Abu-Daud:
Oaths and Vows (Kitab Al-Aiman Wa Al-Nudhur)
(Chapter: Freeing A Believing Slave (As Expiation))
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3283.
جناب شرید بن سوید ثقفی ؓ کہتے ہیں کہ ان کی والدہ نے ان کو وصیت کی کہ وہ اس کی طرف سے ایک ایماندار ( لونڈی یا غلام ) کی گردن آزاد کر دیں ۔ چنانچہ وہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : اے اﷲ کے رسول ! میری والدہ نے وصیت کی ہے کہ میں اس کی طرف سے ایک مومن گردن آزاد کر دوں ‘ تو میرے پاس نوبی قبیلے کی سیاہ رنگ لونڈی ہے اور مذکورہ بالا حدیث کی مانند روایت کیا ۔ تو کیا میں اسے آزاد کر دوں ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” اسے میرے پاس بلاؤ ۔ چنانچہ اسے بلایا تو وہ آئی ۔ نبی کریم ﷺ نے اس سے پوچھا ” تیرا رب کون ہے ؟ “ اس نے کہا : اﷲ ۔ آپ ﷺ نے پوچھا ” میں کون ہوں ؟ “ اس نے کہا : رسول اﷲ ۔ آپ ﷺ نے فرمایا ” اس کو آزاد کر دو بلاشبہ یہ مومن ہے ۔ “ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں ( دوسری سند میں ) خالد بن عبداللہ نے اسے مرسل بیان کیا ہے اور شرید کا ذکر نہیں کیا ۔
تشریح:
اللہ تعالیٰ کے ہاں رنگ نسل کی نہیں ایمان وعمل کی اہمیت ہے۔
٭قسم کی اہمیت اور اس کی اقسام: کسی معاملے کو اللہ کے نام یا اس کی صفات کا ذکر کر کے یقینی بنانے کو حلف اٹھانا یا قسم کھانا کہتے ہیں ۔چونکہ عرب لوگ ایسے مواقع پر با ہم مصافحہ بھی کرتے تھے اس لیے اسے (يمين) اس کی تین قسمیں ہیں:ایک حقیقی اور سچی قسم ‘جو بالعزم اٹھائی جاتی ہے ‘اسے ’’یمین مُعَقَّد‘‘ کہتے ہیں اور اس کے مطابق عمل کرنا حتی الامکان لازم ہوتا ہے ‘ورنہ کفارہ واجب ہوتا ہے ۔ دوسری ’’یمین لغو‘‘ ہے ۔یعنی بلا عزم بات بات پر قسمیں اٹھانا جیسے کہ بعض لوگوں کا تکیہ کلام ہوتا ہے ‘اسے معاف قرار دیا گیا ہے ۔تا ہم اسے معمولی نہیں جاننا چاہیے بلکہ اپنی عادت بدلے کی بھر پور کوشش کرنی چاہیے اور تیسری جھوٹی قسم ‘اسے ’’یمین غموس‘‘ کہتے ہیں یعنی گناہ‘ عتاب اور ہلاکت میں ڈبو دینے والی اسے اکبر الکبائر میں شمار کیا گیا ہے قرآن مجید میں ہے (وَلَا تَنْقُضُوا الْأَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيدِهَا)(النخل :91) ’’اپنی قسموں کو پختہ کرنے کے بعد مت توڑو۔‘‘( لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَكِنْ يُؤَاخِذُكُمْ بِمَا كَسَبَتْ قُلُوبُكُمْ)(القرۃ :225)’’ اللہ تمہیں تمہاری ان قسموں پر نہیں پکڑے گا جو پختہ نہ ہوں ‘ہاں اس چیز پر پکڑے گا جو تمہارے دلوں کا فعل ہو۔‘‘
٭نذر کی لغوی اور اصطلاحی تعریف: لغت میں نذر کے معنی ہیں (اَلْوعدُ بخيرٍ أوْشَرٍّ)’’اچھا یا برا وعدہ‘‘۔ شرع میں نذر کا مطلب ہے(هوَ الْتزامُ قُرْبَةٍ غَيْرِ لاَزِمَةٍ)’’ اللہ تعالیٰ کے قرب کے حصول کے لیے کسی چیز کو اپنے اوپر لازم قرار دے لینا نذر کہلاتا ہے۔‘‘
٭نذر کی مشروعیت: نذر گزشتہ ادیان میں بھی مشروع تھی اور زمانہ جاہلیت میں بھی اس کا رواج عام تھا مشرکین بتوں کے نام پر نذر مانتے تھے تا کہ ان کا قرب حاصل ہو اپنی حاجات طلبی کے لیے نذر و نیاز ان کے ہاں مقبول عام عمل تھا۔ اسلام نے نذر کو مشروع رکھا ہے لیکن اس کے لیے قواعد و ضوابط رکھے ہیں تا کہ یہ اللہ کی رضا کے حصول کا باعث بنے اور غیر اللہ کے ساتھ اس کا تعلق ختم ہو جائے۔قرآن مجید میں اس کی مشروعیت کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(وَمَا أَنْفَقْتُمْ مِنْ نَفَقَةٍ أَوْ نَذَرْتُمْ مِنْ نَذْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُهُ)(ال بقرۃ:270)
’’تم جتنا کچھ خرچ کرو یعنی خیرات کرو اور جو کچھ نذر مانو اسے اللہ بخوبی جانتا ہے ۔‘‘
«مَنْ نَذَرَ أَنْ يُطِيعَ اللَّهَ فَلْيُطِعْهُ، وَمَنْ نَذَرَ أَنْ يَعْصِيَهُ فَلاَ يَعْصِهِ» (صحیح البخاری‘ الایمان والنذور‘ حدیث:6696)
’’جس شخص نے اللہ کی اطاعت کی نذر مانی تو وہ اس کی اطاعت کرے (نذر پوری کرے) اور حس نے اس کی معصیت کی نذر مانی وہ اس کی نافرمانی نہ کرے۔‘‘
جناب شرید بن سوید ثقفی ؓ کہتے ہیں کہ ان کی والدہ نے ان کو وصیت کی کہ وہ اس کی طرف سے ایک ایماندار ( لونڈی یا غلام ) کی گردن آزاد کر دیں ۔ چنانچہ وہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : اے اﷲ کے رسول ! میری والدہ نے وصیت کی ہے کہ میں اس کی طرف سے ایک مومن گردن آزاد کر دوں ‘ تو میرے پاس نوبی قبیلے کی سیاہ رنگ لونڈی ہے اور مذکورہ بالا حدیث کی مانند روایت کیا ۔ تو کیا میں اسے آزاد کر دوں ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” اسے میرے پاس بلاؤ ۔ چنانچہ اسے بلایا تو وہ آئی ۔ نبی کریم ﷺ نے اس سے پوچھا ” تیرا رب کون ہے ؟ “ اس نے کہا : اﷲ ۔ آپ ﷺ نے پوچھا ” میں کون ہوں ؟ “ اس نے کہا : رسول اﷲ ۔ آپ ﷺ نے فرمایا ” اس کو آزاد کر دو بلاشبہ یہ مومن ہے ۔ “ امام ابوداؤد ؓ فرماتے ہیں ( دوسری سند میں ) خالد بن عبداللہ نے اسے مرسل بیان کیا ہے اور شرید کا ذکر نہیں کیا ۔
حدیث حاشیہ:
اللہ تعالیٰ کے ہاں رنگ نسل کی نہیں ایمان وعمل کی اہمیت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
شرید سے روایت ہے کہ ان کی والدہ نے انہیں اپنی طرف سے ایک مومنہ لونڈی آزاد کر دینے کی وصیت کی تو وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے اور عرض کیا : اللہ کے رسول ! میری والدہ نے مجھے وصیت کی ہے کہ میں ان کی طرف سے ایک مومنہ لونڈی آزاد کر دوں ، اور میرے پاس نوبہ ( حبش کے پاس ایک ریاست ہے ) کی ایک کالی لونڈی ہے ۔ ۔ ۔ پھر اوپر گزری ہوئی حدیث کی طرح ذکر کیا ۔ ابوداؤد کہتے ہیں کہ خالد بن عبداللہ نے اس حدیث کو مرسلاً روایت کیا ہے ، شرید کا ذکر نہیں کیا ہے ۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ash-Sharid ibn Suwayd ath-Thaqafi:Sharid's mother left a will to emancipate a believing slave on her behalf. So he came to the Prophet (ﷺ) and said: Messenger of Allah, my mother left a will that I should emancipate a believing slave for her, and I have a black Nubian slave-girl. He mentioned a tradition about the test of the girl. Abu Dawud said: Khalid b. 'Abd Allah narrated this tradition direct from the Prophet (ﷺ). He did not mention the name of al-Sharid.