرعی حق ہے۔3۔شرعی ضرورت کے تحت عشاء کے بعد ضروری امور سرانجام دینا جائز ہے۔4۔مہمانوں کے ساتھ مل کر کھانے میں ایکدوسرے کا اکرام ہے۔اور یہ ایک مستحب عمل ہے۔5۔شرعی حقوق کی کوتاہی میں بڑی عمرکی اولاد کو دوسروں کےسامنے بھی ڈانٹ ڈپٹ کی جاسکتی ہے۔6۔کسی بات پر قسم کھائی ہو لیکن اس کادوسرا پہلو زیادہ بہتر ہو تو قسم توڑ دینی چاہیے۔7۔ اولیاء اور صالحین کی کرامات حق ہیں۔8۔مذکورہ بالا صورت میں اگر کسی نے قسم توڑی ہو تو کفارہ لازم آتا ہے۔ اور حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قصے میں کفارے کا زکر ویسے ہی نہیں آیا۔کچھ نے کیا ہے کہ ممکن ہے یہ واقعہ وجوب کفارہ سے پہلے کا ہو اور کچھ نے اسے لغو قسم شمار کیا ہے۔مگر یہ متبادر نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اس سند سے بھی عبدالرحمٰن بن ابوبکر ؓ سے یہ حدیث اسی طرح مروی ہے اور اس میں مزید یہ ہے کہ سالم نے اپنی حدیث میں کہا کہ مجھے یہ معلوم نہ ہو سکا کہ ابوبکر ؓ نے اس قسم کا کفارہ دیا ہو ( کیونکہ یہ قسم لغو ہے ) ۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
A similar tradition has also been transmitted by 'Abd al-'Rahman b. Abi Bakr through a different chain of narrators. This version adds on the authority of Salim:
"Expiation (for breaking the oath) has not reached me".