Abu-Daud:
Oaths and Vows (Kitab Al-Aiman Wa Al-Nudhur)
(Chapter: An Oath To Sever Ties Of Kinship)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3272.
جناب سعید بن مسیب ؓ سے روایت ہے کہ انصاریوں میں دو بھائیوں میں وراثت کا معاملہ تھا ۔ ایک نے دوسرے سے تقسیم کا مطالبہ کیا تو اس نے کہا : اگر تو نے مجھ سے دوبارہ تقسیم کی بات کی تو میرا سب مال کعبہ کے لیے وقف ہوا ۔ سیدنا عمر ؓ نے اس سے فرمایا : کعبہ تیرے مال کا محتاج نہیں ۔ اپنی قسم کا کفارہ ادا کر اور اپنے بھائی سے ( تقسیم کے بارے میں ) بات کر ۔ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے ‘ آپ ﷺ فرماتے تھے ” رب تعالیٰ کی نافرمانی میں تیری کوئی قسم ہے ‘ نہ نذر اور نہ قطع رحمی میں نذر ہے اور نہ اس چیز میں جس کا تو مالک نہیں ۔
٭قسم کی اہمیت اور اس کی اقسام: کسی معاملے کو اللہ کے نام یا اس کی صفات کا ذکر کر کے یقینی بنانے کو حلف اٹھانا یا قسم کھانا کہتے ہیں ۔چونکہ عرب لوگ ایسے مواقع پر با ہم مصافحہ بھی کرتے تھے اس لیے اسے (يمين) اس کی تین قسمیں ہیں:ایک حقیقی اور سچی قسم ‘جو بالعزم اٹھائی جاتی ہے ‘اسے ’’یمین مُعَقَّد‘‘ کہتے ہیں اور اس کے مطابق عمل کرنا حتی الامکان لازم ہوتا ہے ‘ورنہ کفارہ واجب ہوتا ہے ۔ دوسری ’’یمین لغو‘‘ ہے ۔یعنی بلا عزم بات بات پر قسمیں اٹھانا جیسے کہ بعض لوگوں کا تکیہ کلام ہوتا ہے ‘اسے معاف قرار دیا گیا ہے ۔تا ہم اسے معمولی نہیں جاننا چاہیے بلکہ اپنی عادت بدلے کی بھر پور کوشش کرنی چاہیے اور تیسری جھوٹی قسم ‘اسے ’’یمین غموس‘‘ کہتے ہیں یعنی گناہ‘ عتاب اور ہلاکت میں ڈبو دینے والی اسے اکبر الکبائر میں شمار کیا گیا ہے قرآن مجید میں ہے (وَلَا تَنْقُضُوا الْأَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيدِهَا)(النخل :91) ’’اپنی قسموں کو پختہ کرنے کے بعد مت توڑو۔‘‘( لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَكِنْ يُؤَاخِذُكُمْ بِمَا كَسَبَتْ قُلُوبُكُمْ)(القرۃ :225)’’ اللہ تمہیں تمہاری ان قسموں پر نہیں پکڑے گا جو پختہ نہ ہوں ‘ہاں اس چیز پر پکڑے گا جو تمہارے دلوں کا فعل ہو۔‘‘
٭نذر کی لغوی اور اصطلاحی تعریف: لغت میں نذر کے معنی ہیں (اَلْوعدُ بخيرٍ أوْشَرٍّ)’’اچھا یا برا وعدہ‘‘۔ شرع میں نذر کا مطلب ہے(هوَ الْتزامُ قُرْبَةٍ غَيْرِ لاَزِمَةٍ)’’ اللہ تعالیٰ کے قرب کے حصول کے لیے کسی چیز کو اپنے اوپر لازم قرار دے لینا نذر کہلاتا ہے۔‘‘
٭نذر کی مشروعیت: نذر گزشتہ ادیان میں بھی مشروع تھی اور زمانہ جاہلیت میں بھی اس کا رواج عام تھا مشرکین بتوں کے نام پر نذر مانتے تھے تا کہ ان کا قرب حاصل ہو اپنی حاجات طلبی کے لیے نذر و نیاز ان کے ہاں مقبول عام عمل تھا۔ اسلام نے نذر کو مشروع رکھا ہے لیکن اس کے لیے قواعد و ضوابط رکھے ہیں تا کہ یہ اللہ کی رضا کے حصول کا باعث بنے اور غیر اللہ کے ساتھ اس کا تعلق ختم ہو جائے۔قرآن مجید میں اس کی مشروعیت کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(وَمَا أَنْفَقْتُمْ مِنْ نَفَقَةٍ أَوْ نَذَرْتُمْ مِنْ نَذْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُهُ)(ال بقرۃ:270)
’’تم جتنا کچھ خرچ کرو یعنی خیرات کرو اور جو کچھ نذر مانو اسے اللہ بخوبی جانتا ہے ۔‘‘
«مَنْ نَذَرَ أَنْ يُطِيعَ اللَّهَ فَلْيُطِعْهُ، وَمَنْ نَذَرَ أَنْ يَعْصِيَهُ فَلاَ يَعْصِهِ» (صحیح البخاری‘ الایمان والنذور‘ حدیث:6696)
’’جس شخص نے اللہ کی اطاعت کی نذر مانی تو وہ اس کی اطاعت کرے (نذر پوری کرے) اور حس نے اس کی معصیت کی نذر مانی وہ اس کی نافرمانی نہ کرے۔‘‘
جناب سعید بن مسیب ؓ سے روایت ہے کہ انصاریوں میں دو بھائیوں میں وراثت کا معاملہ تھا ۔ ایک نے دوسرے سے تقسیم کا مطالبہ کیا تو اس نے کہا : اگر تو نے مجھ سے دوبارہ تقسیم کی بات کی تو میرا سب مال کعبہ کے لیے وقف ہوا ۔ سیدنا عمر ؓ نے اس سے فرمایا : کعبہ تیرے مال کا محتاج نہیں ۔ اپنی قسم کا کفارہ ادا کر اور اپنے بھائی سے ( تقسیم کے بارے میں ) بات کر ۔ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے ‘ آپ ﷺ فرماتے تھے ” رب تعالیٰ کی نافرمانی میں تیری کوئی قسم ہے ‘ نہ نذر اور نہ قطع رحمی میں نذر ہے اور نہ اس چیز میں جس کا تو مالک نہیں ۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ انصار کے دو بھائیوں میں میراث کی تقسیم کا معاملہ تھا ، ان میں کے ایک نے دوسرے سے میراث تقسیم کر دینے کے لیے کہا تو اس نے کہا : اگر تم نے دوبارہ تقسیم کرنے کا مطالبہ کیا تو میرا سارا مال کعبہ کے دروازے کے اندر ہو گا ۱؎ تو عمر ؓ نے اس سے کہا : کعبہ تمہارے مال کا محتاج نہیں ہے ، اپنی قسم کا کفارہ دے کر اپنے بھائی سے ( تقسیم میراث کی ) بات چیت کرو ( کیونکہ ) میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے آپ فر رہے تھے : ” قسم اور نذر اللہ کی نافرمانی اور رشتہ توڑنے میں نہیں اور نہ اس مال میں ہے جس میں تمہیں اختیار نہیں ( ایسی قسم اور نذر لغو ہے ) “ ۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یعنی کعبہ کے لئے وقف ہو جائے گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Sa'id ibn al-Musayyab said:
There were two brothers among the Ansar who shared an inheritance. When one of them asked the other for the portion due to him, he replied: If you ask me again for the portion due to you, all my property will be devoted to the decoration of the Ka'bah.
'Umar said to him: The Ka'bah does not need your property. Make atonement for your oath and speak to your brother. I heard the Messenger of Allah (ﷺ) say: An oath or vow to disobey the Lord, or to break ties of relationship or about something over which one has no control is not binding on you.