Abu-Daud:
Oaths and Vows (Kitab Al-Aiman Wa Al-Nudhur)
(Chapter: Intentionally Swearing A False Oath)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3275.
سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ دو شخص اپنا جھگڑا نبی کریم ﷺ کے پاس لے کر آئے ‘ تو نبی کریم ﷺ نے مدعی سے گواہ طلب کیے تو اس کے پاس گواہ نہیں تھے ۔ تب آپ ﷺ نے مدعا علیہ سے قسم طلب کی تو اس نے کہا : ” قسم ہے اللہ کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں ! ( میں نے یہ کام نہیں کیا ہے جو مدعی کہتا ہے ۔ ) تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” کیوں نہیں ، تحقیق تو نے یہ کیا ہے ‘ لیکن اللہ نے تجھے اخلاص کے ساتھ «لا إله إلا الله» کہنے کی وجہ سے بخش دیا ہے ۔ “ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں اس سے مراد یہ ہے کہ آپ ﷺ نے اسے ( جھوٹی قسم کھانے پر ) کفارہ ادا کرنے کا حکم نہیں دیا ۔
تشریح:
1۔جھوٹی قسم کو یمین غموس کہا جاتاہے۔یعنی انسان کوگناہ اورہلاکت میں ڈبو دینے والی یہ کبائر میں شمار ہے اور اس کا کوئی مالی کفارہ نہیں۔دین اور آخرت کا عقاب بہت بڑی سزا ہے۔البتہ تو بہ وندامت اور آئندہ ایسا نہ کرنے کا عزم ہی اس کا کفارہ ہے۔2۔اس خاص واقعہ کی بنیاد پر کسی مسلمان کو جھوٹی قسم کھانے کی جراءت نہیں کرنی چاہیے۔3۔نبی کریمﷺ کووحی کے زریعے یہ علم ہوا کہ اس نے جھوٹی قسم کھائی ہے۔اس لئے آپ ﷺ نے پورے یقین کے ساتھ اس کے جھوٹے ہونے کا زکر کیا ہے۔علاوہ ازیں ا س کی تلافی کابیان بھی فرمایا۔
٭قسم کی اہمیت اور اس کی اقسام: کسی معاملے کو اللہ کے نام یا اس کی صفات کا ذکر کر کے یقینی بنانے کو حلف اٹھانا یا قسم کھانا کہتے ہیں ۔چونکہ عرب لوگ ایسے مواقع پر با ہم مصافحہ بھی کرتے تھے اس لیے اسے (يمين) اس کی تین قسمیں ہیں:ایک حقیقی اور سچی قسم ‘جو بالعزم اٹھائی جاتی ہے ‘اسے ’’یمین مُعَقَّد‘‘ کہتے ہیں اور اس کے مطابق عمل کرنا حتی الامکان لازم ہوتا ہے ‘ورنہ کفارہ واجب ہوتا ہے ۔ دوسری ’’یمین لغو‘‘ ہے ۔یعنی بلا عزم بات بات پر قسمیں اٹھانا جیسے کہ بعض لوگوں کا تکیہ کلام ہوتا ہے ‘اسے معاف قرار دیا گیا ہے ۔تا ہم اسے معمولی نہیں جاننا چاہیے بلکہ اپنی عادت بدلے کی بھر پور کوشش کرنی چاہیے اور تیسری جھوٹی قسم ‘اسے ’’یمین غموس‘‘ کہتے ہیں یعنی گناہ‘ عتاب اور ہلاکت میں ڈبو دینے والی اسے اکبر الکبائر میں شمار کیا گیا ہے قرآن مجید میں ہے (وَلَا تَنْقُضُوا الْأَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيدِهَا)(النخل :91) ’’اپنی قسموں کو پختہ کرنے کے بعد مت توڑو۔‘‘( لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَكِنْ يُؤَاخِذُكُمْ بِمَا كَسَبَتْ قُلُوبُكُمْ)(القرۃ :225)’’ اللہ تمہیں تمہاری ان قسموں پر نہیں پکڑے گا جو پختہ نہ ہوں ‘ہاں اس چیز پر پکڑے گا جو تمہارے دلوں کا فعل ہو۔‘‘
٭نذر کی لغوی اور اصطلاحی تعریف: لغت میں نذر کے معنی ہیں (اَلْوعدُ بخيرٍ أوْشَرٍّ)’’اچھا یا برا وعدہ‘‘۔ شرع میں نذر کا مطلب ہے(هوَ الْتزامُ قُرْبَةٍ غَيْرِ لاَزِمَةٍ)’’ اللہ تعالیٰ کے قرب کے حصول کے لیے کسی چیز کو اپنے اوپر لازم قرار دے لینا نذر کہلاتا ہے۔‘‘
٭نذر کی مشروعیت: نذر گزشتہ ادیان میں بھی مشروع تھی اور زمانہ جاہلیت میں بھی اس کا رواج عام تھا مشرکین بتوں کے نام پر نذر مانتے تھے تا کہ ان کا قرب حاصل ہو اپنی حاجات طلبی کے لیے نذر و نیاز ان کے ہاں مقبول عام عمل تھا۔ اسلام نے نذر کو مشروع رکھا ہے لیکن اس کے لیے قواعد و ضوابط رکھے ہیں تا کہ یہ اللہ کی رضا کے حصول کا باعث بنے اور غیر اللہ کے ساتھ اس کا تعلق ختم ہو جائے۔قرآن مجید میں اس کی مشروعیت کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(وَمَا أَنْفَقْتُمْ مِنْ نَفَقَةٍ أَوْ نَذَرْتُمْ مِنْ نَذْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُهُ)(ال بقرۃ:270)
’’تم جتنا کچھ خرچ کرو یعنی خیرات کرو اور جو کچھ نذر مانو اسے اللہ بخوبی جانتا ہے ۔‘‘
«مَنْ نَذَرَ أَنْ يُطِيعَ اللَّهَ فَلْيُطِعْهُ، وَمَنْ نَذَرَ أَنْ يَعْصِيَهُ فَلاَ يَعْصِهِ» (صحیح البخاری‘ الایمان والنذور‘ حدیث:6696)
’’جس شخص نے اللہ کی اطاعت کی نذر مانی تو وہ اس کی اطاعت کرے (نذر پوری کرے) اور حس نے اس کی معصیت کی نذر مانی وہ اس کی نافرمانی نہ کرے۔‘‘
سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ دو شخص اپنا جھگڑا نبی کریم ﷺ کے پاس لے کر آئے ‘ تو نبی کریم ﷺ نے مدعی سے گواہ طلب کیے تو اس کے پاس گواہ نہیں تھے ۔ تب آپ ﷺ نے مدعا علیہ سے قسم طلب کی تو اس نے کہا : ” قسم ہے اللہ کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں ! ( میں نے یہ کام نہیں کیا ہے جو مدعی کہتا ہے ۔ ) تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” کیوں نہیں ، تحقیق تو نے یہ کیا ہے ‘ لیکن اللہ نے تجھے اخلاص کے ساتھ «لا إله إلا الله» کہنے کی وجہ سے بخش دیا ہے ۔ “ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں اس سے مراد یہ ہے کہ آپ ﷺ نے اسے ( جھوٹی قسم کھانے پر ) کفارہ ادا کرنے کا حکم نہیں دیا ۔
حدیث حاشیہ:
1۔جھوٹی قسم کو یمین غموس کہا جاتاہے۔یعنی انسان کوگناہ اورہلاکت میں ڈبو دینے والی یہ کبائر میں شمار ہے اور اس کا کوئی مالی کفارہ نہیں۔دین اور آخرت کا عقاب بہت بڑی سزا ہے۔البتہ تو بہ وندامت اور آئندہ ایسا نہ کرنے کا عزم ہی اس کا کفارہ ہے۔2۔اس خاص واقعہ کی بنیاد پر کسی مسلمان کو جھوٹی قسم کھانے کی جراءت نہیں کرنی چاہیے۔3۔نبی کریمﷺ کووحی کے زریعے یہ علم ہوا کہ اس نے جھوٹی قسم کھائی ہے۔اس لئے آپ ﷺ نے پورے یقین کے ساتھ اس کے جھوٹے ہونے کا زکر کیا ہے۔علاوہ ازیں ا س کی تلافی کابیان بھی فرمایا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ دو آدمی اپنا جھگڑا لے کر نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے تو آپ نے مدعی سے گواہ طلب کیا ، اس کے پاس گواہ نہ تھا تو آپ ﷺ نے مدعی علیہ سے قسم کھانے کے لیے کہا ، اس نے اس اللہ کی قسم کھائی جس کے سوا کوئی اور معبود برحق نہیں ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” ہاں ، تم نے کیا ہے ( یعنی جس کام کے نہ کرنے پر تم نے قسم کھائی ہے اسے کیا ہے ) لیکن تمہارے اخلاص کے ساتھ «لا إله إلا الله» کہنے کی وجہ سے اللہ نے تجھے بخش دیا ہے ۱؎ “ ۔ ابوداؤد کہتے ہیں : اس حدیث سے یہ نکلتا ہے کہ آپ ﷺ نے اسے کفارہ کا حکم نہیں دیا ۲؎ ۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : اس میں اس بات پر دلیل ہے کہ کبائر اخلاص کے ساتھ کلمۂ توحید پڑھنے پر معاف کر دیئے جاتے ہیں۔ ¤ ۲؎ : کیونکہ یہ ایسا گناہ ہے جسے کفارہ مٹا نہیں سکتا اس کا کفارہ صرف توبہ ہے، رسول اللہ صلی+اللہ+علیہ+وسلم نے فرمایا ہے� «خمس ليس لهن كفارة: الشرك بالله وقتل النفس بغير حق وبهت مؤمن والفرار يوم الزحف ويمين صابرة يقتطع بها مالا بغير حق» ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah ibn 'Abbas (RA):
Two men brought their dispute to the Prophet (ﷺ). The Prophet (ﷺ) asked the plaintiff to produce evidence, but he had no evidence. So he asked the defendant to swear. He swore by Allah "There is no god but He".
The Apostle of Allah (ﷺ) said: Yes, you have done it, but you have been forgiven for the sincerity of the statement: "There is no god but Allah".